بلدیاتی انتخابات، تاخیر ہو جائے گی؟
پنجاب میں نافذ نئے بلدیاتی قانون کے بعد بلدیاتی اداروں کے ارکان کی رکنیت ختم ہو چکی اور ہر سطح پر ایڈمنسٹریٹروں کا تقرر کر دیا گیا ہے، قانون کے نفاذ کے ساتھ ہی اس منشاء کا بھی اظہار کیا گیا کہ نئے نظام کے لئے بلدیاتی انتخابات ایک سال کے اندر کرائے جائیں گے تاہم الیکشن کمیشن کے ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ انتخابات ایک سال کے اندر ممکن نہیں۔ کمیشن ذرائع کے مطابق قانون منظور ہو گیا،ابھی اس کے قواعد بنانا ہیں اور پھر شماریاتی بلاکوں کے نقشے بنیں گے، اس میں تین ماہ لگیں گے،جس کے بعد حلقہ بندیوں کا کام شروع ہو گا اور اس میں قریباً چھ ماہ لگیں گے،جب حلقہ بندی مکمل ہو گی تو اسے مشتہر کر کے اعتراضات طلب کئے جائیں گے اور ان کا فیصلہ ہونے میں چھ ماہ لگ جائیں گے،جب اعتراضات کی سماعت ہو کر فیصلے ہوں گے تو مزید ایک ماہ درکار ہو گا، پھر انتخابی فہرستوں کی تیاری اور نئی حلقہ بندیوں کو حتمی شکل دینا ہو گی۔یوں اس پورے عمل کے لئے ایک سال کا وقت کم ہو گا۔ان ذرائع سے جو قانونی پوزیشن سامنے آئی اس سے بالکل واضح ہو گیا کہ قانون منظور کراتے وقت یہ سقم رہ گیا اور مقررہ وقت کے اندر انتخابات نہ ہوئے تو قانونی منشاء کی خلاف ورزی ہو گی، جب یہ قانون مرتب اور منظور کیا جا رہا تھا تو اس دم یہ بھی احتیاط کرنا چاہئے تھی اور اِس امر کا جائزہ لینا چاہئے تھا کہ کیا واقعی ایک سال کے اندر یہ عمل مکمل ہو جائے گا؟ اِسی لئے پارلیمانی روایت یہ ہے کہ ہر قانون کو ایوان میں باقاعدہ بحث سے منظور کرایا جائے تو ایسی مشکل پیش نہیں آتی کہ ایوان میں کمی، کمزوری کی نشاندہی ہو جاتی ہے۔بہرحال وقت اور پیسے کا بھی ضیاع ہو گا اور عدالتی جنگ کا بھی امکان ہے،حکومت کو قانون سازی کے بارے میں قواعد پر عمل کرنے سے فائدہ ہی ہوتا اب مشکل آ گئی ہے۔