دنیا بھر میں Mothers Day منایا جاتا ہے لیکن کیا آپ کو معلوم ہے یہ سب سے پہلے کس نے اور کیوں منانا شروع کیا؟ انتہائی دلچسپ تاریخ جانئے
نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) اگرچہ دنیا کے کئی ممالک الگ دنوں میں ’مدرز ڈے‘ مناتے ہیں لیکن امریکہ، اٹلی، آسٹریلیا، ڈنمارک اور ترکی سمیت بیشتر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی یہ مئی کے دوسرے اتوار کو منایا جاتا ہے۔ اس روز ہر کوئی اپنی ماں کے ساتھ اور مجموعی طور پر تمام ماﺅں کے ساتھ اپنی والہانہ محبت کا اظہار کرتا ہے تاہم یہ بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ اس دن کو منائے جانے کا آغاز کب اور کس طرح ہوا تھا۔ ویب سائٹ plough.com اس تہوار کے تانے بانے امریکہ میں غلامی کے خاتمے کے لیے لڑی جانے والی جنگ سے جا ملتے ہیں۔ غلامی کے خاتمے کی اس لڑائی میں ایک اہم نام ’جولیا وارڈ ہیو‘ کا ہے جنہوں نے اپنی زندگی غلامی کے خاتمے کے لیے وقف کر دی۔ جولیا وارڈ ایک شاعرہ بھی تھیں جنہوں نے ’بیٹل ہم آف دی ری پبلک‘ (Battle Hymn of the Republic)جیسی نظم لکھی۔ آج وہ غلامی کے خاتمے کے خلاف جدوجہد سے زیادہ اپنی شاعری کی وجہ سے جانی جاتی ہیں۔
جب امریکہ میں غلامی کے خاتمے کے لیے ہونے والی جنگ ختم ہوئی تو جولیا نے مدرز پیس ڈے کے نام سے اس تہوار کی بنیاد رکھی۔ بوسٹن میں وہ ہر سال اس تہوار پر تقاریب کا انعقاد کرتی رہیں۔ وہ 1819ءمیں پیدا ہوئی تھیں اور 1910ءمیں ان کا انتقال ہوا۔ ان کے انتقال سے تین سال قبل 1907ءمیں فلاڈلفیا کی اینا جرویس نامی خاتون نے اس دن کو ’مدرز ڈے‘ کے نام سے قومی سطح پر منائے جانے کے لیے ایک مہم شروع کی۔ سات سال تک یہ مہم چلتی رہی اور امریکی حکومت سے مطالبہ کیا جاتا رہا کہ وہ قانون سازی کرکے اس دن کو قومی تہوار بنائے اور اس دن پر پورے ملک میں سرکاری سطح پر چھٹی کی جائے۔ 1914ءمیں صدر ووڈ رو ولسن نے یہ مطالبہ تسلیم کر لیا اور مدرز ڈے کو امریکہ میں قومی سطح پر منایا جانے لگا۔
آج مدرز ڈے پر جس طرح ماﺅں کو مٹھائی، پھول، تحائف اور دیگر چیزیں پیش کی جاتی ہیں، یہ آئیڈیا دراصل جولیا وارڈ ہیو ہی کا ہے۔ انہوں نے اسی انداز میں اس تہوار کو منانا شروع کیا تھا۔ وہ بوسٹن میں ہر سال مدرز پیس ڈے پر تقریب میں ماﺅں کو اسی طرح تحائف دیتی تھیں۔ 1870ءمیں جولیا نے ایک تحریر میں اس دن کے اغراض و مقاصد کو اجاگر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ”تمام خواتین، جن کے سینے میں دل ہے، پرعزم ہو کر کہو کہ ہم غیرمتعلقہ ایجنسیوں کے کہنے پر نہیں چلیں گے۔ ہمارے شوہر قتل و غارت کرکے خون کی بدبو اپنے ساتھ لیے ہمارے پاس محبت اور ستائش کے لیے نہیں آئیں گے۔ہمارے بیٹے ہم سے چھینے نہیں جائیں گے۔ ہم نے اپنے بیٹوں کو جو رحم ، صبر اور لوگوں کے ساتھ بھلائی کا سبق دیا، ہم کسی کو اجازت نہیں دیں گی کہ وہ ہمارے بیٹوں کو یہ سبق بھولنے پر مجبور کرے۔ ہم ایک ملک کی مائیں، کسی دوسرے ملک کی ماﺅں کے لیے بہت شفیق ہوں گی اور ان سے محبت کریں گی جن کے بیٹوں کو زخمی کرنے کے لیے ہمارے بیٹوں کو تربیت دی گئی۔میں مطالبہ کرتی ہوں کہ نسوانیت اور انسانیت کے نام پر ملک و قوم کی تفریق سے بالاتر ہو کر خواتین پر مبنی ایک جنرل کانگریس قائم کی جائے اور اس کانگریس کے ذریعے ممالک اور اقوام سے بالاتر ہو کر امن کے لیے کام کیا جائے۔“