احسن اقبال کو نئی زندگی مبارک
وزیرداخلہ احسن اقبال قاتلانہ حملے میں بال بال بچ گئے۔ ایک مرتبہ پھر ثابت ہوا کہ مارنے والے سے بچانے والا بڑا ہوتا ہے، جس کسی نے بھی یہ مذموم کارروائی کی اس کے ارادوں پر پانی پھر گیا۔ وزیرداخلہ احسن اقبال بڑے نڈر قسم کے وزیر داخلہ ہیں۔
وہ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنا کام کر رہے تھے۔ انہیں موت کا خوف نہ پہلے تھا، نہ اب ہے۔ وہ ہسپتال سے لوٹیں گے تو دوبارہ اسی جوش و جذبے سے ملک و ملت کی خدمت کے لئے میدان عمل میں نکل آئیں گے۔
وہ نارووال میں کارنر میٹنگ کے بعد واپس جانے لگے تھے کہ پہلی صف میں بیٹھے ہوئے ملزم نے ان پر فائر کھول دئیے۔ملزم کو فوری طور پر گرفتار کر لیا گیا، جبکہ احسن اقبال کی ابتدائی مرہم پٹی ناروال کے ڈسٹرکٹ ہسپتال کے چوکس ڈاکٹروں نے کی، پھر صوبے کے خادم اعلیٰ نے اپنے پرانے ساتھی کی جان بچانے کے لئے انہیں لاہور منتقل کرنے کے لئے اپنا ہیلی کاپٹر بھیج دیاا ور انہیں لاہور ایئر پورٹ پر خود ریسیو کیا، وہ ہسپتال میں ایمبولنس کے ساتھ ساتھ آئے اور جب تک ڈاکٹروں نے یہ اعلان نہیں کر دیا کہ وزیر داخلہ کا ضروری آپریشن مکمل ہو چکا ہے اور ان کی حالت خطرے سے باہر ہے، وزیراعلیٰ نے اس کے بعد ہی گھر کا رخ کیا۔
اس دوران پاکستان ا ور دنیا بھر نے اس قاتلانہ حملے کی مذمت کی۔ پیپلزپارٹی، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی لیڈر شپ کی طرف سے بھی مذمت کا اظہار کیا گیا اور برطانوی و امریکی سفیروں نے بھی اس قاتلانہ حملے کی بھر پور مذمت کر دی۔
پاکستان کا کوئی شہری اس حق میں نظر نہیں آیا کہ اختلاف رائے پر ہتھیار اٹھا کر وار کر دیا جائے، مگر یہ امر افسوسناک ہے کہ اس وقت جب اگلے الیکشن کی مہم زور شور سے جاری ہے تو کسی پر جوتے برسائے جائیں اور کسی پر فائر داغ دیا جائے۔
کسی سیاست دان میں جس قدر برداشت اور صبر کی قوت زیادہ ہو گی، وہ سیاست دان اتنا ہی کامیاب ہو گا۔ سیاست میں الزامات لگنا کوئی نئی بات نہیں۔
سیاست دان چاہے وہ کتنا ہی پاک صاف کیوں نہ ہو،ہمیشہ الزامات کی زد میں رہتا ہے، لیکن بعض اوقات سیاستدانوں کے ساتھ کچھ اس انداز میں زیادتی کی جاتی ہے کہ انہیں بلیم گیم کا حصہ بنا کر انہیں مسلسل ٹارگٹ کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے لوگوں میں نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ سلسلہ ترک ہونا چاہیے۔ اس وقت بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔
ایک خاص طبقہ سوشل میڈیا کا سہارا لے کر حکومت کے چند وزرا کو اپنے ٹارگٹ پر رکھے ہوئے ہے اور ان کے خلاف بے بنیاد، شر پسندانہ اور گھٹیا پروپیگنڈا کر رہا ہے، جبکہ ایک عام شخص، جسے باریکیوں کا اتنا علم نہیں اور جو حقائق کو اتنی گہرائی اور وسعت کے ساتھ دیکھنے کی کوشش نہیں کرتا ، وہ اس پراپیگنڈے کا آسانی سے شکار ہو جاتا ہے۔
دراصل بعض میڈیا کو ایک ایسے ہتھیار کے طور پر اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کر رہی ہیں، جس کی وجہ سے میڈیا پر سے لوگوں کا اعتماد بھی کم ہوتا جا رہا ہے۔ یہ انتہائی مقدس پیشہ ہے، جس کے ساتھ ایسا غیر اخلاقی سلوک کیا جا رہا ہے۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ ہم اکیسیویں صدی کے تقاضوں کو پہچانتے ۔
ہم یہ سوچتے کہ آج بھارت جیسا ملک، جو معاشی مرکز بننے کے لئے تگ و دو کر رہا ہے جو چین کے ساتھ مقابلے کے لئے تیار ہو رہا ہے اور جب دنیا پل پل میں تیزی سے تبدیل ہوتی دکھائی دے رہی ہے، ہمیں بھی اس دنیا کامقابلہ کرنے اور اس کے شانہ بشانہ چلنے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
بجائے اس کے کہ ہم ترقی کی راہ اختیار کرتے ،ہم نے جبر اور تشدد کو بیچنے اور اسے بطور ہتھیار استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ہم نے یہ بھی نہیں سوچا کہ قائداعظم محمد علی جناح نے اتنا بڑا ملک حاصل کرنے کے لئے جمہوری طرز عمل اختیار کیا اور اپنے کردار اور اخلاق کی وجہ سے انگریز اور ہندو کو اس بات پر آمادہ کر لیا کہ مسلمان اور ہندو دو الگ الگ قومیں ہیں۔
ان کے تہوار مختلف ہیں،ان کی عبادات مختلف، حتیٰ کہ ان کا رہن سہن بھی ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہے تو جب انہوں نے اس قدر مشکل منزل حاصل کر لی اور اس کے لئے کسی جبر اور تشدد کا سہارا نہیں لیا تو وہ ملک جو ہمیں قائداعظمؒ نے بنا کر دیا، ہم اس کو چلانے والوں کے خلاف اس طرح کی نفرت کیوں پیدا کرتے ہیں کہ یہ ملک فسادات کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے۔
ہمارا مطمح نظر یہ ہونا چاہیے کہ جو بھی حکمران آئے، اس کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے اور اگلے پانچ سال کے لئے اسے دوبارہ اقتدار میں لانا ہے یا نہیں، اس کا فیصلہ ہم اپنے ووٹ سے کر لیں، لیکن اگر ہم نے بندوق کی گولی سے ہی ہر فیصلہ کرنا ہے اور یوں بھرے مجمعے میں سیاسی لیڈروں کو نشانہ بنانا ہے تو پھر ہمارے میں اور دشمنوں میں فرق کیارہ جاتا ہے۔
دشمن بھی آپ کے ملک اور آپ کے لیڈروں کو نشانہ بنانے پر تلا ہوا ہے۔ وہ بھی یہی چاہتا ہے عوام اور حکمران آپس میں لڑتے رہیں اور یہ ملک خانہ جنگی کا مرکز بن جائے،یوں اس کے وہ مذموم مقاصد پورے ہوجائیں جو وہ جنگ لڑ کر بھی نہیں حاصل کر سکتا۔
کیا احسن اقبال کا یہی قصور تھا کہ وہ ایک سیاستدان تھے۔انہوں نے باطل قوتوں کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا تھا۔ انہیں معلوم تھا کہ دشمن ان کے پیچھے ان کی تاک میں لگا ہے اور انہیں کہیں بھی کسی بھی جگہ نشانہ بنایا جا سکتا ہے، لیکن انہوں نے چھپ کر بیٹھنا اور بزدل بننا گوارا نہ کیا۔
وہ عوامی سیاست دان ہیں عوام میں رہنا اور ان میں اُٹھنا بیٹھنا پسند کرتے ہیں۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ عوام سے کٹ جائیں اور موت کا خوف انہیں یا کسی بھی موجودہ حکمران کو ان کے فرائض کی ادائیگی سے روک سکے۔
عوامی لیڈر ہمیشہ عوام کے ساتھ جیتا اور عوام کے ساتھ ہی مرنا پسند کرتا ہے، احسن اقبال ایک عوامی لیڈر ہیں۔ وہ کسی شارٹ کٹ سے اقتدار میں نہیں آئے اور نہ ہی انہوں نے اس طرح کی کسی خواہش کا کبھی اظہار کیا ہے۔ وہ ملکی معیشت کی بہتری کے لئے کام کر رہے تھے کہ انہیں وزارت داخلہ کی ذمہ داری سونپی گئی ۔
انہوں نے اسے قبول کیا اور وطن کے داخلی استحکام کے لئے اپنی زندگی تک بھی داؤ پر لگا دی۔ خدا نے ان کو نئی زندگی دی ہے۔ وہ جلد صحت یاب ہوں گے ۔ ہسپتال سے لوٹیں گے اور دوبارہ عوام کے پاس جائیں گے۔
وہ وطن کے دشمنوں کو یہ پیغام دیں گے کہ سیاستدان عوام کے دل میں رہتا ہے، اسے کوئی گولی یا بم عوام کے دل سے نکالنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ جمہوریت بھی سیاستدانوں کو یہی سکھاتی ہے کہ وہ عوام کے جان و مال کی حفاظت کے لئے اپنا تن من دھن داؤ پر لگا دیں اور صرف یہ دیکھیں کہ انہیں ملک و قوم کی خدمت کیسے کرنی ہے؟ جس نے انہیں پیدا کیا ہے، وہ ان کی حفاظت بھی کرے گا،چاہے مارنے کی کتنی ہی کوششیں کیوں نہ کر لی جائیں۔
اس طرح کی بزدلانہ کوششیں جمہوری سیاستدانوں کو کمزور نہیں، بلکہ مزید نڈر اور بہادر بناتی ہیں اور چند ہی دنوں میں احسن اقبال پہلے سے بھی زیادہ بے خوف ہو کر میدان عمل میں آ جائیں گے۔