نئے الیکشن کی تیاریاں
ملک کے بااختیار افراد، عوام کی طرح اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں عمران خان کی حکومت اسی حال میں مزید چلانا سٹیک ہولڈروں کے لیے بھی سنگین مسائل کا سبب بن سکتا ہے۔نیا پاکستان پلان کے تحت جس بڑے ایجنڈے پر عمل درآمد کرانا ہے اس کی راہ میں بھی کئی رکاوٹیں آرہی ہیں۔ سو یہ طے کیا گیا ہے کہ قبل از وقت عام انتخابات کراکے عمران خان کو“ فریش مینڈیٹ“ دلوا کر پھر سے اقتدار میں لایا جائے۔ یہ سوچا جارہا ہے کہ ایسا کرنے سے نہ صرف موجودہ سیاسی نظام کو اگلے چند سال تک آسانی سے برقرار رکھنا ممکن ہو گا بلکہ کئی سلگتے ہوئے ایشوز اور چیلنجوں کے بارے میں بھی شور و غوغا اور اعتراضات کرنے والی آوازوں میں پہلے جیسا دم نہیں رہے گا۔ یہ تو کوئی راز نہیں کہ پی ٹی آئی کے نام پر سول حکومت بنانے والوں نے الیکشن 2018 سے بھی پہلے کہہ دیا تھا کہ یہ ہائبرڈ نظام اگلے دس سال کے لیے ہوگا۔ اسی لیے پی ٹی آئی کے وزرا کھلے عام کہتے پھرتے ہیں کہ 2023ء میں بھی ”کامیاب“ ہوکر عمران اینڈ کمپنی ہی حکومت بنائے گی۔ ظاہر ہے ایسا توڑ جوڑ اور زور کے ذریعے ہی ممکن ہوگا۔ سو پچھلے چند ماہ سے اس کی تیاریاں شروع کی جاچکی ہیں۔سب سے پہلے تو ضمنی انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن کو حکم دیا گیا کہ بغیر اجازت دھاندلی نہ کرائی جائے۔ اس کے نتیجے میں پنجاب اور کے پی کے میں ن لیگ کو کامیابیاں ملیں۔ خصوصاََ ڈسکہ کے ضمنی الیکشن کے حوالے سے جو ڈرامہ لگا اس سے یہ تاثر دیا گیا کہ سیاست اور الیکشن کنٹرول کرنے والی اصل طاقتیتں غیر جانبدار ہوچکی ہیں۔ سندھ کی چند نشتوں پر ضمنی الیکشن کے حوالے سے پیپلز پارٹی کو فری ہینڈ دے کر وہاں بھی شفاف انتخابات کا ڈھول پیٹا گیا۔ ایسا نہیں کہ اپوزیشن جماعتیں اس چال سے واقف نہیں۔
کچھ عرصہ قبل سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ الیکشن کمیشن جو کچھ بھی کر رہا ہے، ہدایات کے عین مطابق کررہا ہے۔ خدشہ مگر یہی ہے کہ جو سیاسی صورتحال اب چل رہی ہے اپوزیشن جماعتوں کی اس حوالے سے فی الحال زیادہ تیاری نہیں۔ حکومت بلکہ اس کے سرپرست جو منصوبہ بندی کر رہے ہیں وہ یقیناً 2018 جیسی ہی ہوگی۔ چند نئی چیزیں شامل کرکے کہا جائے گا کہ ان اقدامات کے بعد دھاندلی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔ سو کوشش کی جائے گی کہ تازہ انتخابات کے ذریعے اپوزیشن جماعتوں کے الیکشن 2018ء کے بارے میں الزامات کو مکمل طور پر بے بنیاد قرار دیا جائے۔ یہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں اور سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے بارے میں آرڈیننس اسی پلاننگ کا حصہ ہیں۔ پس پردہ قوتوں کے اشارے پر پی ٹی آئی کے وزیر، مشیر، سپیکر اور صدر مملکت تک انتخابی اصلاحات کا راگ الاپ رہے ہیں۔کنٹرولڈ میڈیا کے ذریعے یہ پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے کہ آزادانہ، منصفانہ، اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے انعقاد کے لیے فْول پروف نظام بنا لیا گیا مگر اپوزیشن جماعتیں اس پر بات چیت کے لیے تیار نہیں۔ لگتا ہے کہ منصوبہ ساز اس حوالے سے سیاسی جماعتوں کو بات چیت پر آمادہ کرنے کی کو ششیں کر رہے ہیں۔ ضمانت سے قبل جیل میں شہباز شریف سے ایک بڑے افسر کی ملاقات کو خفیہ رکھنے پر زیادہ زور نہیں دیا گیا۔
