فیصلے کی گھڑی

فیصلے کی گھڑی
فیصلے کی گھڑی

  

 یکسانیت بے کیف ہوتی ہے ۔ کوئی کھانا چاہے کتنا ہی لذیز کیوں نہ ہو، تواتر سے کھانے سے دل بھر جاتا ہے، کیونکہ ذوق ِ لطیف رکھنے والی انسانی فطرت ہر معاملے میں جدت کی متلاشی ہوتی ہے ، چنانچہ نئی راہیں اُسے اپنی طرف کھنچتی ہیں ، نیا جادئہ زیست اُسے آمادہ ِ عمل کرتا ہے، نئی منزلوںکی چاہ اُس کی آنکھوں کی چمک اور دل کی دھڑکن بڑھا دیتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کیا فیشن انڈسٹری وجود میں آتی ؟ مشہور کتاب ”کاما سترا“ لکھی جاتی اور نہ ہی انسان لذت ِ کام و دہن کے لئے سرگرداں ہوتا،چنانچہ یہ بات طے شدہ ہے کہ فطرت ِ آدم تبدیلی کی خواستگار ہے، چاہے یہ تبدیلی انتشار کی طرف ہی کیوں نہ لے جائے، لیکن انسان کی خطر پسند طبیعت کنج ِ عافیت سے اکتاجاتی ہے ۔ درحقیقت یہی گرم طلبی ہنگامہ ¿ عالم گرم رکھتے ہوئے ایک ایسی دنیا بساتی ہے جہاں ”سورج بھی تماشائی، تارے بھی تماشائی“ رہتے ہیں۔

 تاہم اس اسلامی جمہوریہ میں گزشتہ تیس برس سے یکسانیت کا ہی راج ہے۔ یہ درست ہے کہ یہاں بھی سلسلہ ¿ لیل و نہار جاری رہتا ہے، لیکن ہم ایک طلسم کا شکار ہیں، جہاں ایک دریا کے پار اترتے ہیں تو ایک اور نہیں، بلکہ وہی دریا سامنے موجود ہوتا ہے۔ اس عالم میں ہم ربع صدی سے محو ِ سفر ہیں ۔ وہ کھانا جو ہم نے صبح کھایا تھا، وہی دوپہر کو زیب ِ دسترخوان ہے اور وہی رات کو زہر مار کرنا ہے۔ لگتا ہے کہ یا تو ہم سموئل بیکٹ کے لازوال ڈرامے ”ویٹنگ فار گاڈو“ کے کردار ہیں ،جو کسی مسیحا کے منتظر ہیں ،مگر ان کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی، یا یونانی دیومالائی کردار سی سیپس کی طرح ایک ہی بھاری پتھر دھکیلتے ہوئے چوٹی پر پہنچاتے ہیں ، مگر وہ نیچے گر جاتا ہے اور ہم وہی عمل دہرانے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں۔

ونسٹن چرچل نے دوسری جنگ ِ عظیم میں اتحادی افواج کی قیادت کی تھی، لیکن ابھی جنگ ختم نہیںہوئی تھی کہ جولائی1945 کے انتخابات میں ان کے ہم وطنوںنے انہیں اقتدار سے چلتا کر دیا۔ جب اُن کو ”Order of the Garter “ پیش کیا گیا تو اُنہوںنے کہا کہ جب قوم نے اُن کو وزارت ِ اعظمیٰ کے لائق نہیں سمجھاتو وہ کسی اور اعزاز کو کیوں قبول کریں؟مارگریٹ تھیچر کو آپ اچھا سمجھیں یابرا، وہ کوئی عام برطانوی وزیر ِ اعظم نہیں تھیں،لیکن ان کے دس سالہ دور سے اکتاتے ہوئے اس کی اپنی پارٹی کے اراکین نے بغاوت کردی اور اُن کو منصب چھوڑنا پڑا۔ مسٹر ٹونی بلیئر لیبر پارٹی سے تعلق رکھنے والے کامیاب ترین سیاست دان تھے اور اُنہوںنے اپنی پارٹی کو تین انتخابات میں فتح دلائی ،لیکن دس سال بعد ان کی اپنی پارٹی بھی اُن سے اکتاگئی اور مسٹر گورڈن براﺅن نے ان کی جگہ لے لی۔ بات یہ ہے کہ جیسے مٹھاس انسان کو اچھی لگتی ہے، لیکن بہت زیادہ مٹھاس طبیعت کو مکدر کر دیتی ہے، اسی طرح اچھائی، نیکی، بھلائی کا بھی بہت زیادہ درس انسان میں جھنجلاہٹ پیدا کردیتا ہے ۔ اُس کا جی چاہتا ہے کہ فرزانگی اختیار کرتے ہوئے گریباں چاک ہوجائے۔ جن برطانوی وزرائے اعظم کی مثالیں دی ہیں، چلیں وہ تو اب تاریخ کا حصہ ہیں، لیکن اس اسلامی جمہوریہ میںہم ابھی رہ گزرمیں ہیں اور قید ِ مقام کو ہی منزل سمجھ بیٹھے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد سے قومی زندگی میں کوئی ارتعاش نہیںہے، کوئی جنبش نہیںہے اور اتنا سناٹا ہے کہ صحرا بھی صدا دیتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔

بھٹو کا طلسم ختم کرنے کے لئے پہلے تو ہمارے خفیہ اور دفاعی اداروںنے آئی جے آئی (اسلامی جمہوری اتحاد)قائم کیا، پھر اس کی قیادت کے لئے ان کی نگاہ ِ انتخاب مسٹر نواز شریف پر پڑی، تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نواز شریف نے اس پیرہن کو چاک کر دیا اور ایک مقبول عوامی رہنما کا روپ دھار لیا۔ ان کی جماعت ، پی ایم ایل (ن) صف ِ اول کی جماعت بن گئی اور یہ کوئی معمولی کارنامہ نہیں تھا، خاص طور پر جب کسی رہنما یا جماعت کا آغاز غیر سیاسی قوتوں کے ہاتھوںعمل میں آیا ہو، تاہم یہ 1993 ءکی بات ہے بیس سال گزر چکے ہیں۔ آج پاکستان آگے بڑھ چکا ہے ترقی کی طرف نہیں، بلکہ اس کے مسائل مزید پیچیدہ اور گھمبیر ہو چکے ہیں، لیکن سیاسی قیادت قدیم طرز عمل و فکر کی شکار ہے۔ اس میںکوئی شک نہیں ہے کہ پی ایم ایل (ن) کی حریف جماعت پی پی پی بھی ماضی کے انہی جھروکوں سے ہی خود کو دیکھ رہی ہے ، لیکن کیا پاکستان اسی حمام ِ باد گرد کا شکار رہنے کے لئے بنا ہے ؟اس وقت پی ایم ایل (ن) کے عروج کا زمانہ گزر چکا ہے ۔ہو سکتا ہے کہ یہ ابھی انتخابات میں کامیابی حاصل کر لے، لیکن یہ ایک ناقابل ِ تردید حقیقت ہے کہ یہ مستقبل کے امکانات کا پتہ دینے کی بجائے گزرے ہوئے ماضی کی یاددلاتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کو وقت کے نت نئے چیلنجوں سے نبرد آزماہونے کے لئے خود کو نئے پیمانوں میں ڈھالنا ہوتا ہے۔ دیگر ممالک میں ایسا ہی ہوتا ہے برطانیہ کی لیبر پارٹی آج وہ نہیں ہے جو بیس یا تیس کی دھائی میں تھی۔ اسی طرح امریکہ میں رپبلکن اور ڈیموکریٹ پارٹیوں کا زاویہء¿ فکر آج وہ نہیںہے جو کبھی ہوا کرتا تھا۔ تاہم پاکستان میں ایسی تبدیلی عنقا ہے ۔ اس کی وجہ تخیلات کی کمی ہو یا ” نظریات “ کی زیادتی، ہم ایک ہی الجھی رسی کو سلجھا رہے ہیں ۔

ہماری گھٹن زدہ سیاسی فضا میںعمران خان کی پی ٹی آئی ہوا کے ایک تازہ جھونکے کی مانند ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ اس جماعت میں بہت سے روایتی سیاست دان ، جیسا کہ قریشی، ہاشمی، ترین وغیرہ شامل ہوگئے ہیں، لیکن اس کے باوجود یہ نوجوانوںکے دل کی دھڑکن بن گئی ہے۔یہ بھی غلط نہیںہے کہ عمران خان کا پیغام کوئی اتنا بھی انقلابی نہیںہے ، لیکن اس نے تبدیلی کا ایک شعلہ سا بھڑکا دیا ہے۔ ابھی اس کے نوجوان ساتھی اُس تبدیلی کے پیمانوں سے نا واقف ہیں،لیکن ایک بات وہ طے کر چکے ہیں کہ اس ملک کو تبدیلی کی ضرورت ہے، تاہم انتخابی سیاست میں تبدیلی کا نعرہ کس طرح کے نتائج پیدا کرتا ہے، یہ دیکھا جانا باقی ہے (اور کالم کی اشاعت تک فیصلے کا دن آچکا ہو گا)۔

پاکستانی انتخابات کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں رائے عامہ جانچنے کے لئے جامع سروے نہیںہوتے، اس لئے نام نہاد سیاسی پنڈت اپنی ذاتی رائے کو ہی رائے عامہ سمجھ لیتے ہیں۔ چنانچہ مبصرین اپنی سوچ کے مطابق ہر جماعت کو نشستیں عطاکرتے رہتے ہیں۔ ایسے ”انتخابات “ میں پی ایم ایل (ن) غالب رہتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پنجاب میں مسلم لیگ(ن) اور پی ٹی آئی کا کانٹے کا مقابلہ ہوگا۔کچھ کا کہناہے کہ پی پی پی اس دوڑ سے باہر ہو چکی ہے ، کچھ کا کہنا ہے کہ ووٹ تقسیم ہونے کا پی پی پی کو فائدہ ہو گا۔ اسی طرح نوجوانوں کے ووٹ پر بھی دو آراءہیں۔ کچھ ماہرین اسے فیصلہ کن قرار دے رہے ہیں، جبکہ کچھ کے نزدیک اس سے صرف ووٹنگ ٹرن آﺅ ٹ میں ہی اضافہ ہو گا، مگر کسی جماعت کو فیصلہ کن برتری حاصل نہیںہوگی، تاہم ہمارے سیاسی ناقدین ایسے تبصرے کرتے ہوئے اپنے داخلی جذبات ، نہ کہ خارجی حقائق، کو مدِ نظر رکھتے ہیں۔

ان انتخابات کا یہی غیر یقینی پن ہے، جس نے انہیں اتنا دلچسپ بنا دیا ہے۔ انتخابی مقابلے اتنے سنسنی خیز ہونے کی توقع ہے کہ نتائج کی رات طبی ماہرین فشار خون کے مریضوںکو نتائج نہ دیکھنے کی ہدایت کر سکتے ہیں۔ گزشتہ انتخابات دوٹوک معاملہ تھے ؛پی پی پی اور پی ایم ایل (ن) کے درمیان پنجہ آزمائی تھی اور سب کو معلوم تھا کہ کون کس حلقے میں زیادہ مضبوط ہے، تاہم پی ٹی آئی کی مقبولیت کے گراف نے ان انتخابات کے روایتی نتائج کے آئینہ خانے میں پتھر پھینک دیا ہے۔ اس طرح ملک میں ایک تبدیلی تو انتخابات سے پہلے ہی آچکی ہے کہ پی پی پی اور پی ایم ایل (ن) کی باری قوم کو بار محسوس ہورہی ہے۔ تبدیلی کا یہ نعرہ لگانے والا شخص عمران خان ہے، جس کے بے پناہ عزم اور حوصلے نے نوجوانوں کے جذ بوں کو مہمیز دی ہے ۔ اس میدان میں پاکستان کا کوئی سیاست دان ان کا حریف نہیںہے۔ اگر تبدیلی کے نعروں میں کچھ شاعرانہ تخیلات کی آمیزش بھی ہوتی تو وہ اور اُن کے جوشیلے ساتھی پاکستانی سیاست کے برج الٹ سکتے تھے ۔

 اس وقت انتخابی مسابقت کا معرکہ پنجاب کی سرزمین پر ہونے والا ہے، لیکن جہاں پنجاب تعلیم، کامرس اور صنعت میں دوسرے صوبوںسے آگے ہے، یہ نظریات کے نام پر لگائے گئے جال میں پاﺅں الجھانے میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتا، چنانچہ یہی پنجاب عدم برداشت اور انتہا پسندی کی آماجگاہ بھی ہے۔یہ بات تعجب خیز ہے کہ یہ فیض اور منیر نیازی کی سرزمین ہے۔ اس صوبے نے حبیب جالب کی انقلابی شاعری کو سامعین کو مسحورکرتے دیکھا ہے۔ اس صوبے میں اس وقت پی ایم ایل (ن) کاروباری طبقے کی نمائندگی کرتی ہے، جبکہ پی ٹی آئی سوچ سمجھ رکھنے والے تعلیم یافتہ طبقے ، جو ملک کو قواعہ وضوابط کے مطابق چلانا چاہتے ہیں، اپنی طرف متوجہ کئے ہوئے ہے، چنانچہ پنجاب کی سرزمین پر ہونے والے معرکے میں دو حریف صف آراءہیں.... ایک طرف ہال روڈ اور برانڈرتھ روڈ کا کاروباری طبقہ ہے تو دوسری طرف زمان پارک (عمران کی رہائش گاہ) اور ڈیفنس سوسائٹی کے مکین ہیں.... (یہ مقامات علامت کے طور پر استعمال کئے گئے ہیں)۔ ہال روڈ اور لاہور کی دوسری مارکیٹوںسے جنم لینے والی سیاست نے مسلم لیگ(ن) کو گزشتہ تیس برسوںسے وہ توانائی عطا کی ہوئی ہے، جس سے وہ پنجاب کی سیاست کو کنٹرول کر سکتے ہیں۔ عمران خان کی کامیابی یہ ہے کہ انہوں نے پوش علاقوں کے ان افراد کو سیاست کے کوچہ و بام سے آشنا کر دیا ہے جو اب تک اسے شجر ِ ممنوعہ سمجھتے تھے۔ عمران خان کی دوسری کامیابی یہ ہے کہ وہ ذوالفقار بھٹو کے بعد دوسرے رہنما ہیں، جنہوں نے نوجوان طبقے کی نبض پر ہاتھ رکھا ہے۔

اب جبکہ یہ فیصلے کی گھڑی آن پہنچی ہے ، اگر آپ وہی کھانا چاہتے ہیں تو ٹھیک ہے، ورنہ آپ عمران خان کے پلڑے میں وزن ڈال دیں۔ اس طرح موجودہ سیاسی محاذآرائی دراصل مختلف طرز ِ فکر اور کلچر کی کشمکش کو بھی اجاگر کرتی ہے۔ یہ تصادم اس لئے ہوا ہے، کیونکہ جب وقت ملا تو پی ایم ایل (ن) نے خود کو تبدیل کرنے سے گریز کیا اور ارتقائی عمل سے نہ گزری۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ایک ایسی جماعت بن چکی ہے، جسے خاندانی جاگیر سمجھ کر چلایا جارہا ہے۔ اس کے باوجود اس کے رہنما نعرے لگارہے ہیں”ہم نے بدلا ہے پنجاب، ہم بدلیں گے پاکستان۔“ کتنے لوگ اس نعرے سے اتفاق کرتے ہیں؟ یہ نتیجہ آنے میں چند گھنٹے رہ گئے ہیں۔

بہرحال ایک بات تسلیم کی جانی چاہیے کہ ہاتھی مردہ بھی ہاتھی ہی ہوتا ہے اورمسلم لیگ ان تو ابھی انتخابی مقابلے میں فیورٹ ہے، چنانچہ کسی جماعت کو بھی واک اوور نہیں ملے گا۔ یہ شام ایک گھمسان کا پانی پت بننے جارہی ہے اور ایسے مواقع ہماری زندگی میں معمول نہیں ہیں۔ ایک اور بات، کسی سیاسی جماعت کا کسی شخصیت کے گرد گھومنا اور اس کا اقتدار میںہونا مسائل کا باعث بنتا ہے، لیکن اس وقت یہ مسلم لیگ (ن) کے لئے فائدہ مند ہے۔ بہرحال اس وقت پاکستانیوںکے لئے انتخاب واضح ہے، کیا وہ باسی کھانا کھانا چاہتے ہیں یا کوئی نیا ذائقہ اُن کے دستر خوان کی زینت بننا چاہیے ؟اس وقت کوئی شخص بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اُس کے پاس کوئی اور چوائس ہی نہیں تھی ۔

 مصنف، معروف کالم نگار اور سیاسی تجزیہ کار ہیں۔

نوٹ ! اس کالم کے جملہ حقوق بحق رائٹ ویژن میڈیا سنڈیکیٹ پاکستان محفوظ ہیں۔ اس کی کسی بھی صورت میں ری پروڈکشن کی اجازت نہیں ہے۔ ٭

مزید :

کالم -