شکار۔۔۔ شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان... قسط نمبر 5

شکار۔۔۔ شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان... قسط نمبر 5
شکار۔۔۔ شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان... قسط نمبر 5

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہندوستان میں بھوپال ... اجین ..... بھیلسا ..... ناگپور ..... بلھار شاہ ..... حیدرآباد دکن اور اوڑیسہ تک بکثرت ریچھ پایا جاتا تھا ..... موجودہ زمانے کا علم مجھے کم ہے ..... لیکن بھوپال اور حیدر آباد دکن کے احباب کے خطوط سے اب بھی ان کی موجودگی اور کثیر تعداد کا علم ہوتا رہتا ہے ..... ایران میں ریچھ قعطاً نہیں تھا ..... افریقہ میں یوگنڈا اور کانگو جہاں میں گیا ..... ریچھ نہیں ہوتے ..... 
ہندوستان کا ریچھ چھوٹا ہوتا ہے ..... خطرناک تو بہرحال ہوتا ہی ہے ..... انسان کے لیے جنگلی بلی بھی نہایت بدمزاج اور واقعی خطرناک ..... گزشتہ سال میں امریکہ کے مشہور نیشنل فارسٹ یلو اسٹون (YELLOWSTONE PARK) محض تفریحاً گیا تھا..... ایک جگہ ریسٹوران میں ایک شخص سے گفتگو کے دوران معلوم ہوا کہ ایک ہفتہ قبل وہاں سے دو میل دور اندرونی علاقہ میں ریچھ نے ایک شخص کو شدید زخمی کیا تھا ..... 

شکار۔۔۔ شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان... قسط نمبر 4 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
YELLOWSTON پارک SANCTUARYہے ..... اس لیے اس پارک میں شکار ممنوع ہے ..... لیکن میں نے گھنے جنگل میں گئے بغیر جس قدر کثرت اور جتنے خوبصورت ELK اور جنگلی بھینسے دیکھے ..... وہ میرے لیے بڑی مسرت کا باعث تھے ..... میرے ساتھ بیگم بھی تھیں اب ہم ویڈیو کیمرے سے ہر خوشنما منظر اور ہر نظر آنے والے جانور کی فلم بناتے رہے .....تصویریں کھینچتے رہے ،ریچھ ..... یاپوما (MOUNTAIN LION) نظر نہیں آئے.....
اس ضمن میں ایک یہ بیان بہت اہم ہے کہ میں غالباً واحد پاکستانی شکاری ہوں جو الاسکا کے شمالی علاقے میں ..... دائرہ قطب شمالی کے تیس میل اندر جا کر شکار کر چکا ہوں ..... الحمداللہ مجھے یہ بڑا شرف معلوم ہوتا ہے ..... میں جب الاسکا کے شہر فورٹ یوکان پہنچا تو توگ مجھے حیرت سے دیکھتے تھے ..... کسی نے مجھے امریکن انڈین سمجھا کسی نے میکسیکن ‘ کسی نے پیورتوریکن ..... میں جس جگہ مقیم ہوا ..... وہاں چند لوگوں سے بات چیت بھی ہوئی ..... کوئی پاکستان کے نام سے واقف نہیں تھا ..... ظاہر ہے کہ فورٹ یوکان جیسی دور افتادہ جگہ جہاں نہ کوئی سڑک پہنچتی ہے نہ کوئی ہوائی جہاز ..... وہ لوگ صرف ان ناموں یا ملکوں سے واقف ہیں جن کا ذکر وہ ٹی وی یا ریڈیو پر سنتے رہتے ہیں.....
امریکہ کے ٹی وی یا ریڈیو پر پاکستان کی خبریں نشر نہیں ہوتیں ..... مہینوں میں کہیں ایک بار سرسری طور پو کوئی خبر آجائے تو جدابات ہے ..... اس میں امریکن نشرو اشاعت کا قصور بھی نہیں ..... پاکستانی سفارت خانے کی کوتاہی یا ان اداروں کی فرض ناشناسی کا دخل ہے جو پاکستان کے نام کی اشاعت کا کام کرتے ہیں ..... 
ویسے بھی امریکی حلقہ اشاعت کو صرف ان واقعات اور معاملات سے دلچسپی ہوتی ہے جن میں کسی نہ کسی طرح امریکی ملوث ہو یا جہاں امریکہ کا مفاد وابستہ ہو ..... دوسری اہم نشریات وہ ہوسکتی ہے جن میں اسلام کو ایذا پہنچانے کا امکان روشن ہو ..... ان کے علاوہ دنیا کے ممالک کی اخبارات امریکہ میں کیوں نشر کی جائیں..... 
پاکستان کی خبروں کا امریکہ میں نشر ہونا غیر ضروری ہی نہیں بلکہ فضول ہے ..... جب تک کوئی ایسا واقعہ نہ ہو جو بین الاقوامی سیاست پر اثر انداز ہوتا ہو اس وقت تک پاکستان کی خبروں کی نوعیت مقامی ہی رہتی ہے ..... اور امریکہ میں پاکستان کی مقامی خبروں کو بھلا کیا اہمیت ہو سکتی ہے ..... 
امریکہ ..... دنیا کا آزاد ترین ملک ہے ..... اس ملک میں رہنے والوں کو ہر قوم کی مذہبی معاشرتی ‘ معاشی سیاسی اور اخلاقی آزادی ہے ..... امریکہ آزادی انسان کا سب سے بڑا علمبردار ہے ..... اور اس میں شک نہیں کہ امریکہ جس طرح دنیا کے ہر حصے میں مفلوک فاقہ زادہ اور بیمار معاشروں کی امداد کر کے ان کی حالت درست کرنے کی مسلسل کوشش کرتا رہتا ہے وہ کوئی دوسرا ملک نہیں کر سکتا ..... امریکہ دولت مند بھی ہے ..... اور اس دولت کو بنی نوع انسان کی فلاح کے لیے استعمال کرنے کا طریقہ بھی اس کو آتا ہے ..... ہمدردی بھی ہے..... انسانی درد بھی ..... رواداری بھی.....!
گاؤں سے نکلتے ہی سپاہی میاں ایک پگڈنڈی ہو لیے جو سیدھی دو نسبتاً نچلی پہاڑیوں کے درمیان سے گزرتی تنا ور درختوں کے جنگل میں داخل ہوگئی ..... جو لوگ پاکستان میں جنگل دیکھتے رہتے ہیں ان کو بھوپال کے جنگلوں کی کیفیت کا کوئی اندازہ نہیں ہو سکتا ..... اب پاکستان میں پید ا ہونے والے اور جوان ہونے والے بچوں کو تو گھنے جنگل کا اندازہ ہی نہیں ..... اس لئے کہ پاکستان میں گھنے جنگل نہیں ہوتے ..... 
وسط ہند ..... بلکہ مالومے کا مانسونما جنگلات ..... جانوروں سے قطع نظر ..... دہشت ناک ہوتے ہیں ..... برگد ..... املی ..... پیپل..... سال ..... کیتھ ..... مہوہ..... نیم ..... وغیرہ سارے ہی درخت پچاس سے سوفٹ تک بلند ..... سوڈیڑھ سو مربع گزپر پھیلے ہوئے ..... ان کی شاخیں ایک دوسرے سے ایسے گلے ملتی ہیں کہ سورج کی کرنیں بھی اکثر مقامات پر ان چلمنوں سے نہیں گزر سکتیں..... دن کے وقت ان درختوں کی چھت کے نیچے نیم تاریکی یا شام کی سی کیفیت ہوتی ہے ..... 
اس پر مزید ستم ..... جھاڑیاں ..... اور جھاڑ جھنکار بھی گھنے ..... اور نہایت خاردار ..... ! وہ پگڈنڈیاں جو ان جنگلوں سے گزرتی ہے ..... اور جن پر سے گزر کر گاؤں کے رہنے والے ایک دوسرے سے تجارتی اور معاشی روابط قائم رکھتے ہیں ..... وہ اکثر ایسے خطوں سے گزرتی ہیں جو نسبتاً صاف ہوں لیکن ایسے علاقوں میں جیسے راسین ‘ گڈھی وغیرہ کے جنگل یہ پگڈنڈیاں بہر حال گنجان حصوں کے درمیان سے ہی گزرتی ہیں اور یہی وہ خطے ہیں جہاں کبھی کبھی ناخوشگوار حادثات ہوتے رہتے ہیں..... 
ان جنگلوں کے درمیان جابجا مختصر آبادیاں ہیں ..... بعض تو صرف دو تین گھروں پر مشتمل ہوتی ہے ..... جن میں کل آٹھ دس افراد ہوتے ہیں ..... سوال کیا جا سکتا ہے کہ یہ لوگ ایسے دو ردراز ساری دنیا سے منقطع مقامات پر کیوں رہ رہے ہیں ..... ؟ 
اس سوال کا جواب کوئی نہیں ..... غالباً یہ لوگ کسی ندی ..... چشمے یا دریا کے نزدیک ایسی جگہ جا بسے ہیں ..... جہاں ان کو مفت زمین مل سکے ..... جنگل جھاڑی کو صاف کر کے دو چار کھیت زمین نکا ل لی ہے ..... اس پر بیلوں گدھوں کے ذریعے زمین میں ہل چلا کر گندم‘ ارہر‘ چنا ‘ وغیرہ کی فصلیں پیدا کرتے ہیں ..... یہی ان کے گذر اوقات کا ذریعہ ہے ..... لیکن ان کی زندگی شہریوں کے میعار کے مطابق غربت میں گزرتی ہے ..... اور خود ان کے معیار کے مطابق ..... خود کفیلی میں ..... ! ان کی ضروریات محدود ہوتی ہیں ..... اس لیے ان کو کسی کمی یا دشواری کا احساس نہیں ہوتا ..... جہاں تک غذا کا تعلق ہے وہ لوگ ہم شہریوں سے بہتر صحت بخش اور خالص غذا کھاتے ہیں ..... مکئی ‘جوُ جوار یا گندم کی روٹی ..... چاول ان کی ومیسر نہیں آتے ..... خالص دودھ یا مکھن ..... اگر یہ نہ ہو تو پودینے ‘ یا کوتھمیر کی چٹ پٹی چٹنی ..... یا پیاز ..... یا کوئی سبزی ‘ گوشت بھی ان لوگوں کو بہت کم ہی میسر آتا ہے ..... 
یہی وہ خوراک ہے جو ان کو جفاکش ‘ صحت مند اور توانا رکھتی ہے ..... ان چھوٹی چھوٹی آبادیوں کے لوگ حیرت انگیز طور پر بیماریوں سے محفوظ رہتے ہیں ..... معمولی نزلہ زکام کے علاوہ انھیں کوئی مرض لاحق نہیں ہوتا موت یا تو سانپ کے کاٹنے سے ..... شیر کے آدم خور ہونے سے یا عمر طبیعی کو پہنچنے سے ہی ہوتی ہے ..... البتہ بچے بعض حالات میں کم عمری میں فوت ہوجاتے ہیں ..... جو غالباً بداحتیاطی کا نتیجہ ہوتاہے .....
(جاری ہے )

مزید :

کتابیں -شکاری -