قوم تیاری کر لے

قوم تیاری کر لے
 قوم تیاری کر لے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاناما پیپرز کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے ریمارکس اور عدالتی فیصلے کی بنیاد پر وزیراعظم اور ان کے خاندان کے بعد جس شخصیت کو سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ بننا پڑا وہ چیئرمین نیب چودھری قمر الزمان ہیں۔ اس کیس کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ حالات معمول کے مطابق ہوتے تو نیب اس معاملے کی تحقیقات کر سکتا تھا،لیکن یہاں چیئرمین نیب لاتعلق نظر آ رہے ہیں ،حتیٰ کہ وہ تحقیقات کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے کے لئے بھی تیار نہیں ہیں۔ اِس لئے ہم نے جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔


چودھری قمر الزمان 10اکتوبر 2013ء کو نیب کے چیئرمین تعینات ہوئے تھے ۔پاناما کیس میں سپریم کورٹ کی کارروائی کی بنیاد پر پاکستان تحریک انصاف نے چودھری قمرالزمان کی برطرفی کے لئے سپریم جوڈیشل کونسل سے رجوع کیا ہے اس سلسلے میں آئین کے آرٹیکل209اور نیب آرڈیننس کے سیکشن 6کے تحت ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا ہے ۔اطلاعات کے مطابق ریفرنس کے قابل پذیرائی ہونے کا جائزہ لینے کے لئے چیف جسٹس پاکستان مسٹرجسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس 16مئی کو ہو گا ۔عمومی تاثر یہ ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کو چیئرمین نیب کے خلاف کارروائی کے لئے وہی اختیارات حاصل ہیں جو وہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے خلاف کارروائی کے لئے استعمال کرتی ہے۔ یہ تاثر درست نہیں ہے ۔یہ تاثر ان لوگوں کا پیدا کردہ ہے، جنہوں نے آئین اور قانون کا باریک بینی سے جائزہ نہیں لیا۔یہ لوگ چیئرمین نیب کی برطرفی کے معاملے کو آڈیٹر جنرل پاکستان کی برطرفی سے متعلق آئین کے آرٹیکل168(5)سے جوڑتے ہیں ۔اس آئینی آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ ’’آڈیٹر جنرل کو اس کے عہدہ سے نہیں ہٹایا جائے گا ماسوائے اسی طرح سے اور انہی وجوہات کی بنا پر جن کے تحت سپریم کورٹ کے جج کو ہٹایا جاتا ہے ‘‘۔


"The Auditor General shall not be removed from office except in the like manner and on the like grounds as a Judge of the Supreme Court."
یعنی آڈیٹر جنرل کو عہدہ سے ہٹانے کے لئے وہی طریقہ کار اختیار کیا جائے گا، جو آئین کے آرٹیکل 209 میں عدالت عظمیٰ کے کسی جج کو ہٹانے کے لئے آئین میں بیان کیا گیا ہے۔مزید یہ کہ آڈیٹر جنرل کے خلاف کارروائی کے لئے وہی وجوہات درکار ہیں جن کا سپریم کورٹ کے کسی جج کو ہٹانے کے لئے موجود ہونا ضروری ہے ۔آئین کے آرٹیکل209کے مطابق اعلیٰ عدلیہ کے کسی جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل دو صورتوں میں کارروائی کی مجاز ہے۔اول یہ کہ جج کسی جسمانی یا دماغی نااہلیت کی وجہ سے اپنے منصب کے فرائض کی انجام دہی سے قاصر ہو۔ دوم یہ کہ جج بدعنوانی کا مرتکب ہوا ہو ۔ان دو معاملات کے حوالے سے ملنے والی اطلاع پر نہ صرف صدر سپریم جوڈیشل کونسل کو ریفرنس بھیج سکتا ہے بلکہ ایسی اطلاع پر سپریم جوڈیشل کونسل خود بھی کارروائی کی مجاز ہے ۔سپریم جوڈیشل کونسل چھان بین کے بعد جج کو بدعنوانی کا مرتکب قرار دیتی ہے یاپھر جسمانی و ذہنی طو ر پر اسے فرائض کی ادائیگی کے قابل نہیں سمجھتی اور یہ نتیجہ اخذ کرتی ہے کہ اسے عہدہ سے ہٹا دینا چاہئے تو صدر جج کو برطرف کرسکے گا۔ آڈیٹر جنرل پاکستان کے لئے بھی یہی طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے ،اس سلسلے میں اختر بلند رانا کو آڈیٹر جنرل کے عہدہ سے فارغ کئے جانے کو مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔


اب اس چیز کا جائزہ لیتے ہیں کہ نیب کے چیئرمین کو ان کے منصب سے کیسے فارغ کیا جاسکتا ہے، اس سلسلے میں نیب آرڈیننس کے سیکشن 6کی عبارت کو دیکھنا ہوگا ۔سیکشن 6کے تحت وزیراعظم او ر قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کی مشاورت سے صدرِ مملکت چار سال کی ناقابل توسیع مدت کے لئے چیئرمین نیب کا تقرر کرتا ہے۔ہائی کورٹس یا سپریم کورٹ کے سابق جج ، 22ویں سکیل یا اس کے برابر عہدہ کے ریٹائرڈ وفاقی افسر اور لیفٹیننٹ جنرل یا اس کے برابر عہدہ سے ریٹائرہونے والے کسی فوجی افسر کو یہ عہدہ تفویض نہیں کیا جا سکتا۔ چیئرمین نیب مستعفی ہو سکتے ہیں،لیکن انہیں عہدہ سے برطرف نہیں کیا جاسکتا ماسوائے ان وجوہات کے، جو اعلیٰ عدلیہ کے کسی جج کو ہٹانے کے لئے آئین میں بیان کی گئی ہیں،یعنی جسمانی اور ذہنی نااہلیت یا بدعنوانی ۔نیب آرڈیننس کے سیکشن 6میں درج ہے کہ
"Chairman NAB shall not be removed except on grounds of removal of Judge of Supreme Court of Pakistan"
اس کا مطلب ہے کہ نیب آرڈیننس کا سیکشن 6 آڈیٹر جنرل یا اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی برطرفی سے متعلق آئین کے آڑٹیکلز209اور168کا ہم پلہ نہیں ہے ،یہی وہ باریک نکتہ ہے جسے پاکستان تحریک انصاف کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔آئین کے آرٹیکل209میں اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی برطرفی کی وجوہات کے ساتھ ساتھ طریقہ کار بھی وضع کیا گیا ہے ۔آئین کے آرٹیکل168میں بھی آڈیٹر جنرل کی برطرفی کی وجوہات(Grounds)کے ساتھ طریقہ کار (Manner)کا ذکر موجود ہے اور یہ طریقہ کار سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی ہے ۔نیب آرڈیننس کے سیکشن 6میں چیئرمین نیب کی برطرفی کی وجوہات (Grounds)کا ذکر تو ہے، لیکن طریقہ کار (Manner)کا ذکر نہیں ہے ۔دوسرے لفظوں میں چیئرمین نیب کی برطرفی کے لئے ان وجوہات کا ہونا ضروری ہے، جن کے تحت سپریم کورٹ کے جج کو فارغ کیا جاسکتا ہے، لیکن چیئرمین نیب کی برطرفی کے لئے وہ طریقہ کار (سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی)اختیار نہیں کیا جائے گا، جو ججوں یا آڈیٹر جنرل کے لئے مخصوص ہے۔یہ ایک طے شدہ اصول ہے کہ کسی افسر کے تقرر کا اختیار رکھنے والا عہدیدار اسے برطرف کرنے کا بھی مجاز ہے ۔اس اصول کے تحت چیئرمین نیب کی برطرفی کا اختیار صدرِ مملکت کے پاس ہے ،صدرِ مملکت جسمانی و ذہنی نااہلیت یا بدعنوانی کی بنیاد پر انہیں فارغ کرسکتے ہیں تاہم اس سے قبل انہیں شنوائی اور صفائی کا پورا موقع دیا جانا قانونی و آئینی تقاضہ ہے۔چیئرمین نیب چودھری قمر الزمان کی برطرفی کے لئے پی ٹی آئی نے غلط فورم کا انتخاب کیا ہے ۔بادی النظر میں سپریم جوڈیشل کونسل کو چودھری قمر الزمان کے خلاف ریفرنس کی سماعت کا اختیار ہی حاصل نہیں ہے ۔اس ضمن میں تکنیکی بنیادوں پرسپریم جوڈیشل کونسل کے ممکنہ فیصلہ کے پیشِ نظر قوم کو جدید نوع کی الزام تراشیاں اور پراپیگنڈہ سننے کے لئے خود کو ابھی سے تیار کرلینا چاہئے ۔

مزید :

کالم -