۔۔۔ اور جال ٹوٹ گیا

۔۔۔ اور جال ٹوٹ گیا
 ۔۔۔ اور جال ٹوٹ گیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہر قیمت پر اقتدار تک پہنچنے کی خواہشات نے پاکستان کو کافی نقصان پہنچایا ہے ۔ اگر سیاست دانوں دانشوروں اور اہل صحافت نے اپنی خواہشات کے سامنے بند نہ باندھا تو یہی کچھ ہوتا رہے گا۔ پاکستان اقتصادی ترقی میں چند قدم آگے بڑھے گا اور کسی سازش میں الجھ کر اس سے زیادہ قدم پیچھے ہوتا رہے گا، انہی میں سے ایک بڑی سازش پانامہ کیس کی صورت میں سامنے آئی تھی۔ہر روز اس کی سماعت کے بعد عدالت سے باہر نکلتے ہی ایک عدالت لگائی جاتی رہی۔ وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اوران کے صاحبزادوں حسین نواز اور حس نواز کے بارے میں جو دل میں آتا کہا جاتا رہا۔ سب کچھ ضد اور بے سرو پا الزامات کے سوا کچھ نہ تھااس لئے بڑا تکلیف دہ تھا۔ وزیراعظم اور ان کے خاندان نے نہایت صبر اور ثابت قدمی سے خود کو عدالت کے سامنے پیش کیا،جتنے بھی ثبوت میسر ہو سکے،وہ ثبوت فراہم کر دیئے گئے۔


20اپریل دو بجے دن فیصلہ سنادیا گیا پانچ میں سے تین جج صاحبان نے بعض سیاست دانوں کی طرف سے وزیراعظم پاکستان کو گھر بھیجنے کی خواہش کو پذیرائی سے محروم رکھ کر اقتدار کی طرف للچائی نظروں سے دیکھنے والوں کا آخری حصار زمین بوس کر دیا،.دانشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ جس طرح فیصلہ آنے سے پہلے سب فریق اعلان فرماتے رہے کہ عدالت کا فیصلہ انہیں قبول ہوگا اس لئے فیصلہ پر سب فریق صدق دل سے قبولیت کا اظہار کریں، جمہوریت کے نام پر ملک میں افراتفری اور انتشار پھیلانے سے گریز کریں۔فریقین سے درخواست ہے کہ موجودہ حکومت کو اپنے پروگرام کے مطابق اقتصادی ترقی کے منصوبوں کو پروان چڑھانے دیں،اینٹ روڑے اکٹھے کر کے خواہشات کا نیا محل بنانے اور اس میں بیٹھ کر سازشوں کے نئے جال بننے کی بجائے جمہوری تقاضوں کے مطابق مل جل کر ملک کی اقتصادی ترقی و خوشحالی کے لئے کام کریں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جمہوریت کی گاڑی کو متوازن انداز میں چلانے اور عوام کے مفادات کا تحفظ کرنے کے لئے حزبِ اقتدار کے سامنے حزب اختلاف کی موجودگی ضروری ہے، غلطیوں پر روکنے ٹوکنے والی حزب اختلاف موجود نہ ہو تو صاحبان اقتدار منہ زور ہو سکتے ہیں۔ حزب اختلاف کے لئے بھی ضروری ہے کہ مخالفت کرنے میں توازن برقرار رکھے اسی میں جمہوریت کا حسن ہے۔


