فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر425

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر425
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر425

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اگلے روز ہم اپنا سامان بھجوا کے واپس ڈھاکہ آگئے ۔اور وہاں قیام کے دوران میں اور بھی بہت سے لطیفے ہوئے ۔ایک روز جب کرفیو نہیں تھا تو ہماری ٹیکسی کاردار کے حوالے تھی ۔ ہم نے بیٹ مین کو کہا کے وہ رکشہ لے آئے ۔وہاں پر ایسے رکشے بھی تھے جو آگے سے آدمی کھینچتے تھے اور ایسے بھی تھے جو کہ سائیکل لگے ہوئے تھے ۔اس کے علاوہ موٹر سائیکل رکشہ بھی تھا ۔اس لیے ہم نے اپنے بیٹ مین کو باقاعدہ ہدایت دی کہ وہ موٹر سائیکل رکشہ لے کر آئیں ۔
تھوڑی دیر بعد وہ نمودار ہوئے اور مسکراتے ہوئے کہنے لگے ’’شباب بے بی آگیا ہے ، با لکل نیا والا ‘‘
ہم تو سیخ پا ہو گئے ،’’ارے گدھے ‘‘ ہم چلائے ’’ہم نے رکشہ لانے کو کہا تم بے بی لے آئے ہو ۔ ‘‘
ساتھ والے کمرے میں ایک ہمارا بنگالی شاگرد تھا ۔ہماری آواز سن کر دوڑتا ہوا ہمارے کمرے میں داخل ہوا ۔پوچھنے لگا ’’کیا ہوا سر ؟ ‘‘

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر424 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ہم نے بتایا کہ اس کمبخت سے رکشا لانے کو کہا اور یہ کوئی لونڈیا پکڑ لایا ہے۔
ہمارے شاگرد نے بیٹ مین سے بنگلہ میں بات کی اور ہنسنے لگا ۔کہنے لگا’’سر یہاں رکشا تو اس کو کہتے ہیں جس کو آدمی کھینچتا ہے،موٹر رکشے کو بے بی کہتے ہیں ۔‘‘
ڈھاکہ کے ایک مقامی ایم پی اے تھے جووہاں کے پوش علاقے دھان منڈی میں رہتے تھے ۔ان کی بیگم شوقیہ طور پر فلموں میں کام کرتی تھیں ۔نام تو ناجانے ان کا کیا تھا پر ان کو شاتی کہتے تھے۔ایک شام ہم ان کے گھر گئے۔باتوں باتوں میں خاصی دیر ہو گئی ۔جب وہ اٹھنے لگے تو وہ کہنے لگی ’’نوکبی شاب ،آپ اتنا دیر سے کدھر جائے گا ،آج رات آپ ہمارا شاتھ سو جاؤ۔‘‘ہم تھوڑے سے چکرائے مگر پھر تھوڑی بعد یہ سمجھ آئی کہ وہ یہ کہہ رہی ہیں کہ آج کی رات ہماری طرف سو جائیں ۔
ایک دفعہ ہم بازار سے گزر رہے تھے کہ دیکھا کہ نوجوان لڑکوں کا بڑا منظم جلوس جا رہا ہے۔وہ چار چار کی ٹکریوں میں بٹھے ہوئے تھے تا کہ دفعہ 144کی خلاف ورزی نہ ہو ۔ساتھ ہی وہ نعرہ لگا رہے تھے ’’چلبے نئیں ،چلبے نئیں (یعنی نہیں چلے گا ،نہیں چلے گا)
ہم نے گاڑی روک کر ایک لڑکے سے پوچھا کہ ’’کی چالبے نئیں؟‘‘
بڑے معصومانہ انداز سے کہنے لگا ’’امی جانی ناں۔‘‘یعنی میں نہیں جانتا۔
گویا وہ تو نعرہ اس لیے لگا رہا تھا کیونکہ ا سے نعرہ لگانے کے لیے کہا گیا تھا ۔
ایک روز کرفیو کے دوران ہم کرفیو کے دوران روزی کی خیریت پوچھنے ا سکے گھر گئے توپوچھا کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ؟ کرفیو کی وجہ سے تم بازار نہیں جا سکتی تو وہ کہنے لگی ۔’’نوکبی شاب ،کچھ نہیں چاہیے ۔گھر میں تالاب ہے موچلی پکڑتااور کھاتا ۔‘‘
