کبیرہ گناہوں سے بچیئے

May 11, 2018 | 01:32 PM

صاحبزادہ مفتی نعمان قادر مصطفائی

حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کبیرہ گناہوں کے بارے میں تو آپ ﷺ نے ارشاد فرما یا :اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرا نا ، والدین کی نافرمانی ،کسی کو ناحق قتل کرنا ، جھوٹی گواہی دینا ۔
حضرت انس بن مالک بن نضر انصاری خزرجی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور سید عالم ﷺ کے خادم زرد خضاب کرتے تھے۔بعض نے حنا اور بعض نے ورس کا قول کیا ہے۔رسول اللہ ﷺ نے ان کی کنیت ابو حمزہ رکھی ۔بدر میں حاضر تھے اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت کرتے تھے۔جب نبی کریم ﷺ نے ہجرت فرمائی ان کی عمر دس برس کی تھی۔بعض نے نو اور بعض نے آٹھ سال بتائی ہے۔ امام زہری حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ جب حضور ﷺ مدینہ طیبہ آئے تو میں دس برس کا تھا اور رسول اللہ ﷺ کے وصال کے وقت بیس برس کا تھا۔بعض نے کہا کہ دس برس،بعض نے کہا کہ آٹھ برس اور بعض کے قول پر سات سال حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت کی۔ حضور نبی کریم ﷺ نے اُن کے لئے دُعا فرمائی۔ان کا ایک باغ تھا جو سال میں دوبار پھل لاتا تھا اور اس میں ناز بوتھی جو کستوری کی خوشبو دیتی تھی۔ ان کے پاس حضور ﷺ کا عصا تھا۔جب وفات پائی تو وصیت کی کہ میرے ساتھ اس کو دفن کیا جائے حسبِ وصیت ان کے قمیص اورپہلو کے درمیان دفن کیا گیا۔ اکثر کہا کرتے تھے کہ میں نے رسول اللہﷺ کی نو سال خدمت کی اس دوران میں نے جو کچھ بھی کیا حضور اکرم ﷺ نے کبھی کچھ نہ کہا کہ تو نے کیا کیا؟ حضورنبی کریم ﷺ نے ان کے لئے کثرتِ مال اور اولاد کے لئے دعا فرمائی۔ان کی پشت سے80 لڑکے اور ۲ بیٹیاں ہوئیں۔ان کی وفات کے وقت ان کی جمیع اولاد کی تعداد ایک سو بیس تھی۔ بعض نے 100 کا قول کیا ہے۔حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بڑے بہادراور بے خطا تیر انداز تھے۔آپ کے سنِ وفات میں اختلاف ہے۔ بعض نے ان کی وفات 91ھ بعض نے 92ھ بعض نے 93ھ اور بعض نے 90 ھ بیان کی ہے۔ ا ن کی عمر میں بھی اختلاف ہے۔ بعض نے سو سال بعض نے ۹۹ سال بعض نے ۱۱۰ سال اور بعض نے ۱۰۷سال بتائی ہے ۔بصرہ میں وفات پانے والے صحابہ کرام میں یہ سب سے آخری صحابی ہیں۔ان کی رحلت طف میں اپنے مکان پر ہوئی جو بصر ہ سے چھ میل دور ہے اور وہیں دفن ہوئے۔
