افغانستان عبرت حاصل کرے!
کہنے کو امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا ہے، لیکن اس نے اینٹ سے اینٹ پاکستان کی بجاکررکھ دی ہے۔ دنیا کو بتانے کے لئے امریکہ کے پاس یہ جواز کافی تھا کہ نائن الیون کا ماسٹر مائنڈ اسامہ بن لادن افغانستان کے پہاڑوں میں ہے اور بھارت کے پاکستان کے خلاف سرگرم ہونے کے لئے یہ کافی تھا کہ اس کا یارِ غار امریکہ افغانستان میں آن بیٹھا تھا۔ گویا بھارت گزشتہ گیارہ برسوں میں خوب کھل کر کھیلا ہے اور افغانستان میں موجود اثاثوں کی بدولت تاحال اپنے لئے ایک مستقل کردار کی تلاش میں ہے۔ بھارت کو ظاہر ہے اس امر سے کوئی سروکار نہیں کہ ان منفی کاوشوں سے علاقائی امن تباہ و برباد ہورہا ہے۔ اس کی تسلی کے لئے اتنا ہی بہت ہے کہ پاکستان مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔ بھارت سے تو خیر کوئی گلہ نہیں کیا جاسکتا، ظاہر ہے وہ کھل کر یا پوشیدہ رہتے ہوئے ہر وہ کام کرے گا، جس سے پاکستان کے مسائل میں اضافہ ہو، لیکن افغانستان کا کیا کیا جائے کہ جس کے آج بھی لاکھوں مہاجرین پاکستان بھر اور اس کے دارالحکومت اسلام آباد جیسے شہر میں پورے پورے سیکٹروں پر قابض ہیں اور افغان حکومت اُن کی واپسی کے لئے کسی بھی قسم کی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کررہی۔
چلیں یہ معاملہ تو خیر پاکستان کی ناقص حکمت عملی کی نشاندہی کرتا ہے ، جس نے اسی کی دہائی میں بغیر کسی پلاننگ کے ان مہاجرین کو پاکستان کے اندر پھلنے پھولنے کا موقع دیا۔ پاکستان سے ایک غلطی یہ بھی ہوئی کہ اس نے روس کو ”پاش پاش“ کرنے کے جذبے کے پیش نظر انتہا پسندی کو پنپنے دیا اور جو لوگ افغانستان میں روسی افواج کے خلاف لڑتے رہے، ظاہر ہے روسی افواج کے وہاں سے نکلنے کے بعد ان کے لئے اس کے علاوہ اور کیا مصروفیت رہ گئی تھی کہ جو کام انہوں نے سیکھا ہے،اسے جاری رکھتے۔ جب امریکہ افغانستان میں آدھمکا تو ان گروہوں کا خیال تھا کہ وہ پاکستان کی مرضی سے اس خطے میں آیا ہے۔ ایک بات سمجھنے کی ہے، وہ یہ کہ امریکہ نے اس خطے میں آنا تھا سو وہ آگیا۔ اسے پاکستان کی مرضی قطعاً درکار نہیں تھی۔ اس کا ایک ایجنڈا تھا، جس کی تکمیل میں وہ کافی حد تک کامیاب رہا ہے۔
ان گیارہ برسوں میں پاکستان کی صورت حال ابتر ہوتی جارہی ہے، جبکہ امریکہ نائن الیون کے واقعہ سے پہلے بھی محفوظ تھا، وہ آج بھی محفوظ ہے۔ نائن الیون کے واقعہ کے بعد سے آج تک امریکہ کے مختلف شہروں میں دہشت گردوں کے کل ملاکر تین سے زیادہ واقعات نہیں ہوئے ہوں گے۔ اس میں بھی اُن کے اپنے شہری ہی ملوث پائے گئے۔ ایک امریکی نوجوان نے ایک تھیٹر کو نشانہ بنایا اور اب بوسٹن میں جو واقعہ ہوا ہے، اس میں بھی چیچن باشندوں کے ملوث ہونے کی اطلاعات آئی ہیں، جو امریکی شہری ہیں۔ ایک مارا گیا، دوسرے کو گرفتار کر لیا گیا، بلکہ ان کے تین دیگر ساتھی بھی پکڑے گئے، گویا امریکہ محفوظ ہی محفوظ ہے اور اس نے دہشت گردی کے خلاف جس جنگ کا ڈھونگ رچایا تھا۔ اس کا ہدف افغانستان اور پاکستان تھے اور اب بھی ہیں۔ افغانستان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی اور وہ وہی غلطی دہرارہا ہے جو پاکستان نے کی۔ اس نے بلاسوچے سمجھے انتہا پسند گروہوں کی پشت پناہی کی، جو آج پلٹ کر پاکستان کو ہی نشانہ بنارہے ہیں۔
اب افغانستان اس پالیسی پر گامزن ہے کہ پاکستان سے بھاگے ہوئے بعض انتہا پسند گروہوں سے دوستانہ رویہ اپنائے ہوئے ہے اور وہ افغانستان سرحد عبور کرکے پاکستانی دیہات اور چوکیوں پر حملوں کے مرتکب ہورہے ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ بارڈر کے اس پار سے جو لوگ حملے کررہے ہیں، وہ نہ تو افغانستان کی حکومت کو دکھائی دے رہے ہیں اور نہ ہی نیٹو فورسز کو دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان کی سرحد کے اس پار کوئی ڈرون پھینکنا ہو تو بین الاقوامی فورسز کی آئی سائیٹ (نظر) 6/6 ہوجاتی ہے، لیکن جب معاملہ پاکستان پر حملوں کا آتا ہے تو وہ اپنی آنکھیں بند کرلیتے ہیں۔ کیا افغانستان کی کرزئی حکومت نے کبھی سوچا ہے کہ جن لوگوں کی آج سرپرستی کی جارہی ہے، جب امریکہ اور حلیف ممالک کی افواج افغانستان سے نکل جائیں گی تویہ گر وہ جو آج پاکستان کے خلاف حملے کرتے نہیں تھکتے، کل کلاں کو افغانستان کے لئے ایک خطرہ بن کر ابھریں گے۔
آج امریکہ اور بھارت مل کر افغانستان کو جو لالی پاپ دکھارہے ہیں حالات ہمیشہ ویسے نہیں رہیں گے۔ وقت بدلتا ہے اور قوموں کو وہی کاٹنا پڑتا ہے جو اس نے بویا ہوتا ہے۔ افغانستان اور پاکستانی عوام کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں لوگ ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں۔ ایک بین الاقوامی سازش کے تحت ایک ہی فکر اور نظرئیے کے حامل لوگوں کو آپس میں گتھم گتھا کردیا گیا۔ یوں اس دوران دشمنوں کی ہر ضرب، کاری ضرب ثابت ہوئی۔ قوم اگر چوٹ کھا کر بھی نہیں سنبھلتی تو پھر وہ ہمیشہ کے لئے ایسے دلدل میں پھنس جاتی ہے جہاں س نکلنے کی اس کے اندر آرزو بھی جنم نہیں لیتی، لہٰذا افغانستان کو دوسری قوتوں کا دم چھلا بننے کی بجائے خود سے کچھ ایسا کرنے کی سعی کرنا ہوگی جس سے نہ صرف اس کا اپنا مستقبل محفوظ ہو بلکہ وہ پڑوسی ممالک کے لئے بھی عافیت کا باعث ہو۔ خدا کرے ایسا ہی ہو۔ ٭