کنول نصیر، حسینہ معین دُنیا چھوڑ گئیں
پاکستانی میڈیا انڈسٹری کے لئے گزشتہ ہفتہ بہت بھاری رہا کیونکہ ملک کی دو معروف شخصیات یکے بعد دیگرے انتقال کرگئیں جن کی اپنے اپنے شعبوں میں ناقابل فراموش خدمات ہیں۔ جمعرات کی شب یہ خبر آئی کہ کنول نصیر انتقال کرگئیں ہیں۔ابھی لوگ اسی خبر کا صدمہ برداشت نہیں کر پائے تھے کہ جمعتہ المبارک کی صبح ایک اور المناک خبر آئی کہ حسینہ معین بھی دنیا سے کوچ کرگئیں ہیں۔
کنول نصیر معروف براڈ کاسٹر موہنی حمید (آپا شمیم) کی بیٹی تھیں اور انھیں پانچ دہائیوں تک پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو کے لیے بطور براڈکاسٹر کام کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے ڈراموں میں بھی کام کیا۔کنول نصیر نے 26 نومبر 1964 کو پی ٹی وی کے قیام کے وقت پہلی اناؤنسمنٹ کی تھی۔ انھوں نے 17 سال کی عمر سے ٹی وی پر کام کرنا شروع کیا، ٹی وی ڈرامے کی پہلی ہیروئن بھی کنول نصیر تھیں۔ٹی وی سکرین پر پہلی بار ’میرا نام کنول نصیر ہے۔ آج پاکستان میں ٹیلی ویژن آ گیا ہے۔ آپ کو مبارک ہو‘ کے الفاظ بھی ادا کیے۔کنول نصیر ریڈیو اور ٹی وی سے 5 دہائیوں سے زائد عرصہ وابستہ رہیں۔ کنول نصیر نے پاکستان ٹیلی ویژن کے پہلے ڈرامہ ”نذرانہ“میں محمد قوی خان کے مقابل کام کیا تھا۔
کنول نصیر کچھ عرصے سے شوگرکے مرض میں مبتلا تھیں اور انہیں چند دن قبل ہی ہسپتال منتقل کیا گیا تھا، جہاں وہ خالق حقیقی سے جا ملیں۔کنول نصیر نے سوگواران میں ایک بیٹا اور تین بیٹیاں چھوڑی ہیں۔
کنول نصیر کی اگر بات کریں تو آواز کی دنیا میں وہ اس وقت جلوہ گر ہوئیں جب خواتین کا اس طرف آنے کارجحان بہت کم تھا بلکہ اس فیلڈمیں خواتین کا آنا ہی معیوب سمجھا جاتا تھا مگر موہنی حمید کی صاحبزادی جنہیں ورثہ میں خوبصورت آوازاور فن کی میراث ملی تھی اور پھر جس طرح سے کنول نصیر نے اپنی صلاحیتوں کو اس میدان میں اجاگرکیا اس کا ہر کوئی معترف تھا۔ ایک اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ کنول نصیر اور طارق عزیز اس زمانے میں نشریات کی دنیا میں آئے جب ابھی پاکستان میں ٹیلی وژن نے آنکھ نہیں کھولی تھی مگر اس کے باوجود ان دونوں فنکاروں نے جس طرح سے حرف و صوت کی دنیا میں اپنے فن کی دھاک بٹھائی اور دیکھتے ہی دیکھتے اپنی اپنی خوبصورت آوازوں سے کروڑوں ہم وطنوں کو اپنے گرویدہ بنا لیا ایسی عزت،شہرت اور مقبولیت بہت کم خوش نصیبوں کے حصے میں آیا کرتی ہے۔
زمانہ طالب علمی سے لکھنے والی حسینہ معین جو عورتوں کو سکرین پہ جہاں نازک چنچل شوخ دکھاتیں وہیں یہ بھی دکھاتیں کہ عورتیں بہت ہی مضبوط اعصاب کی مالک ہوتی ہیں اور کسی بھی مشکل سے تنہا ہی نمٹ لیتی ہیں۔حسینہ آج کل کے ڈراموں میں دکھائے جانے والے عورت کے کردار سے بالکل بھی مطمئن نہیں تھیں و ہ اکثر کہا کرتی تھیں کہ اب ڈرامہ نہیں لکھا جا رہا بلکہ ٹھیکے پہ کام ہو رہا ہے۔ حسینہ اتر پردیشن کے شہر کان پور میں پیدا ہوئیں ابتدائی تعلیم گھر میں حاصل کی اور تقسیم ہند کے بعد ان کا گھرانہ پہلے راولپنڈی اور پھر لاہور منتقل ہوا۔ان کے لکھنے لکھانے کا سلسلہ زمانہ طالب علمی میں ہوا،وال پیپر میگزین کے لئے لکھا کرتی تھیں ان کے علاوہ ان کی بڑی بہن کو بھی لکھنے کا شوق تھا لیکن شادی کے بعد وہ اس شوق کو جاری نہ رکھ سکیں لیکن حسینہ معین لکھتی رہیں۔جب وہ کالج میں پڑھ رہیں تھیں تو ریڈیو سے آغا ناصر نے کالج سے کچھ ڈرامے مانگے ان کی اردو کی استاد نے حسینہ سے کہا کہ تم ڈرامہ لکھ کرانہیں بھیج دو حسینہ نے اپنی استاد کو کہا کہ انہیں تو ڈرامہ لکھنا آتا ہی نہیں تو استاد نے کہا کہ تم لکھ سکتی ہو بس جو ذہن میں آتا ہے۔ پیپر پہ اتارتی جاو، یوں ”پٹڑیاں“ کے نام سے ریڈیو کے لئے ایک ڈرامہ تیار کر لیا اس ڈرامے کو بے حد پذیرائی ملی بلکہ ریڈیو کی طرف سے ایوارڈ بھی ملا اس کے بعد آغا ناصر نے باقاعدہ ایک خط حسینہ کو بھیجا کے تم سٹوڈیو نائن کے لئے لکھا کرو اور اُن دنوں میں سٹوڈیو نائن کے لئے لکھنا کسی بھی نئے لکھنے والے کے لئے کسی اعزا ز سے کم نہ تھا اور حسینہ آغا ناصر کے اس خط کو کسی اعزاز سے کم نہ گردانتی تھیں۔ تاریخ میں ماسٹر کرنے والی حسینہ معین کو 1969 میں ٹی وی کے لئے لکھنے کی پیشکش ہوئی اور یہ پیشکش جی ایم کراچی کی طرف سے ہوئی انہوں نے حسینہ معین سے کہا کہ ریڈیو ڈرامہ”بھول بھلیاں“ کو ٹی وی کے لئے بنا دیں انہوں نے لکھا ڈرامہ ہٹ ہو ااس کے بعد 1971میں عید کے لئے کامیڈی پلے لکھا جس کو ملک گیر شہرت حاصل ہوئی اس کے بعد حسینہ معین نے مڑ کر نہیں دیکھا۔
حسینہ کو ناول اور کتابوں سے کہانیاں لیکر ان کو سکرپٹ کی شکل دینا زیادہ پسند نہیں تھا اس لئے انہوں نے اوریجنل کہانی کا تصور متعارف کروایااور پہلی کوشش ڈرامہ سریل کرن کہانی کی صورت میں کی جسے بہت پسند کیا گیا۔ انہوں نے جو ڈرامے لکھے ان میں پرچھائیاں، دھوپ کنارے، انکل عرفی، تنہائیاں، پل دو پل، دھند، بندش، تیرے آجانے سے، شہ زوری، کرن کہانی، زیر زبر پیش، آن کہی، آہٹ، پڑوسی، کسک، نیا رشتہ، جانے انجانے، آنسو، شاید کے بہار آجائے،آئینہ،چھوٹی سی کہانی،میری بہن مایا،تم سے مل کراور دیگر قابل ذکر ہیں۔حسینہ معین قرۃ العین حیدر،عصمت چغتائی، اشفاق احمد اور کرشن چندر جیسے لکھاریوں کو پسند کرتی تھیں۔انہوں نے فلم کہیں پیار نہ ہوجائے کی کہانی کے علاوہ کئی فلموں کے مکالمے بھی تحریر کئے۔بھارتی فلمساز راج کپور کی فرمائش پر فلم حنا کے مکالمے بھی لکھے۔ راج کپور تین سال تک حسینہ معین کو مناتے رہے آخر کار انہوں نے حامی بھر ہی لی تھی فلم کی ریلیز کے عین موقع پر بابری مسجد کی شہادت کا واقعہ رونما ہوگیا جس کے بعد حسینہ نے راج کپور کے بیٹے رندھیر کپور کو ایک خط لکھا اور کہا کہ میرے ملک نے مجھے بہت عزت دی ہے لہذا میں ایسا کچھ نہیں کرنا چاہتی جو اس وقت مسلمانوں کے زخموں پرنمک کا کام کرے آپ میرا نام نکال دیں۔ حسینہ معین اپنے دور کی واحد ڈرامہ رائٹر ہیں جن کا لکھا ہوا ڈرامہ دور درشن پر چلا۔
حسینہ معین آج کے ڈراموں میں عورت کے دکھائے جانے والے امیج پر نالاں تھیں وہ کہتی تھیں کہ عورت کو کمزور دکھایا جا رہا ہے روتی پیٹتی مار کھاتی ہر بات پہ قربانی دیتی عورت اس معاشرے کی عکاسی نہیں ہے ہماری عورت بہت بہادر ہے وہ ایسی تو کمزور نہیں جیسی ڈراموں میں دکھائی جا رہی ہے۔حسینہ معین نے شادی نہیں کی تھی اس حوالے سے ان سے جب بھی سوال ہوتا تو وہ کہتی تھیں کہ کیرئیر کی مصروفیت اور بہن کی بھائیوں کی ذمہ داریوں میں اس قدر مگن رہی کے کب شادی کا وقت ہاتھ سے نکل گیاپتہ ہی نہیں چلا لیکن مجھے کوئی افسوس یا پچھتاوا نہیں۔
حسینہ خود تو چلی گئیں ہیں لیکن ان کے تحریر کردہ سبق آموز ڈرامے ہمیشہ انکے پرستاروں کے دِلوں میں انکی یاد کو زندہ رکھیں گے۔
٭٭٭
شوبز انڈسٹری کے لئے دو صدمات