گوادر کو فری پورٹ بنانے کا خواب

گوادر محض زمین کا ایک ٹکڑا اور ساحل سمندر ہی نہیں ہے، بلکہ یہ خطہ ¿ ارضی پاکستان کے لئے جغرافیائی سے بڑھ کر معاشی حب کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر اسے ریاست کا سب سے اہم گوشہ قرار دیا جائے تو بھی غلط نہ ہو گا، کیونکہ بلوچستان اور پاکستان لازم و ملزوم ہیں اور بلوچستان میں گوادر کا حدود اربعہ اسے اور بھی اہم کر دیتا ہے۔ حیرت ہے ان رویوں پر جن کی بھینٹ گوادر بندرگاہ کا منصوبہ چڑھتا رہا۔ اس منصوبے کو سیاست اور منفعت سے بالاتر ہوکر پاکستان کے سنہری مستقبل اور آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ بنایا جاسکتا ہے۔ ماضی کی حکومتوں نے اس جانب توجہ ہی نہیں کی کہ یہاں ترقی کی راہیں کیسے کھولی جائیں۔ اگر کبھی کاغذی کارروائی ہوئی بھی تو وہ اخباری خبروں اور کمیشن کی وصولیوں تک ہی رہی۔ پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ ہمیشہ وطن عزیز کی بقاءو استحکام کے لئے مصروف عمل رہی۔ اب جبکہ اسی جماعت کی حکومت ہے اور وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے اپنے اسی عزم کا اعادہ کیا ہے کہ گوادر کو دبئی اور سنگاپور جیسی فری بندرگاہ بنایا جائے گا۔
اس سے قبل بھی جب میاں صاحب وزیراعظم تھے تو انہوں نے اس حوالے سے خاصی دلچسپی سے گوادر کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کا مینار بنانے کے اقدامات کئے تھے۔ ان کی حکومت کے خاتمے سے جہاں دوسرے تمام منصوبے لٹک گئے وہاں ترقی کا یہ سفر بھی رُک گیا تھا۔ بعدازاں میاں محمد نواز شریف کی حکومت پر شب خون مارنے والوں اور ان کے حواریوں نے اس معاملے میں بلند و بانگ دعوﺅں اور اعلانوں پر ہی اکتفا کیا۔ میاں محمد نوازشریف، میاں محمد شہباز شریف اور ان کی پوری ٹیم گوادر کی ترقی، اس کی اہمیت اور ضرورت کے حوالے سے مکمل طور پر پُرعزم ہے۔ اگر واقعی یہ منصوبہ موجودہ قیادت کے وژن کے مطابق مکمل ہو گیا تو پاکستان کے وسط ایشیائی ریاستوں سے رابطے اور تعلقات بحال ہوں گے اور سرمایہ کاروں کو محفوظ بین الاقوامی منڈیوں تک رسائی میں مدد ملے گی۔ پاکستان اپنے تاجروں اور محنت کشوں کے ذریعے عالمی تجارت میں اپنا باوقار مقام پیدا کرنے میں کامیاب ہو گا۔ گوادر کے مضافات میں کچھ ایسے ملک دشمن عناصر نے اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں، جو پاکستان کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتے۔ انہی طاقتوں اور بیرونی طاقتوں کے گماشتوں نے ہمیشہ ہمیں آگے بڑھنے سے روکا اور رکاوٹیں پیدا کی ہیں۔
ایک اور پہلو یہ ہے کہ اگر گوادر بھی دبئی اور سنگاپور کی طرح فری پورٹ ہونے کے ساتھ ساتھ امن و امان کے لحاظ سے مثالی شہر بن جاتا ہے تو اس سے نہ صرف بلوچستان، بلکہ پورے ملک کے لئے ترقی اور خوشحالی کے نئے دروازے کھل جائیں گے۔ اس وقت بلوچستان میں امن و امان کی صورت حال تسلی بخش قرار نہیں دی جا سکتی حکومت کو بھی اس حقیقت کا بخوبی ادراک ہے، اسی لئے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے غیر ملکی شہریوں کے تحفظ کے لئے نئی سیکیورٹی فورس قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ماضی میں بلوچستان میں چینی انجینئروں کے ساتھ ناخوشگوار واقعات رونما ہو چکے ہیں اور یہ خطرات اب بھی موجود ہیں۔ اگر کہیں بھی غیر ملکی شہریوں کے ساتھ کوئی سانحہ رونما ہو جاتا ہے تو اس سے نہ صرف ترقیاتی منصوبے متاثر ہوتے ہیں، بلکہ دنیا بھر میں امن و امان کے حوالے سے بھی منفی تاثر پیدا ہوتا ہے اور سرمایہ کار اس علاقے کا رُخ کرنے سے گریز کرتے ہیں۔
ہمارا ملک جو درحقیقت عطیہ خداوندی ہے۔ جتنے قدرتی وسائل اور زیر زمین معدنی ذخائر ہمارے پاس ہیں شاید ہی کسی دوسرے ملک میں ہوں۔ ان تمام انعامات الٰہیہ میں سے گوادر اور بلوچستان کے علاقے سرفہرست ہیں۔ قدرت نے بلوچستان کو وسائل سے مالا مال کیا ہے۔ اب وہ موقع آ گیا ہے کہ ان وسائل سے بھرپور فائدہ اُٹھا کر لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب لایا جائے۔ موجودہ حکومت کاشغر اور گوادر کو سڑک اور ریل کے ذریعے ملانے کے لئے سرگرم ہے۔ یہ ایک بہتر بڑا منصوبہ ہے، جس سے بلوچستان میں تجارتی ترقی کے نئے راستے کھل جائیں گے۔ اس کے علاوہ پاکستان، چین اقتصادی راہداری کے لے162ارب روپے صرف بلوچستان کے لئے وقف کئے گئے ہیں۔
ترقی کے اس خواب کو شرمندہ¿ تعبیر کرنے کے لئے بنیادی انفرسٹرکچر اور ضروری وسائل کی فراہمی بھی حکومت اور سربراہِ حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ وزیراعظم نے وزارت خزانہ کو ہدایات جاری کر دی ہیں کہ گوادر بندرگاہ کو گہرا اور صاف کرنے کے لئے106ارب روپے فوری طور پر جاری کئے جائیں۔ علاوہ ازیں گوادر کے لئے پینے کے صاف پانی کی فراہمی،300بستروں کے ہسپتال، تکنیکی تربیتی مرکز، 19کلومیٹر طویل ایکسپریس وے اور بندرگاہ کے لئے ایئرپورٹ کی تعمیر کی بھی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ گوادر کی ترقی تب ہی ثمر آور ہو گی جب ان تمام منصوبوں کی تکمیل اور تمام تر ترقیاتی مراحل میں مقامی لوگوں کے مفادات کا تحفظ کیا جائے گا۔ بلوچستان کے بعض وڈیرے اور سردار عوام کو یہ کہہ کر ڈراتے اور گمراہ کرتے رہے ہیں کہ گوادر کی ترقی اور آبادکاری کے تمام منصوبے بیرونی سرمایہ کاروں اور غیر مقامی لوگوں کے سُپرد کر دیئے جائیں گے،جس سے دوسرے علاقوں کے لوگ یہاں غالب آ جائیں گے۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے مقامی لوگوں کے مفادات کو ترجیح دینے کا وعدہ کر کے ایسے تمام خدشات کو دور کر دیا ہے۔ اب مقامی لوگوں کو بھی حکومت کے قدم سے قدم ملا کر بلوچستان اور گوادر کی ترقی اور خوشحالی کے لئے اپنی صلاحیتیں پیش کرنی چاہئیں۔ ہمارے انتہائی قابل اعتماد اور مخلص دوست ملک عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ اقتصادی راہداری کھلنے سے تجارتی سرگرمیوں کو بہت زیادہ فروغ ملے گا اور روزگار کے وسیع مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ پاکستان کے عوام کی خوش قسمتی ہے کہ انہیں دور اندیش قیادت نصیب ہوئی ہے۔ اسی قیادت کا وژن ہے کہ گوادر پورٹ کو نہ صرف پاکستان کے اندر، بلکہ بین الاقوامی دنیا تک وسعت دی جائے گی۔ چین کی مدد سے گوادر فری پورٹ بننے سے یہاں جدید ٹیکنالوجی آئے گی، جس سے صنعت، مواصلات اور زراعت سمیت تمام شعبوں میں انقلاب آ جائے گا۔