کاردار کو صبح سویرے سویرے سین فلمانے کا بہت شوق تھا ۔ڈھاکہ میں بھی انہوں نے ایک ایسا ہی پروگرام بنا یا کہ شبنم اور طارق عزیز کو ایک ڈولتی ہوئی ناؤ میں بیٹھا کر صبح سویرے ایک سین فلمایا جائے۔اب وہ سین دریا کے کسی حصے میں فلمایا جائے اور اس کے لیے جگہ کا تعین کرناضروری تھا۔لہذا ہم نے ڈھاکہ کے بیس کمانڈر جو بعد میں فضائیہ کے سربراہ بھی بنے ان سے ہیلی کاپٹر دینے کی استدعا کی ۔پہلے تو وہ برہم ہوئے اور بعد میں انہوں نے ائیر ہیڈ کوارٹر پشاور سے بات کرنے کے بعد تیار ہو گئے۔اس ہیلی کاپٹر پر ہم نے بوڑھی گنگا پر کئی چکر لگائے۔ایک گوشہ کاردار کو پسند آگیا۔چونکہ اس مقام پر صبح سویرے پہنچنا تو نا ممکن تھا اس لیے مشرقی پاکستان کا ایک اسٹیمر حاصل کیا تا کہ اس میں پورا فلم یونٹ رات گزارے اور تڑکے اپنا کام شروع کر دیں۔
سدر گھاٹ سے اسٹیمر میں سوار ہو کر چلنے سے پہلے ہم نے ملازم کو ایک روپیہ دیا تا کہ وہ ہمارے لیے ایک پان لے آئے ۔ہم نے کہا ایک روپے میں ایک دو پان تو آئیں گے مگر اس نے چالیس پان لا کر سامنے رکھ دیے اور ساتھ ہی ایک پتے میں لپٹا ہوا کوئی پاؤ بھر چونا بھی ۔
اس اسٹیمر میں دو کیبن تھے۔ایک شبنم اور روبن گھوش کو دے دیا اور دوسرا ہم نے سنبھال لیا۔باقی تمام لوگوں کو نیچے ہولڈر میں بھیج دیا ،مشرقی پاکستان کی تقریباََآدھی آبادی چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں رہتی ہے جن کے درمیان ایک نیم گولائی کی چھت ہوتی ہے۔یہ کشتیاں وہاں کے عظیم اور کشادہ دریا بوڑھی گنگا کے دونوں کناروں کے ساتھ ساتھ چلتی یا کھڑی رہتی ہے۔صرف اسٹیمر دریا کے بیچوں بیچ چلتے ہیں ۔تھوڑی دیر کے بعد مغرب کا وقت آ گیا ۔کیا دیکھتے ہیں کہ ہر ڈولتی ہوئی کشتی کی منخنی کی چھت پہ گھرانے کا سربراہ کھڑا نماز پڑھ رہا ہے۔عجب رونگھٹے کھڑے کرنے والا منظر تھا۔
کچھ دیر بعد چاند ابھر آیا۔کاردار نے کہا نیچے جا کر شبنم اور روبن گھوش کو بلا لاؤ۔ہم نے نیچے جا کر ان کے کمرے میں دیکھا تو شبنم سو رہی ہے او روبن کپڑے پہن کر کرسی پہ بیٹھاکتاب پڑھ رہا ہے۔اسے اوپر آنے کو کہا تو اس نے انکار کر دیا ۔ہم جب اوپر واپس اکیلے پہنچے تو کاردار نے اکیلے دیکھ کر پوچھا کیا ہواتو ہم نے کہا کہ شبنم سو رہی ہے اور روبن اس کا پہرا دے رہاہے۔
جب وہ مقام آیا تو ہم نے اسٹیمر کو رکوا دیا ۔قریب ہی ایک چھوٹا سا گاؤں تھا ۔رکا ہوا جہاز دیکھ کر وہاں کے لوگوں کو اس بات کا تجسس ہوا تو وہ اپنی چھوٹی چھوٹی کشتیاں لے کر جہاز کے قریب آگئے۔نئی نئی صورتوں پہ نظر پڑتے ہی انہوں نے گانا شروع کر دیا۔ایک بنگالی ملازم کے ذریعے ان کو سمجھایا کہ کل ان کی کشتیاں درکار ہوں گی۔ہم نے بھی بنگالی میں اپنا جوہر دکھاتے ہوئے کہا کہ ’’ٹاکا دیبن‘‘یعنی پیسے بھی دیں گے۔وہ بڑی خوشی سے مان گئے اور اگلی صبح ہمارے بیدار ہونے سے پہلے ہی وہاں پہنچ گئے۔
