سٹریٹ کرائم میں اضافہ اور پولیس
سٹریٹ کرائم کے ساتھ ساتھ چھوٹی چھوٹی باتوں پر قتل و غارت کی وارداتیں بڑھ رہی ہیں۔ اس حوالے سے ایک دل خراش واقعہ چند دن پہلے سیالکوٹ میں پیش آیا جہاں ٹک ٹاک سٹار حمزہ غنی کے والد کو ان کی آنکھوں کے سامنے قتل کیا گیا اور ان کے چھوٹے بھائی کو ٹانگ پر گولی ماری گئی۔ حمزہ کے مطابق اس خوفناک واقعے کا آغاز یوں ہوا کہ ہفتے کے روز ان کے محلے میں بچے لڑ رہے تھے جن میں سے ایک نے سیاسی جماعت کے لوگوں کو بلا لیا۔ ان لڑکوں نے آکر اونچی آواز میں گالم گلوچ شروع کردی۔ ان کے تایا نماز پڑھنے کے بعد محلے میں گئے اور سیاسی جماعت کے لڑکوں کو سمجھانے لگے کے یہ محلے کا معاملہ ہے آپ لوگ درمیان میں نہ آئیں۔ سیاسی جماعت کے لڑکوں نے ان کے تایا کے ساتھ بد تمیزی شروع کردی۔ جواباً ان کے کزنوں اور ان لڑکوں میں ہاتھا پائی شروع ہوگئی۔ اس واقعے کے بعد یہ واقعہ جب انھوں نے اپنے والد کو سنایا تو انھوں نے کہا کہ محلے کے بچوں کی لڑائی ہے خودبخود ختم ہو جائے گی۔ اس بات چیت کے چند لمحے بعد انھیں محلے سے کسی کے چلانے کی آوازیں آئیں۔
جب انھوں نے باہر جا کر دیکھا تو ان کے ایک دوست کو گولی لگی ہوئی تھی اور ان کے کزن کو خوب مارا جا رہا تھا۔ یہ بیچ بچاؤ کرانے کے لیے تھوڑا آگے گئے تو پیچھے سے گولیاں چلنے کی آوازیں آئیں۔ دیکھا تو ان کے والد زمین پر گرے ہوئے تھے اور چھوٹے بھائی کی ٹانگ پر گولی لگی ہوئی تھی۔ پاس جاکردیکھا تو ان کے والد داؤد بٹ دم توڑ چکے تھے۔ اگلے دن انھوں نے بے بسی کے عالم میں سوشل میڈیا پر ویڈیو اپ لوڈ کی جس میں انھوں نے اپنے باپ کے قتل کا حساب طلب کیا اور حکومت وقت سے انصاف کی اپیل کی۔ چند ہی گھنٹوں میں وہ ویڈیو ٹویٹر پر ٹرینڈ کر رہی تھی اور تین ملزموں کو گرفتار بھی کر لیا گیا۔ کہاں وہ بیچارہ لوگوں کو خوش کرتا تھا اور آج کہاں وہ اپنے حق کے لیے رو رو کر انصاف مانگ رہا ہے۔ اسے ہر حال میں انصاف ملنا چاہیے۔
جرائم میں اضافے کی خبریں ان دنوں عام ہو گئی ہیں۔ شاید ہی کوئی دن جاتا ہو جب آپ کو کسی گلی، محلے، شہر سے کوئی ایسی اطلاع نہ ملتی ہو کہ کسی کے ساتھ کوئی واردات ہو گئی ہے۔ اس کی ویسے تو کئی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن حالات کے پیش نظر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنا پورا کردار ادا کرنا چاہیے۔ یقیناً ان کی جانب سے غلطی کی جا رہی ہے۔ 2020ء کے شروع سے ہی لاہور میں سٹریٹ کرائم میں خوفناک اضافہ دیکھنے کو آیا ہے۔ سال کے شروع کے صرف 70دنوں میں لاہور میں 80قتل ریکارڈ ہوئے۔ انہی دنوں ایک باقائدہ گینگ حرکت میں آیا جو بندوق کی نوک پر لوگوں سے ان کا موبائل فون اور موٹر سائیکل چھینتا رہا۔ صرف گلشن راوی میں اس گینگ کے خلاف کئی شکایات درج ہوئیں۔ گلشن راوی کی ایک مسجد میں نماز فجر پڑھ کر گھر جانے والے نمازیوں کو اس گینگ نے اپنی واردات کا نشانہ بنایا اورسات افراد کو لوٹا۔ پھر پی ایس ایل کے بعد چوری اور ڈکیتی عام ہی ہو گئی۔ لاہور میں بارہ ہزار میں سے سات ہزار پولیس اہلکار صرف پی ایس ایل اور اسکی ٹیموں کی سکیورٹی کے لیے تعینات ہوئے۔ اس کام کے دباؤ میں پولیس کا دھیان تھانوں اور دیگر جرائم پر نہیں رہتا لیکن پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ پھر ڈولفن فورس کا کیا فائدہ ہوا؟۔ ڈولفن فورس کو بنانے کا صرف ایک ہی مقصد تھا کہ ان کے ہونے سے سٹریٹ کرائم میں بہت حد تک کمی آئے گی۔ یہ بھی سچ ہے کہ شروع کے دنوں میں ان کی کارکردگی قابل تعریف تھی لیکن اب یہ صرف لوگوں سے پیسے مانگتے ہیں۔
پی ایس ایل کے دوران ڈولفن فورس کی ناقص کارکردگی نے کرائم ریٹ میں ایک خوفناک اضافہ کر دیا۔ جب سے لاہور میں سیف سٹی کیمرے لگے ہیں یہ امید کی جا رہی تھی کہ شاید وارداتیں کم ہوں گی کیونکہ اس کے ذریعے پولیس بڑی آسانی سے مجرم کو ٹریک ڈاؤن کر سکتی تھی۔ مگر اس میں اب صرف یہ ہو رہا ہے کہ سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے آنے لگ گئی ہیں۔ یعنی جو واقعات پہلے چھپ جاتے تھے وہ اب منظر عام پر آنے لگ گئے ہیں۔ پھر جرائم کے اعداد و شمار کو روکنے کے لیے لاہور پولیس ایمرجنسی ہیلپ لائن پر 72 فیصد موصول کالوں پر ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کرتی رہی۔ایک رپورٹ کے مطابق 2020ء کے پہلے چار مہینوں میں جرائم کا شکار ہونے والوں کی کل 9881 تصدیق شدہ کالز ریکارڈ ہوئیں اور پولیس نے صرف 2163 پر ایف آئی آرز درج کیں۔ آئی جی پنجاب شعیب دستگیر کی تعیناتی کے وقت حکومت کی طرف سے دعویٰ کیا گیا کہ اب جرائم کا گراف نیچے آئے گا۔ اگر فرق ایسے پڑے گا تو ہمارا صرف اللہ ہی حافظ ہے۔ نئے آئی جی کے آنے کے بعد صرف یہی نوٹ کیا گیا کہ جعلی پولیس مقابلے جو کہ بہت پرا نا حربہ اور روایت ہے۔ ایک بار پھر سے شروع کردئیے گئے ہیں۔
کورونا کے باعث ملک میں ایک بہت خطرناک مالی بحران آنے والا ہے۔ بے روزگاری کی شرح بھی دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے۔ جس سے بجا طور پر ایسے خدشات پیدا ہورہے ہیں کہ جرائم میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔ ایسے حالات میں اعلیٰ عہدوں پر فائز پولیس افسران کو ابھی سے منصوبہ بندی کر لینی چاہئیے کہ اس بحران کے دورا ن جرائم پر کیسے قابو پایا جائے گا۔