اسلام اور کفر کے درمیان پہلا معرکہ
تاریخ اسلام کا وہ معرکہ خیر و شر کہ جس نے توحید و رسالت کے پرچم کو سربلند کرکے، اس دن کے سینے پر یوم الفرقان کا تمغہ ہی نہیں سجایا بلکہ اس معرکہ نے ایک کلیہ حرب بھی نمایاں کردیا کہ ”کم من فءۃ قلیلۃ غلبت فءۃ کثیرۃ باذن اللہ“ کہ جب اللہ پر بھرسو کرنے والے میدان میں آجائیں تو فتح و تائید انہی کا نصیبہ ٹھہرتا ہے خواہ ان کی تعداد کم ہی کیوں نہ ہو!
اس معرکہ پر بے شمار بڑی بڑی کتب اور مضامین لکھے گئے ہیں لیکن ہم یہاں اختصار سے بنیادی باتیں نقل کر رہے ہیں مکہ والوں نے پیارے رسولؐ اور ان کو ساتھیوں کو مکہ میں چین سے نہ رہنے دیا،جب آپؐ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مدینہ آ گئے تو یہاں بھی یلغار کرنے میں لگے رہے۔ رمضان 2ہجری کو بڑے لاؤ لشکر کے ساتھ حملہ کرنے کو آئے، بدر کے مقام پر جب مشرکین کا لشکر نمودار ہوا اور دونوں فوجیں ایک دوسرے کو دکھائی دینے لگیں تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: اے اللہ یہ قریش ہیں جو اپنے پورے غرور و تکبر کے ساتھ تیری مخالفت کرتے ہوئے اور تیرے رسولؐ کو جھٹلاتے ہوئے آگئے ہیں۔ اے اللہ تیری مدد…… جس کا تونے وعدہ کیا ہے۔ اے اللہ آج انہیں اینٹھ کر رکھ دے۔
”اس موقع پر رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کی صفیں درست فرمائیں۔ پھر جب صفیں درست کی جا چکیں توآپ ؐ نے لشکر کو ہدایت فرمائی کہ جب تک اسے آپ ؐکے آخری احکام موصول نہ ہو جائیں جنگ شروع نہ کرے۔ اس کے بعد طریقہ جنگ کے بارے میں ایک خصوصی رہنمائی فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جب مشرکین جمگھٹ کر کے تمہارے قریب آ جائیں تو ان پر تیر چلانا اور اپنے تیر بچانے کی کوشش کرنا (یعنی پہلے ہی سے فضول تیر اندازی کرکے تیروں کو ضائع نہ کرنا۔) اور جب تک وہ تم پر چھانہ جائیں تلوار نہ کھینچنا۔ اس کے بعد آپؐ اور ابوبکر رضی اللہ عنہ چھپر کی طرف واپس گئے اور حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ اپنا نگران دستہ لے کر چھپر کے دروازے پر تعینات ہوگئے۔
اس معرکے کا پہلا ایندھن اسود بن عبدالاسد مخزومی تھا۔ یہ شخص بڑا اڑیل اور بدخلق تھا۔ جب یہ ادھر سے نکلا تو ادھر سے حضرت حمزہؓ بن عبدالمطلب برآمد ہوئے۔ دونوں میں حوض سے پرے ہی مڈبھیڑ ہوئی۔ حضرت حمزہؓ نے ایسی تلوار ماری کہ اس کا پاؤں نصف پنڈلی سے کٹ کر اڑ گیا اور وہ پیٹھ کے بل گر پڑا۔ اس کے پاؤں سے خون کا فوارہ نکل رہا تھا۔ جس کا رخ اس کے ساتھیوں کی طرف تھا لیکن اس کے باوجود وہ گھٹنوں کے بل گھسٹ کر حوض کی طرف بڑھا اور اس میں داخل ہوا ہی چاہتا تھا کہ اتنے میں حضرت حمزہؓ نے دوسری ضرب لگائی اور وہ حوض کے اندر ہی ڈھیر ہو گیا۔
اس کے بعد قریش کے تین بہترین شہسوار نکلے جو سب کے سب ایک ہی خاندان کے تھے۔ ایک عتبہ اور دوسرا اس کا بھائی شیبہ جو دونوں ربیعہ کے بیٹے تھے اور تیسرا ولید جو عتبہ کا بیٹا تھا۔ انہوں نے اپنی صف سے الگ ہوتے ہی دعوت مبارزت دی۔ مقابلے کے لئے انصار کے تین جوان نکلے۔ ایک عوفؓ دوسرے معوذؓ…… یہ دونوں حارث کے بیٹے تھے اور ان کی ماں کا نام عفراء تھا…… تیسرے عبداللہ بن رواحہؓ،قریشیوں نے کہا: تم کون لوگ ہو؟ انہوں نے کہا: انصار کی ایک جماعت ہیں۔ قریشیوں نے کہا: آپ لوگ شریف مدمقابل ہیں لیکن ہمیں آپ سے سروکارنہیں۔ ہم تو اپنے چچیرے بھائیوں کو چاہتے ہیں۔ پھر ان کے منادی نے آواز لگائی: محمدؐ…… ہمارے پاس ہماری قوم کے ہمسروں کو بھیجو۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: عبیدہ بن حارثؓ! اٹھو حمزہؓ! اٹھو۔ علیؓ! اٹھو۔ جب یہ لوگ اٹھے اور قریشیوں کے قریب پہنچے تو انہوں نے پوچھا۔ آپ کون لوگ ہیں؟انہوں نے اپنا تعارف کرایا۔ قریشوں نے کہا۔ ہاں آپ لوگ شریف مدمقابل ہیں۔ اس کے بعد معرکہ آرائی ہوئی۔ حضرت عبیدہ ؓنے جو سب سے معمر تھے…… عتبہ بن ربیعہ سے مقابلہ کیا۔ حضرت حمزہؓ نے شیبہ سے اور حضرت علیؓ نے ولید سے حضرت حمزہؓ اور حضرت علیؓ نے تو اپنے اپنے مقابل کو جھٹ مار لیا لیکن حضرت عبیدہؓ اور ان کے مدمقابل کے درمیان ایک ایک وار کا تبادلہ ہوا اور دونوں میں سے ہر ایک نے دوسرے کو گہرا زخم لگایا۔ اتنے میں حضرت علیؓاور حضرت حمزہؓ اپنے اپنے شکار سے فارغ ہو کر آگئے، آتے ہی عتبہ پر ٹوٹ پڑے، اس کا کام تمام کیا اور حضرت عبیدہؓ کو اٹھا لائے۔ ان کا پاؤں کٹ گیا تھا اور آواز بند ہوگئی تھی جو مسلسل بند ہی رہی یہاں تک کہ جنگ کے چوتھے یا پانچویں دن جب مسلمان مدینہ واپس ہوتے ہوئے وادی صفراء سے گزر رہے تھے ان کا انتقال ہو گیا۔اس مبارزت کا انجام مشرکین کے لئے ایک برا آغاز تھا۔ وہ ایک ہی جست میں اپنے تین بہترین شہ سواروں اور کمانڈروں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ اس لئے انہوں نے غیض و غضب سے بے قابو ہو کر یکبارگی حملہ کر دیا۔
دوسری طرف مسلمان اپنے رب سے نصرت اور مدد کی دعا کرنے اور اس کے حضور اخلاص و تضرع اپنانے کے بعد اپنی اپنی جگہوں پر جمے اور دفاعی موقف اختیار کئے مشرکین کے تابڑ توڑ حملوں کو روک رہے تھے اور انہیں خاصا نقصان پہنچا رہے تھے۔ زبان پر احد احد کا کلمہ تھا۔
ادھر رسول اللہﷺ صفیں درست کرکے واپس آتے ہی اپنے پاک پروردگار سے نصرت و مدد کا وعدہ پورا کرنے کی دعا مانگنے لگے۔ آپؐ کی دعا یہ تھی:”اے اللہ! تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے اسے پورا فرما دے۔ اے اللہ! میں تجھ سے تیرا عہد اور تیرے وعدے کا سوال کر رہا ہوں۔“
پھر جب گھمسان کی جنگ شروع ہوگئی، نہایت زور کا رن پڑا اور لڑائی شباب پر آگئی تو آپؐ نے یہ دعا فرمائی۔”اے اللہ! اگر آج یہ گروہ ہلاک ہو گیا تو تیری عبادت کبھی نہ کی جائے گی۔ اے اللہ! اگر تُو چاہے کہ آج کے بعد تیری عبادت ہو تو مدد فرما۔آپؐ نے خوب تضرع کے ساتھ دعا کی یہاں تک کہ دونوں کندھوں سے چادر گر گئی۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے چادر درست کی اور عرض پرواز ہوئے، اے اللہ کے رسولؐ! بس فرمایئے! آپؐ نے اپنے رب سے بڑے الحاح کے ساتھ دُعا فرمالی۔ ادھر اللہ نے فرشتوں کی وحی کی کہ:”میں تمہارے ساتھ ہوں، تم اہل ایمان کے قدم جماؤ، میں کافروں کے دل میں رعب ڈال دوں گا۔“اور رسول اللہﷺ کے پاس وحی بھیجی کہ:”میں ایک ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کروں گا جو آگے پیچھے آئیں گے“۔
اس کے بعد رسول اللہﷺ کو ایک جھپکی آئی۔ پھر آپؐ نے سر اٹھایا اور فرمایا! ابوبکر خوش ہو جاؤ، تمہارے پاس اللہ کی مدد آگئی۔ یہ جبریل علیہ السلام ہیں اپنے گھوڑے کی لگام تھامے اور اس کے آگے آگے چلتے ہوئے آ رہے ہیں اور گردوغبار میں اٹے ہوئے ہیں۔ اس کے بعد رسول اللہﷺ چھپر کے دروازے سے باہر تشریف لائے۔ آپؐ نے زرہ پہن رکھی تھی۔ آپؐ پرجوش طور پر آگے بڑھ رہے تھے اور فرماتے جا رہے تھے۔”عنقریب یہ جتھہ شکست کھا جائے گا اور پیٹھ پھیر کر بھاگے گا۔“اس کے بعد آپؐ نے ایک مٹھی کنکریلی مٹی لی اور قریش کی طرف رخ کرکے فرمایا: ”چہرے بگڑ جائیں“ اور ساتھ ہی مٹی ان کے چہروں کی طرف پھینک دی۔ پھر مشرکین میں سے کوئی بھی نہیں تھا جس کی دونوں آنکھوں، نتھنے اور منہ میں اس ایک مٹھی مٹی میں سے کچھ نہ کچھ گیا نہ ہو۔ اسی کی بابت اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
”جب آپؐ نے پھینکا تو درحقیقت آپؐ نے نہیں پھینکا بلکہ اللہ نے پھینکا۔“
رسول اللہﷺ نے جوابی حملہ کا حکم صادر فرمایا دشمن کے حملوں کی تیزی جا چکی تھی اور ان کا جوش و خروش سرد پڑ رہا تھا۔ اس لئے یہ باحکمت منصوبہ مسلمانوں کی پوزیشن مضبوط کرنے میں بہت موثر ثابت ہوا، کیونکہ صحابہؓ کرام کو جب حملہ آور ہونے کا حکم ملا اور ابھی ان کا جوش جہاد شباب پر تھا تو انہوں نے نہایت سخت تند اور صفایا کن حملہ کیا وہ صفوں کی صفیں درہم برہم کرتے اور گردنیں کاٹتے آگے بڑھے۔ ان کے جوش و خروش میں یہ دیکھ کر مزید تیزی آگئی کہ رسول اللہﷺ بہ نفس نفیس زرہ پہنے تیز تیز چلتے تشریف لا رہے ہیں اور پورے یقین و صراحت کے ساتھ فرما رہے ہیں کہ ”عنقریب یہ جتھہ شکست کھا جائے گا، اور پیٹھ پھیر کر بھاگے گا۔“ اس لئے مسلمانوں نے نہایت پرجوش و پرخروش لڑائی لڑی اور فرشتوں نے بھی ان کی مدد فرمائی۔ چنانچہ ابن سعد کی روایت میں حضرت عکرمہؓسے مروی ہے کہ اس دن آدمی کا سرکٹ کر گرتا اور یہ پتا نہ چلتا کہ اسے کس نے مارا اور آدمی کا ہاتھ کٹ کر گرتا اور یہ پتا نہ چلتا کہ اسے کس نے کاٹا۔