افغانستا ن، بلخ میں جھڑپ کے دوران 4سیکیورٹی اہلکار ہلاک
مزارشریف(مانیٹرنگ ڈیسک، نیوز ایجنسیاں)افغانستان کے شمالی صوبہ بلخ میں ہفتہ کی رات کو جھڑپ میں 4سیکیورٹی اہلکار ہلاک جبکہ7لاپتہ ہوگئے ہیں۔مقامی پولیس نے اتوار کے روز بتا یا کہ شاید انہیں طالبان عسکریت پسندوں نے پکڑ لیاہے۔صوبائی پولیس کے ترجمان عادل شاہ عادل نے شِنہوا کو بتایا کہ مسلح طالبان عسکریت پسندوں نے صوبہ بلخ کے ضلع بلخ کے گاں عالم خیل کی چوکیوں پر ہفتہ کی رات کو دھاوا بول دیاجس کے بعد چوکی پر تعینات سیکیورٹی فورسز اور حملہ آوروں کے مابین جھڑپ شروع ہوگئی۔پولیس کے عہدیدار نے کہاکہ جائے وقوعہ پر خون کے دھبوں سے لگتا ہے کہ عسکریت پسندوں کی بھی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔عادل کے مطابق فوج اور پولیس کے مشترکہ یونٹ نے صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے اتوار کی صبح جائے وقوعہ کا دورہ کیا۔ کابل (آئی این پی) طالبان نے امریکی کانٹریکٹر مارک فریرچز کی گم شدگی سے لاتعلقی کا اعلان کیا ہے۔ یہ امریکی کانٹریکٹر رواں برس جنوری کے آخر میں افغانستان میں لاپتا ہو گیا تھا۔ طالبان کے سیاسی ترجمان سہیل شاہین نے اتوار کے روز کہا کہ طالبان کو اس لاپتا امریکی سے متعلق کوئی علم نہیں ہے۔ خصوصی امریکی مندوب برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نے اس سلسلے میں پاکستان سے مدد کی درخواست بھی کی ہے۔ واضح رہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان ایک امن معاہدہ فروری کے آخر میں طے پایا تھا، تاہم اب تک یہ معاہدہ کئی طرح کے مسائل کا شکار رہا ہے۔
طالبان حملہ
کابل (این این آئی)افغان صدر اشرف غنی نے ایران کے ساتھ واقع سرحدی علاقے میں متعدد ہم وطن مہاجروں کے ڈوبنے کے واقعے کی مکمل تحقیقات کا حکم دیا۔میڈیارپورٹس کے مطابق افغان حکام پہلے ہی اس واقعے کی تحقیقات کررہے ہیں لیکن صدر اشرف غنی نے دس ارکان پر مشتمل ایک نئی ٹیم اس واقعے کی تحقیقات کے لیے مقرر کی ہے۔صوبہ ہرات اور ایران کے درمیان واقع دریائے ہری رود سے اٹھارہ افغان تارکین وطن کی لاشیں نکالی گئی تھیں اور ان میں سے بعض پر تشدد کے نشانات تھے۔افغان حکام نے دعویٰ کیا کہ یہ تارکین وطن دریائے ہری رود میں ڈوبے تھے۔وہ مغربی صوبہ ہرات سے پڑوسی ملک ایران میں داخل ہونے کی کوشش کررہے تھے مگر ایرانی کے سرحدی محافظوں میں انھیں زبردستی دریا میں دھکیل دیا تھا۔افغان صدر کے دفتر نے ایک بیان میں کہا کہ صدر اشرف غنی نے ایک حکم کے ذریعے ایران کی سرحد کے ساتھ متعدد ہم وطنوں کے ڈوب مرنے کے واقعے کی تفصیلی تحقیقات کے لیے ایک دس رکنی ٹیم مقرر کی ہے۔
اشرف غنی