پو پھٹتے ہی ہم نے شبنم اور طارق کو ایک ناؤ میں بٹھا دیا ،دوسری میں کیمرا مین بیٹھ گیا اور تیسری میں کاردار اور ہم ۔اس تمام ترد د کا نتیجہ ایک چھوٹا سا سین تھا ۔جس میں کاردار کی ہٹ دھرمی کے علاوہ کوئی مکالمہ نہیں تھا۔ایک چھوٹا سا سین جس میں طارق اور شبنم کو ایک ناؤ میں آمنے سامنے بیٹھادکھایا گیا۔دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہیں اور طارق ناؤ کے کنارے پر اپنی ہتھیلی کھول کر رکھ دیتا ہے اور شبنم اس کی ہتھیلی پر اپنا ہاتھ رکھ دیتی ہے ۔اللہ اللہ ،خیر صلیٰ،شاٹ ختم اور ہم بدھوں کی طرح لوٹ کر اپنے گھر یعنی ڈھاکہ واپس آگئے۔
اللہ اللہ کر کے فلم کی شوٹنگ ختم ہوئی ۔اس کے بعد ہم نے ا سے ایڈٹ کرایا اور پھر اسے بڑے فخریہ انداز میں فلم سنسر بورڈ کے سامنے پیش کرنیکے لیے لاہور پہنچ گئے۔مگر ہائے رے قسمت ،انہوں نے فلم دیکھ کر اسے پاس کرنے سے انکار کردیا۔وجہ یہ کہ فلم میں ایک سین جس میں شادی کا ڈانس دکھایا گیا تھا ا س میں ایکٹرس کا زیریں لباس گھٹنوں سے ذرا اوپر تھا۔ اس وقت تک ائیر مارشل نور خان مغربی پاکستان کے گورنر بن چکے تھے۔اس لیے ہم سیدھے گورنر ہاؤس پہنچے ۔وہاں سامنے ہی ان کی بیگم کھڑی تھی۔ وہ غصیلی مشہور تھیں مگر اس روز بڑی شفقت سے پیش آئیں۔پوچھنے لگی ’’نقویْ صاحب پان کھائیے گا؟‘‘
ہم نے اپنی بپتا بیان کی اور ساتھ ہی یہ بتایا کہ ایک پنجابی فلم جو پاس ہو چکی ہے اس میں لاچے میں ملبوس ہیروئن کو زمین پر لیٹے ہوئے ہیرو کے سر پہ ناچتے ہوئے دکھایا ہے اور وہ نیچے سے معنی خیز نظریں بنا کر اوپر کی طرف دیکھتا ہے۔اگر وہ فلم پاس ہو سکتی ہے تو ہم نے کیا گناہ کیا ہے؟
انہوں نے فوراًََایک نیا بورڈ تشکیل دینے کا حکم صا در کر دیاجس نے ہماری فلم ڈھائی منٹ میں پاس کر دی ۔
اب آیافلم کی رونمائی کا مسئلہ ۔اس وقت ائر مارشل رحیم خان فضائیہ کے سربراہ تھے۔انہوں نے صدر جنرل یحیٰ خان کو مدعو کیا اور ساتھ ہی تمام سفیروں اور بڑے بڑے افسروں کو ۔ہم نے فلم دکھانے کا پنڈی کے ایک بڑے سینما میں انتظام کیا ۔جس دروازے سے صدر صاحب نے نکلنا تھا اس کے سامنے ہم نے تما م ایکٹر اور ایکٹرسوں کو لائن حاضر کر کے رکھا ہوا تھا۔صدر صاحب نے بڑی گرمجوشی سے مصافحہ کیا مگر جاتے جاتے ہم نے انہیں یہ کہتے سنا کہ تم نے میری شام برباد کر دی۔
ہم نے یہ فلم ایک ڈسٹری بیوٹر کے حوالے کی اور سکون کا سانس لیا۔ کچھ دنوں بعد معلوم ہوا کہ وہ فلم پشاور کے سینما میں لگی ہے۔ہم نے کہا دیکھیں تو سہی ہماری اسکرین پر کیسی کارکردگی لگتی ہے اور لوگ ہماری انتھک محنت کا کیسے گرم جوشی سے خیر مقدم کرتے ہیں۔ہم نے پہلا ہفتہ گزرنے دیا سوچاکہ رش ختم ہو جائے تو پھر جا کر اطمینان سے دیکھیں گے، مگر وائے قسمت۔اگلے ہفتے اپنی بنائی ہوئی فلم دیکھنے پہنچے تو معلو م ہوا کہ اُتر چکی ہے۔
اس معرکہ آرا فلم کا نام تو بتانا ہم بھول ہی گئے۔اس کا نام تھا ’’قسم اس وقت کی‘‘اسی لیے ہم نے قسم کھا رکھی ہے کہ آئندہ کبھی فلم بنانے کی جھنجھٹ میں نہیں پڑیں گے۔(جاری ہے )

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر426 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں