سپیکر، قومی اسمبلی کا ماحول بہتر بنانے میں کردار ادا کریں
قومی اسمبلی کے ایوان میں سرکاری بنچوں پربیٹھے ہوئے ارکانِ اسمبلی کے طرزِ عمل کی وجہ سے جمعرات کو اجلاس کی کارروائی ملتوی کرنا پڑی حکومت اور اپوزیشن مل کر کوشش کر رہی تھیں کہ 26ویں ترمیم کا بل متفقہ طور پر منظور ہو جائے،جس کے تحت قومی اسمبلی اور خیبرپختونخوا صوبائی اسمبلی میں سابق فاٹا علاقوں کی نشستیں بڑھا دی جائیں گی،قومی اسمبلی یا سینیٹ میں تو اکثر ہوتا ہے کہ مخالف جماعتوں کے ارکان کی وجہ سے اجلاس ملتوی ہو گیا،کیونکہ ایسا ہو جانا مخالفوں کے فائدے میں اور حکومت کے نقصان میں جاتا ہے،لیکن شاذو نادر ہی کبھی سرکاری ارکان ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں،جس کی وجہ سے ایوان کی کارروائی ملتوی کرنا پڑے۔تاہم گزشتہ روز ایک وزیر کی قیادت میں حکومتی جماعت کے ارکان نے ایسا کر دکھایا اور اجلاس جمعہ تک ملتوی کرنا پڑا،اب اپوزیشن جماعتوں نے یہ موقف اختیار کر لیا ہے کہ اس بل کی اس وقت تک حمایت نہیں کی جائے گی، جب تک تفصیلی مطالعہ نہیں کر لیا جائے گا۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن جماعتوں نے اس وقت سپیکر ڈائس کے سامنے احتجاج شروع کر دیا، جب انہوں نے فلور خواجہ آصف کی بجائے وفاقی وزیر مراد سعید کو دے دیا، جنہوں نے بلاول بھٹو کی تقریر کے جواب میں حسب ِ روایت سخت جملے کسے، جس کے دوران حزبِ اختلاف کے ارکان اپنی نشستوں پر کھڑے ہو کر احتجاج اور شوروغل کرتے رہے تاہم مراد سعید نے اپنی تقریر جاری رکھی اور ایک بار پھر کہا کہ کسی کو این آر او نہیں ملے گا،حالانکہ یہ بات خود وزیراعظم ہزاروں مرتبہ دہرا چکے ہیں،معلوم نہیں ہر کہ ومہ کو اس کے بار بار اعادے کی ضرورت کیوں پڑتی ہے، کیا لوگوں کو وزیراعظم کے کہنے پر اعتبار نہیں؟
جب سے تحریک انصاف کی حکومت بنی ہے قومی اسمبلی میں قانون سازی کا بہت کم کام ہو سکا ہے اور زیادہ وقت ہنگامے، شور شرابے اور واک آؤٹ کی نذر ہو جاتا ہے۔ وزیراعظم جس طرح دوسرے کئی ریکارڈ قائم کر رہے ہیں ایوان میں ان کی حاضری کے حوالے سے ایک نیا ریکارڈ بن رہا ہے، وہ ڈھائی ماہ بعد ایوان میں آئے تو خاموشی سے بیٹھ کر چلے گئے، حالانکہ انہوں نے کئی بار اعلان کیا ہے کہ وہ ہر ہفتے سوالوں کے جواب دیا کریں گے، لیکن اب تک وہ اپنے اِس اعلان کو عملی جامہ نہیں پہنا سکے،حزبِ اختلاف کو یہ شکایت بھی ہے کہ وزراء سوالوں کے جواب نہیں دیتے۔ ایسی ہی باتوں پر ہنگامہ ہوتا ہے۔ عام طور پر سپیکر ایسی صورتِ حال میں حکومت اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے درمیان رابطے کا کردار ادا کرتے ہیں اور ایوان کی کارروائی چلانے کے لئے ماحول سازگار بنانے کی کوشش کرتے ہیں،لیکن یہاں اگر سپیکر اسد قیصر یہ اعلان کر رہے تھے کہ وہ ڈکٹیشن نہیں لیں گے،تو مسلم لیگ(ن) کے شاہد خاقان عباسی(سابق وزیراعظم) سپیکر سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے تھے،کیونکہ وہ اپنے فرائض غیر جانبداری کے ساتھ ادا کرنے اور ایوان کے کسٹوڈین کا کردار کماحقہ ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
قومی اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں کے ارکان تو ایوان کی کارروائی میں کسی نہ کسی انداز کی رکاوٹیں ڈالتے ہی ہیں اور شور شرابے نعرے بازی، احتجاج اور واک آؤٹ کی نوبت بھی آتی رہتی ہے،لیکن حکومتی ارکان کی تو کوشش ہونی چاہئے کہ کارروائی ہموار طریقے سے آگے بڑھے،لیکن بدقسمتی سے اس ایوان میں ایسا بالکل نہیں ہو رہا،رواں سیشن میں وزیر مواصلات مسلسل بلاول بھٹو زرداری کے خلاف ایسی باتیں کرتے رہے،جس کا جواب پیپلزپارٹی کے ارکان بھی دیتے رہے،کل کے اجلاس میں بھی وہی باتیں دہرائی گئیں جو کئی بار پہلے یہی وزیر کر چکے ہیں اور جواب میں اُنہیں بھی ایک کتاب کے حوالے سے بعض ایسی باتیں سننی پڑیں جو ناپسندیدہ تھیں،اِس سے پہلے اسد عمر جب وزیر خزانہ تھے تو اپوزیشن کو آڑے ہاتھوں لیا کرتے تھے،لیکن جب سے اُن کی وزارت ختم ہوئی ہے ان کا جذبہ تقریر ذرا سرد پڑ گیا ہے۔ یہی حال فواد چودھری کا ہے جو وزیر اطلاعات تھے تو خوب گرجا برسا کرتے تھے، یہاں تک کہ ایک بار اُنہیں چیئرمین سینیٹ نے پورے سیشن کے لئے ایوان سے نکال دیا تھا، جس پر وہ خاصے سیخ پا تھے،لیکن جب سے اُن کی وزارت بدلی ہے اُن کا رویہ عوامی کی بجائے ”سائنٹیفک“ ہو گیا ہے اب وہ ایوان میں کم بولتے ہیں،لیکن ایوان سے باہر کہیں موقع مل جائے تو پھلجھڑیاں چھوڑتے رہتے ہیں،اُن کا تازہ نشانہ رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمن بنے ہیں،جن کا نام لئے بغیر انہوں نے کہا کہ چاند وہ علما دیکھتے ہیں، جنہیں اپنے سامنے بیٹھا ہوا بندہ نظر نہیں آتا، پھر انہوں نے یہ گل افشانی بھی کی کہ چاند دیکھنے پر40 لاکھ روپے خرچ ہو جاتے ہیں، جو ظلم ہے، ویسے تو وہ ہیلی کاپٹر کے سفر کو کفایت شعاری کی اعلیٰ مثال بنا کر پیش کر چکے ہیں، جب انہوں نے بتایا کہ اس کا فی کلو میٹر خرچ55روپے ہے، یعنی اگر آپ کے پاس کہیں سے مفت ہیلی کاپٹر آجائے تو پھر آپ اسے تیل ڈال کر سستے داموں چلاسکتے ہیں۔ فواد چودھری اب اسمبلی میں اس انداز میں نہیں بولتے،اِس لئے ایسی گوہر افشانی ایوان سے باہر کرنے پر مجبور ہیں۔
سپیکر کو قومی اسمبلی کی کارروائی کو ہموار طریقے سے آگے بڑھانے کے کوئی میکانزم بنانا چاہئے، جس کی وجہ سے قانون سازی کا کام آگے بڑھ سکے۔ رواں سیشن تو ایک دو دن میں ختم ہو جائے گا، سپیکر کی صلاحیتوں کا امتحان تو بجٹ سیشن میں ہو گا،جس کے بارے میں امکان ہے کہ اب تک کے سارے اجلاسوں سے زیادہ ہنگامہ خیز ہو گا،کیونکہ آئی ایم ایف سے متوقع معاہدے کے بعد جو بجٹ پیش ہو گا اس سے آئی ایم ایف کی پالیسیاں جھلک رہی ہوں گی۔شاید یہی وجہ ہے کہ بلاول نے ”پی ٹی آئی، آئی ایم ایف“ حکومت کی پھبتی کسی ہے اِس سے پہلے وہ ”سلیکٹڈ وزیراعظم“ کی ترکیب کا بے دریغ استعمال کر کے اسے کافی ہر دلعزیز کر چکے ہیں،بجٹ میں اگر توقع کے مطابق زیادہ ٹیکس لگے تو اجلاس میں شعلہ بار تقریروں، احتجاج اور نعروں کو روکنا ممکن نہیں ہو گا،اِس لئے سپیکر کو چاہئے کہ حکومت اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے پارلیمانی رہنماؤں کے ساتھ مل کر کوئی ایسا لائحہ عمل بنائیں کہ بجٹ سیشن خوش اسلوبی سے گزر جائے۔ وزیراعظم کو بھی ایوان کو زیادہ وقت دینا چاہئے، ہو سکتا ہے اُن کی موجودگی میں ایوان کی فضا قدرے بہتر ہو، جذباتی وزراء بھی اگر اپنے جذبات کو قابو میں رکھیں تو اُن کی سیاست کے لئے اچھا ہو گا،کیونکہ ایسی تقریریں حزبِ اختلاف کو ہی زیبا ہیں۔ حکومتی ارکان سے بدرجہ ء اولیٰ سنجیدہ رویئے کی امید کی جاتی ہے، لیکن لگتا ہے کہ اِس ایوان سے کوئی ٹھنڈی ہوا نہیں آئے گی، کیونکہ بہت سے ارکانِ اسمبلی یہ ثابت کر رہے ہیں۔ ایوان میں جو کچھ ہو رہا ہے یہ اسی کے لئے وجود میں آیا ہے، ایسے میں اصلاحِ احوال کی امید تو عبث ہے،لیکن سپیکر کو کوشش کر دیکھنی چاہئے۔