ام الممومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ ؒ
آپؓ کا نام عائشہ، لقب صدیقہ اور حمیرا، خطاب ام المؤمنین اور کنیت ام عبد اللہ ہے۔ چونکہ آپؓ صاحبِ اولاد نہ تھیں اس لئے آپؓ نے اپنی بہن حضرت اسماءؓ کے صاحبزادے اور اپنے بھانجے عبد اللہ بن زبیرؓ کے نام پر حضور ﷺ کے ارشاد کے مطابق اپنی کنیت ام عبد اللہ اختیار فرمائی (ابوداؤد کتاب الادب) حضرت عائشہ صدیقہؓ کے والد کا نام عبد اللہ، ابوبکر کنیت اور صدیق لقب تھا، ماں کا نام ام رومان تھا، حضرت عائشہ صدیقہؓ کا سلسلہ نسب باپ کی طرف سے ساتویں پشت اور ماں کی طرف سے گیارویں یا بارویں پشت میں جا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جاتا ہے۔
حضرت صدیقہؓ کی پیدائش سے چار سال قبل ہی آپؓ کے والد ماجد سیدنا حضرت ابوبکر صدیقؓ دولت اسلام سے مالا مال ہو چکے تھے اور آپؓ کا گھر نورِ اسلام سے منور ہو چکا تھا، اس لیے آپؓ نے آنکھ کھولتے ہی اسلام کی روشنی دیکھی۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ پر اللہ تعالیٰ کا یہ خاص انعام ہے کہ انھوں نے کبھی کفروشرک کی آواز تک نہیں سنی،ارشاد فرماتی ہیں کہ جب سے میں نے اپنے والد کو پہچانا ان کو مسلمان پایا۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ کے ”کاشانہ نبوت“ میں حرم نبوی کی حیثیت سے داخل ہونے کے بعد قرآن مجید کا ایک بڑا حصہ نازل ہوا، آپؓ کو کم و پیش دس سال حضور ﷺ کے ساتھ رہنے کا شرف حاصل ہوا، خود صاحبِ قرآن (حضورﷺ) سے قرآن سنتیں، جس آیت کا مطلب سمجھ میں نہ آتا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا مفہوم سمجھ لیتیں، اسی ”نورخانہ“ میں آپؓ نے کلامِ الٰہی کی معرفت، ارشاداتِ رسالت کا علم، رموز و اسرار دین کی عظیم الشان واقفیت حاصل کی،حضرت عائشہ صدیقہؓ کو علم دینیہ کے علاوہ تاریخ، ادب اور طب کے علوم میں بھی کافی مہارت تھی، غرضیکہ اللہ رب العزت نے آپؓ کی ذاتِ اقدس میں علم انساب، شعروشاعری، علوم دینیہ، ادب و تاریخ اور طب جیسے علوم جمع فرما دیئے تھے۔حضرت عائشہ صدیقہؓ عبادت الٰہی میں اکثر مصروف رہا کرتی تھیں، دیگر نمازوں کے ساتھ ساتھ رات کو اٹھ کر نماز تہجد ادا فرمایا کرتی تھیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی اس نماز کی پابندی میں کوئی فرق نہیں آیا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ عورتوں کے لئے حج ہی جہاد ہے اس لیے حضرت عائشہ صدیقہؓ حج کی بہت زیادہ پابندی فرمایا کرتی تھیں اور تقریباً ہر سال حج کیلئے تشریف لے جاتیں (بخاری شریف) حج کے بعد عمرہ بھی ادا کرتیں، آخر رمضان میں جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف فرماتے تو حضرت عائشہ صدیقہؓ بھی اتنے ہی دن صحن میں خیمہ نصب کروا کر اعتکاف میں گزارتیں، حضرت عائشہ صدیقہؓ کی ذات اقدس میں قناعت کی صفت بدرجہ اتم موجود تھی ان کی تقریباً ساری زندگی ہی عسرت و تنگی اور فقرو فاقہ میں گزر گئی…… حضرت عائشہؓ خود فرماتی ہیں کہ ہم پر پورا ایک ایک مہینہ گزر جاتا اور گھر میں آگ تک نہ جلاتے، ہماری غذا پانی اور چھوہارے ہوتے تھے مگر کہیں سے تھوڑا سا گوشت آ جاتا تو ہم کھا لیتے (بخاری شریف)
آپؓ میں ایثار کا جذبہ بھی بہت زیادہ پایا جاتا تھا…… صرف ایک قسم کے کفارہ میں آپؓ نے ایک بار چالیس غلام آزاد کئے تھے، آپؓ کے آزاد کردہ غلاموں کی تعداد 67 ہے (سیرت عائشہؓ)
ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ کے اخلاق کا سب سے ممتاز جوہر ان کی طبعی فیاضی اور کشادہ دستی تھی، خیرات میں تھوڑے بہت کا لحاظ نہ کرتیں، جو موجود ہوتا سائل کی نذر کر دیتیں، حضرت غزوہؓ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت عائشہؓ نے ان کے سامنے پوری ستر ہزار کی رقم خدا کی راہ میں دے دی اور دوپٹہ کا گوشہ جھاڑ دیا۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کی صفائی میں سترہ قرآنی آیات نازل ہوئیں …… اسی طرح غزوہ ذات الرقاع کے موقعہ پر بھی حضرت عائشہ صدیقہؓ کی وجہ سے تیمم کا قرآنی حکم نازل ہوا……
ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ کا امت مسلمہ پر بہت بڑا احسان ہے کہ ان کے مبارک واسطہ سے امت کو دین کا بڑا حصہ نصیب ہوا، صحابہ کرامؓ کی ربانی جماعت کے وہ قابل فخر و ناز افراد جنھوں نے حضور ﷺ کے ارشادات و فرمودات اور آپ ﷺ کے قدوسی حرکات و سکنات کثرت سے نقل کیے ان میں حضرت سیدہ عائشہؓ کا چھٹا نمبر ہے، حضرت عائشہؓ سے حضور ﷺ کی دو ہزار دو سو دس حدیثیں مروی ہیں۔
حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ فرماتے ہیں کہ ہم اصحابِ رسول ﷺ کو کوئی ایسی مشکل کبھی پیش نہیں آتی جس کو ہم نے حضرت عائشہؓ سے پوچھا ہو اور ان کے پاس اس کے بارے میں کوئی معلومات ہم کو نہ ملی ہوں۔ امام زہریؒ فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہؓ تمام لوگوں میں سب سے زیادہ عالم تھیں، بڑے بڑے صحابہؓ ان سے پوچھا کرتے تھے……
58ھ میں حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ کی عمر 67سال کی ہو چکی تھی، اسی سال ہی رمضان المبارک میں آپؓ بیمار ہوئیں، چند روز علالت کا سلسلہ جاری رہا، زمانہ علالت میں جب کوئی مزاج پرسی کرتا تو فرماتیں ”اچھی ہوں“ (ابن سعد) 17 رمضان المبارک 58 ھجری کی رات، رحمت دو عالم ﷺ کی حرم اور تمام مسلمانوں کی ماں حضرت عائشہ صدیقہؓ ہمیشہ کیلئے رخصت ہو گئیں …… سیدنا حضرت ابوھریرہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور آپؓ کی وصیت کے مطابق جنت البقیع میں دفن کیا گیا…… رضی اللہ تعالیٰ عنہا۔
٭٭٭