یقینی طور یہ ملاقات صرف یہ بتانے کے لیے نہیں تھی کہ آپ کو رہا کیا جارہا ہے بلکہ اس میں ایک پیکیج زیر بحث آیا ہوگا۔ شہباز شریف اس پر رائے لینے کے لیے لندن نہیں جا سکے۔یہاں یہ غلط فہمی بھی دور کرلی جائے کہ انہیں باہر جانے سے روکنے میں حکومت کا ہاتھ ہے۔ اصل میں وہ اپنے اور اپنے گھر والوں کے خلاف انتقامی کارروائیوں کے حوالے سے جذباتی ہوگئے تھے۔ ایک روز پہلے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے سی پیک کو منجمد کرنے کی بات کر ڈالی جو کہیں بہت ناگوار گزری اور اسے براہ راست حملہ تصور کیا گیا۔ چنانچہ شہباز شریف کو زچ کرنے کے لیے انہیں عین روانگی کے موقع پر روک دیا گیا۔ بہر حال وہ جلد باہر چلے جائیں گے۔ لیکن اس حرکت سے اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں بالخصوص پی ڈی ایم کو جان لینا چاہئے کہ اسٹبلشمنٹ کے نزدیک ان کی حیثیت کیا ہے۔ باور کیا جاتا ہے کہ شہباز شریف نے حالیہ دورہ اسلام آباد کے دوران مولانا فضل الرحمن سے اس لیے ملاقات نہیں کی تھی کہ کہیں مقتدر حلقے برا نہ مان جائیں۔یہ افسوس ناک طرز عمل ہے۔
ابھی چند ماہ پہلے تک جب پی ڈی ایم کی تحریک اور بیانیہ جاری تھا تو ہر طرف تھرتھلی مچی ہوئی تھی۔خیر ن لیگ کا فیصلہ جو بھی ہو پیپلز پارٹی اچھا بچہ بن کر ساتھ چلے گی۔ پیپلز پارٹی جتنی مرضی پینگیں بڑھا لے اسے موجودہ پوزیشن سے زیادہ نہیں ملنے والا۔ یہ بھی ممکن ہے جو اب پاس ہے وہ بھی نہ رہے۔ یہ چیز نوٹ کی جارہی ہے کہ پی ڈی ایم سے نکلنے کے بعد آصف زرداری اور بلاول کی سیاست محدود ہوتی جارہی ہے۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ کو یہ احساس ہورہا ہے کہ پی ڈی ایم سے نکلنے کا فیصلہ فائدے سے زیادہ نقصان کا سبب بن سکتا ہے۔ اس لیے واپسی کے امکانات کا جائزہ لینا شروع کردیا گیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن اس حوالے سے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ اگرچہ انہیں یہ گلہ ہے جب انہوں نے گیند گول پوسٹ کے سامنے پہنچا دی تھی ان کے حلیف جان بوجھ کر فاؤل کرکے کھیل کے میدان سے ہی نکل گئے تھے۔ بہر حال نئے انتخابات کے مجوزہ پلان کے حوالے اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد بہت ضروری ہے۔اگر کسی وجہ سے ایسا ممکن نہ ہواتب بھی حالات کنٹرول نہیں ہونگے۔ مگر یہ نقشہ پہلے سے گرد اب میں پھنسے ملک کے لیے بے حد نقصان دہ ہوگا۔ بہر حال منصوبہ ساز اپنے کام پر لگے ہوئے ہیں۔ بے تحاشہ اختلافات اور وعدہ خلافیوں کے باوجود تمام اتحادی جماعتوں اور گروپوں کو حکومت کے ساتھ جوڑ کر رکھا گیا ہے۔کالعدم تحریک لبیک کو تیار کیا جارہا ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے ساتھ انتخابی اتحاد قائم کرے۔
تمام ادار ے حکومت کے پیچھے کھڑے ہیں اور نئے الیکشن کے لیے فضا سازگار بنائی جارہی ہے۔ اپوزیشن تقسیم ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ پہلے کی طرح ٹریپ میں آتی ہے یا نہیں۔ اگر ن لیگ کو مساوی مواقع دئیے بغیر بعض شرائط کے ساتھ الیکشن لڑنے کی اجازت دی جاتی ہے تو اس کا ایک ہی مطلب ہوگا کہ شہباز شریف کا موقف پھر سے پٹ گیا۔مکرر عرض ہے کہ موجودہ سیاسی نظام کو بڑا ایجنڈا پورا کرنا ہے۔ اور اسے عالمی اسٹبلشمنٹ کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے حالیہ دورہ سعودی عرب کے دوران مفاہمت کی یادداشتوں کے علاوہ جو ایک ہی اہم بات ہوئی ہے وہ یہ ہے پاکستان اور بھارت آپس میں بات چیت کرکے مسئلہ کشمیر حل کریں۔ مذاکرات پہلے ہی سے جاری ہیں اور مسئلہ جس طرح سے حل ہونا ممکن تھا وہ ہو چکا ہے۔ جو حلقے یہ کہہ رہے ہیں سعودی عرب ہم پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے دباو ڈال رہا ہے تو ان کی خدمت میں اتنا ہی عرض ہے کہ جب کشمیر کا مسئلہ باقی نہیں رہا تو اسرئیل کے معاملے کی حیثیت ہی کیا ہے؟