بدقسمتی سے پاکستان میں اقتدار سازشوں کے نشانے پر رہا ہے، جب موقع ملا عاقبت نااندیشن آمروں نے اقتدار کو نشانے کی زد میں لانے سے گریز نہیں کیا . سیاست دانو ں نے سیاست سیاست کھیلنے میں کمال حاصل کر رکھا ہے،بڑے بڑے پارسائی کے دعویدار بھی حکومتیں گرانے اور اٹھانے کے کھیل میں حصہ دار بنتے چلے آ رہے ہیں 2013ء کا الیکشن بخیر و خوبی انجام کو پہنچا الیکشن کے ایک سال بعد ایک سیاست دان کو خواب و خیال آیا کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے اس لئے وہ وزیراعظم نہیں بن سکا۔ کہا جاتا ہے کہ اسے کسی کونے سے اشارہ ہوا تھا کہ کچھ کرو ہم تمہارے ساتھ ہیں، چنانچہ وہ صاحب وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف سے استعفا لینے کے لئے جلوس لے کر اسلام آباد پہنچ گئے۔ اسلام آباد کے وسط میں کنٹینر پر کھڑے دھمکیاں دیتے رہے ورنہ امپائر کی انگلی اُٹھ جائے گی، لیکن کسی کونے سے ایسی کوئی انگلی اٹھی اور نہ ہی کوئی لشکر آیا۔ بالآخر وہ صاحب اپنے تیار کردہ سازشی راستے سے اقتدار تک پہنچنے میں ناکام ہو گئے . دانشمندی اور ملک و قوم کی بہتری کا تقاضا تھا کہ وہ مناسب وقت کا انتظار کرتے کاروباری حالات خراب نہ کرتے۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ سیاست دانوں کو ملک کے معاشی حالات کے بگڑنے سدھرنے سے کوئی غرض نہیں، انہیں صرف اور صرف اقتدار حاصل کرنے سے غرض ہے ۔ اسلام باد پر قبضہ کرنے کی سازش تیار کی گئی اور بتایا گیا کہ لاکھوں لوگ اسلام آباد پہنچ کر تمام شہر کو بند کر دیں گے۔وزیراعظم کے پاس استعفا کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔ انتظامیہ نے غیر متعلقہ افراد کو اسلام آباد داخل ہونے سے روک دیا اور ان صاحب کا منصوبہ فلاپ ہو گیا اپنے ہی ملک کے دارالحکومت کو یرغمال بنانے کی سازش کو اندرون اور بیرون ملک سخت ناپسند کیا گیا۔ بہتر ہوتا کہ وہ صاحب اپنے اعمال و افعال میں ٹھہراؤ پیدا کرتے، لیکن جلد باز یہ سیاست دان ملک و قوم کے مفاد میں ایسا فیصلہ نہیں کر سکے ۔ پانامہ لیکس کی خبر اُن کے ہاتھ آ گئی۔ جھٹ سے کرپشن اور منی لانڈرنگ کا کیس تیار کیا اور وزیر اعظم پاکستان اور ان کے خاندان کو بدنام کرنے کی مہم شروع کر دی۔روزانہ عدالت میں سماعت کے بعد فوری طور پر عدالت سے باہر ایک عدالت لگتی۔ سماعت ختم ہوئی اور فیصلہ محفوظ کر لیا گیا اِس دوران بعض ٹی وی اینکر پرسن اور سیاستدان ہر روز شام کے وقت ٹی وی پر بیٹھ کر اپنا فیصلہ سناتے رہے، سماعت کے دوران محترم جج صاحبان کے ریمارکس پر کسی نے انگشت نمائی نہیں کی۔ 20اپریل دو بجے دن فیصلہ سنا دیا گیا، پانچ میں سے تین جج صاحبان نے وزیراعظم پاکستان کو گھر بھیجنے کی کسی بات سے اتفاق نہیں کیا . چند سرکاری افسروں کی ایک تفتیشی ٹیم بنانے پر اتفاق ہوا ہے ۔ یہ ٹیم معاملات کی تحقیق کرے گی اس کے ساتھ ہی سازش کا جال ٹوٹ گیا۔ کاروباری طبقہ ایک بار سیاست دانوں سے درخواست کرتا ہے کہ ملک میں افرا تفری پیدا کرنے سے گریز کریں۔سی پیک گوادر اور بجلی پیدا کرنے کے شروع کئے گئے منصوبوں کو بخیر و خوبی مکمل ہونے دیں اسی میں حکومت سیاست دانوں اور عوام کی بھلائی ہے۔پاکستان کو ترقی دینے اور عوام کو روزمرہ مسائل میں ریلیف دینے کے لئے موجودہ حکومت دن رات سخت محنت کر رہی ہے اس احسن عمل میں جو سیاست دان رکاوٹ کھڑی کرے گا عوام اور کارو باری طبقہ اسے کسی صورت اقتدار کے قریب نہیں آنے دے گا۔

مزید :

کالم -