اس حدیث کو بخاری نے باب الادب میں بھی ذکر کیا ہے اور ترمذی نے کتاب البیوع اور نسائی نے کتاب القضاء میں بیان کیا ہے ۔ کبائر کی تعداد اور تعریف میں علماء کا اختلاف ہے عمدۃ القاری جلد 3میں ہے کبیرہ وہ فعل ہے جس سے شرع میں منع کیا گیا ہو اور اس کا معاملہ عظیم ہو جیسا کہ ناحق قتل کرنا ، زنا کرنا ، جہاد سے بھاگنا ، وغیرہ اور لکھتے ہیں ،بعض نے کہا کہ کبیرہ گناہ وہ ہے جس کا تعلق ریا، لعنت یا غضب یا عذاب کے ساتھ ملا یا گیا ہو جیسا کہ جھوٹ پر لعنت فرمائی گئی ہے ۔ بعض فرماتے ہیں کہ ہر گناہ اپنے فوق کے اعتبار سے صغیرہ ہے اور اپنے ماتحت کے اعتبار سے کبیرہ ہے ۔ شارح مسلم مولانا علامہ غلام رسول سعیدی نے جلد اول میں ذکر کیا ہے کہ بعض علماء نے فرمایاکبیرہ گناہ وہ ہے جس پر خدا تعالیٰ نے دنیا میں حد یا تعزیرکی سزا مقرر کی ہو اور آخرت میں عذاب ۔ حضرت امام غزالی علیہ الرحمہ نے فرمایا جس گناہ کو انسان بغیر کسی شرم و حیاء کے بے حجاب او رجرأت اور بے خوفی سے کرے وہ کبیرہ ہے ۔اعلیٰ حضرت امام اہل سنت الشاہ مولانا امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں گناہ کبیرہ سا ت سو ہیں ان کی تفصیل بہت ہے ،اللہ تعالیٰ کی معصیت جس قدر ہے کبیرہ ہے ۔ اگر صغیرہ و کبیرہ کو علیحدہ علیحدہ شمار کر لیا جائے ، تو لوگ صغائر کو ہلکا سمجھیں گے اور یہ کبیرہ سے بھی بدتر ہے ۔ جس گناہ کو ہلکا جان کر کرے گا ، وہی کبیرہ ہے۔امتیاز کے لئے اس قدر کافی ہے کہ فرض کا ترک کبیرہ ہے اور واجب کا ترک صغیرہ ۔‘‘ (الملفوظ جلد اول) معلوم ہو اکہ ترک فرض اور ارتکاب حرام گناہ کبیرہ اور ترک واجب اور مکروہ تحریمی کا ارتکاب گناہ صغیرہ ہے ۔
کبائر میں بھی مراتب ہیں ۔ مثلاً جھوٹ بولنا گناہ کبیرہ ہے ۔ لیکن مسجد میں باوضو ہو کر قبلہ رو ہو کر بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر جھوٹ بولنا ،بہت بڑا کبیرہ گناہ ہے ۔علیٰ ہذا القیاس اس حدیث میں چار کا ذکر تخصیص کے ساتھ اسی لئے ہے کہ یہ بہت بڑے کبائر ہیں ، ویسے تعداد میں اختلاف ہے ۔ اس جگہ چار کا ذکر ہے ،بعض میں سات کا ذکر ہے اور بعض میں نوکا ذکر ہے ۔ابو طالب مکی نے کہا کبیرہ گناہ سترہ ہیں ۔کسی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا ! کبیرہ سات ہیں ۔آپ نے فرمایا سات سو بیس ۔
چند کبیرہ گناہ :۔ اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرانا ،ناحق قتل،جادو ،سود کھانا ، رشوت لینا ، یتیم کا مال کھا نا ،جہاد سے بھاگ جانا،پاکدامن عورتوں پرتہمت لگانا ،ماں باپ کی نافرمانی کرنا ، زنا ، لواطت وغیرہ۔گناہ کبیرہ پر توبہ کرنا لازم ہے اور توبہ کا خلاصہ یہ ہے کہ پچھلے گناہ پر ندامت ،آئندہ نہ کرنے کاپختہ عزم وارادہ اور اس گناہ سے جو نقصان ہوا ہے اس کی تلافی کرنا مثلاً اگر نمازرہ گئی ہو تو اس کی قضا اور کسی کا چھینا ہوا مال واپس کرنا ،کسی کو گالی دی ہو تو اسے معاف کروانا ۔
گناہ کبیرہ کی مغفرت :۔ گناہ کبیرہ کی معافی کی تین صورتیں ہیں :۔ توبہ ،شفاعت،محض فضل خدا ،جس گناہ گار مسلمان کو (العیاذ باللہ)کوئی صورت حاصل نہ ہو ئی ۔تو وہ اپنے گناہوں کی سزا بھگت کر بالآخر جنت میں جائے گا ۔یہ سزا دنیامیں کسی بیماری یا مصیبت کی صورت میں اور برزخ میں عذاب قبر کی صورت اور آخرت میں عذاب نار کی صورت میں ہر طرح ہو سکتی ہے ۔ گناہ صغیرہ پر اصرار بھی کبیرہ ہو جاتا ہے ۔
شیخ محقق عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ’’ اشعۃ اللمعات ‘‘جلد دوم میں فرماتے ہیں ۔ترجمہ ’’اصرار اور تکرار میں فرق یہ ہے کہ اگر کوئی شخص صغیرہ گناہ کرنے کے بعد نادم ہو اور توبہ کرے اور بعد میں شامت نفس سے و ہ گناہ کرے اور پھر نادم ہو تو یہ تکرار ہے اصرار نہیں اور اگر کوئی شخص گناہ صغیرہ کر کے اس پر نادم نہ ہوا اور منع کرنے کے باوجود بلا جھجک دوبارہ گناہ کرے تو یہ اصرار ہے ۔عینی شرح بخاری میں ہے ۔لاکبیر ۃ مع الاستغفار ولا صغیرۃ مع الاصرار ۔’’جب توبہ کرلی جائے تو گناہ کبیرہ بھی مٹ جاتا ہے اور صغیرہ پر اصرار کبیرہ بنا دیتا ہے ۔‘‘اب حدیث مذکورہ میں چار گناہوں کے بارے میں کچھ ذکر کیا جاتا ہے ۔
الا شراک باللّٰہ :۔ شرک کا لغوی معنیٰ ہے حصہ یا سا جھا ،اسی لئے شریک کے معنی ہیں حصہ دار اور ساجھی کے ۔مولیٰ تعالیٰ قرآن حکیم میں ارشاد فرماتاہے :۔ ام لھم شرک فی السمٰوٰت والارض ۔’’کیا ان بتو ں کا ان آسمانوں اور زمین میں حصہ ہے۔؟اور شرک کا اصطلاحی معنی ہے کسی کو خدا تعالیٰ کے برابر جاننا،یعنی اس کی ذات و صفات میں کسی کو برابر مساوی جاننا او رماننا یہ شرک جلی سے ہے اور یہ کفر شرک سے عام ہے ،یعنی ہر شرک کفر ہے اور ہر کفر شرک نہیں ہے ۔جیسے دہر یہ جو خدا تعالیٰ کے منکر ہیں ۔وہ کافر تو ہیں مشرک نہیں ہیں ،لیکن بعض دفعہ شرک سے مراد کفر ہوتا ہے ،یعنی خاص بول کر عام مراد لیا جاتاہے ۔ مولیٰ تعالیٰ جل شانہ ٗ ارشاد فرماتا ہے :۔ان اللّٰہ لا یغفر ان یشرک بہ ٖویغفر ما دون ذالک لمن یشآء ۔’’بے شک اللہ تعالیٰ اس جرم کو نہیں بخشے گا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اس کے سوا جس کو چاہے بخش دے ۔
اس آیت کریمہ میں شرک سے مراد کفر ہے ،کیونکہ کسی بھی کافر کی بخشش نہ ہو گی اور نہ ہی کوئی کافر قابل بخشش ہے ۔
شرک کی حقیقت :۔ شرک کی حقیقت رب کریم جل وعلا سے مساوات برابری پر مبنی ہے ،یعنی جب کسی کو رب تعالیٰ کے برابر نہ جانا جائے ،تب تک شرک نہ ہو گا ،اسی لئے قیامت میں کفار اپنے بتوں سے کہیں گے ۔قرآن کریم میں ان کے قول کا اس طرح ذکر ہے:۔تا اللّٰہ ان کنا لفی ضلال مبین o اذنسویکم برب العلمین ۔’’خدا تعالیٰ کی قسم ہم کھلی گمراہی میں تھے کہ تم کو رب العالمین (جل جلالہ )کے برابر ٹھہراتے تھے۔‘‘
اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو کبیرہ وصغیرہ گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

۔۔

 نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزیدخبریں