’’اپنا روزگار سکیم‘‘ کے تحت گاڑیوں کی تقسیم
وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف ایک متحرک قائد ہیں ۔اگرچہ وہ عمومی طور پر اپنے صوبے کے عوام کے تمام مسائل حل کرنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں، تاہم ان کی خصوصی توجہ اس بات پر مرکوز ہوتی ہے کہ کس طرح زیادہ سے زیادہ لوگوں کو روزگار فراہم کیا جائے، ان کی معاشی حالت بہتر بنائی جائے ؟ ان کا تازہ ترین منصوبہ اپنا روزگار سکیم ہے، جس کے لئے انہوں نے 31ارب روپے مختص کئے ہیں۔ مذکورہ سکیم کے تحت پچاس ہزار گاڑیاں شفاف اور کمپیوٹرائزڈ قرعہ اندازی کے ذریعے میرٹ کی بنیاد پر بے روزگار نوجوانوں میں تقسیم کی جا رہی ہیں۔وزیراعلیٰ شہباز شریف نے ’’اپنا روزگار سکیم‘‘ کے تحت صوبے کے بے روزگار نوجوانوں میں 50 ہزار گاڑیوں کی تقسیم کی تکمیل کے موقع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب حکومت نے 31 ارب روپے کی لاگت سے بے روزگار نوجوانوں میں شفاف طریقے سے میرٹ پر اپنا روزگار سکیم کے تحت 50 ہزار گاڑیاں تقسیم کرکے ایک اور سنگ میل عبور کیا ہے اور اس سکیم کے تحت تین لاکھ افراد کو براہ راست روزگار ملا ہے۔ گاڑیوں پر ریکوری تقریباً سو فیصد ہے۔ محنت اور جدوجہد کے ذریعے رزق حلال کمانے والے عظیم پاکستانی تو قرضے ادا کریں، لیکن اربوں کھربوں کے اثاثے رکھنے والے آف شور کمپنیوں، محلات اور کارخانوں کے مالکان قرضے معاف کرا لیں تو یہ ملک و قوم کے ساتھ سراسر زیادتی ہے۔ پاکستان کو ترقی اور خوشحالی کی منزل سے ہمکنار کرنے کے لئے ایسے لوگوں کو انصاف اور احتساب کے کٹہرے میں لانا ہو گا، جنہوں نے لوٹ مار ، کرپشن اور اربوں روپے کے قرضے معاف کراکر ملک کو کنگال کیا ہے تاکہ دنیا اور ان کی آئندہ نسلیں یاد رکھیں کہ پاکستان کو ان ’’بڑوں‘‘ نے کس طرح کھوکھلا کیا ہے؟
شہباز شریف نے واضح الفاظ میں کہا کہ اورنج لائن میٹروٹرین جیسے منصوبے پر بھی بعض سیاستدانوں نے غلط بیانی کی۔ الزام تراشی اور دروغ گوئی سے قومیں نہیں بنتیں۔بقول شہباز شریف اورنج لائن میٹروٹرین کے عوامی منصوبے پر میڈیا کے بعض حصوں اور بعض سیاستدانوں نے غلط بیانی سے کام لیا اور ایک سیاستدان نے تو مفاد عامہ کے اس منصوبے پر اربوں روپے کی الزام تراشی بھی کر ڈالی، اگر ان کے پاس ثبوت ہیں تو سامنے لائیں یا اپنے الزامات عدالت میں جا کر ثابت کریں ۔ الزام تراشی اور دروغ گوئی سے قومیں توانا نہیں بنتیں۔ لیڈر کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ سچ بولے۔ لوگوں کو گمراہ کرنے کی بجائے ان کی رہنمائی کرے۔ شہباز شریف نے میڈیا سے بھی گزارش کی کہ وہ غلط کو غلط ضرور کہیں، تا ہم صحیح کو صحیح بھی کہیں ۔ جہاں کرپشن ہو ، لوٹ مار کی گئی ہو اور کوئی کوتاہی ہو تو اسے ضرور سامنے لائیں ، لیکن جہاں عوام کی فلاح و بہبود کے لئے اچھا کام ہو اس کی بھی تحسین کی جانی چاہئے۔ ایک صوبے کے سیکرٹری کے گھر سے کروڑوں روپے برآمد کرنے والے اداروں کو شاباش دیتا ہوں۔ ہم نے ترقیاتی منصوبوں میں قوم کے 215 ارب روپے بچائے ہیں۔ میں چیلنج کرتا ہوں کوئی لیڈر ، صحافی ، تجزیہ کار ، جج اور پولیس افسر اسے غلط ثابت کر دے تو عوام کا ہاتھ اور میرا گریبان ہو گا۔ خدارا! پاکستان پررحم کریں ، آپ کے جھوٹ سے قائد اور اقبال کی روح بھی تڑپ رہی ہو گی کہ ان کے پاکستان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ یہ وقت اتحادواتفاق کے ساتھ پاکستان کی خدمت کرنے اور اسے آگے لے جانے کا ہے۔
لاہور کی تقریب میں وزیراعلیٰ نے بٹن دبا کر قرعہ اندازی کا آغاز کیا جس کے بعد کمپیوٹر سے کامیاب ہونے والوں کی فہرست جاری کی گئی۔ اس موقع پر وزیر اعلیٰ نے موبائل فون کے ذریعے دو خوش نصیبوں سے بات چیت کی اور انہیں ان کی کامیابی پر مبارکباد دی۔ وزیر اعلیٰ نے بجا طور پر کہا مذکورہ اسکیم کے نتیجے میں صوبے کے پچاس ہزار خاندانوں کو باعزت روزگار ملے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیر اعلیٰ نے صوبے کے بے روزگار افراد کے مفاد میں انہیں روزگار کی فراہمی کی غرض سے مذکورہ اسکیم شروع کی ہے ، لیکن وطن عزیز میں اکثر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بعض عناصر اپنے مخصوص مفادات کے تحت بسا اوقات حکومت کی بہترین رفاعی اسکیموں کو بھی نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں، چنانچہ ان کے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوسکتے، اس لئے یہ ضروری ہے کہ اپنا روزگار اسکیم کی سختی سے مانیٹرنگ کی جائے اور اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ محض بے روزگار اور ضرورت مند افراد ہی اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔ مذکورہ اسکیم کے تحت جو گاڑی دی جائے گی، اس کی قیمت مارکیٹ ریٹ سے ستر ہزار روپے کم ہوگی۔ یہ صورت حال گاڑیوں کے ڈیلروں اور کاروبار کرنے والوں کے لئے بے حد کشش کا باعث ہے۔ اس لئے اس امر کے امکانات موجود ہیں کہ یہ لوگ بہت سے '' جعلی بے روزگاروں'' کے نام پر فارم پُر کرکے متعلقہ اسکیم میں شامل ہوجائیں گے اور مستحق لوگوں کی حق تلفی کا باعث بنیں گے۔ لہٰذا اس سکیم کی شفافیت برقرار رکھنے کے لئے سخت مانیٹرنگ کی جائے تاکہ مستحق افراد کو روزگار مل سکے، خصوصا جنوبی پنجاب اور عموما پنجاب سے بیروزگاری کا خاتمہ کیا جا سکے۔