راچڈیل کے ’ایدھی ‘حاجی مختار احمد انتقال کر گئے
مانچسٹر کے علاقہ راچڈیل کے مجسٹریٹ امتیاز احمد کے والد حاجی مختار احمد جنہیں حقیقی معنوں میں راچڈیل اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کا ’ایدھی‘ قرار دیا جاتا تھا رمضان المبارک میں وفات پا گئے ہیں۔۔۔ انکی نماز جنازہ میں پورا ٹوبہ ٹیک سنگھ امڈ آیاجبکہ انہیں انکے آبائی قبرستان واقع گاؤں ڈھوڈیاں 154گ ب ٹوبہ ٹیک سنگھ میں سپردخاک کر دیا گیا ۔۔۔لواحقین میں حاجی مختار احمدکے پانچ بیٹے شامل ہیں۔۔۔ ہرشخص ایسے دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا جیسے اسکا حقیقی والد ‘بھائی دنیا سے رخصت ہو گیا ہو ۔۔۔ایسا کیوں نہ ہوتا حاجی مختار احمد جو میاں رحمت اللہ کے صاحبزادے تھے نے اپنی تمام تر دولت جس کا شمار نہیں غریبوں کی فلاح و بہبود کیلئے وقف کر رکھی تھی۔۔۔
یہ وہی حاجی مختار احمد ہے جو 1960ٗءکے عشرے میں بسلسلہ روزگار صرف پانچ پاؤنڈ جیب میں ڈال کر برطانیہ پہنچے۔۔۔۔ راچڈیل کی کپڑے کی ایک مل میں بطور لیبر کام شروع کیا اور اسی پانچ پاؤنڈ سے انہوں نے اپنا گزارا اور مکان کا کرایہ بھی اد اکیا۔۔۔ بعض اوقات فاقہ کشی کی بھی نوبت آئی مگر انہوں نے ہر چیز برداشت کی مگر کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلایا ۔۔۔پھر ایک ایسا وقت بھی آیا کہ پانچ پاؤنڈ لیکر پاکستان سے ہزاروں میل دور کام کاج کی غرض سے جانے والے حاجی مختار احمد نے اس قدر محنت کی کہ وہ اسی فیکٹری میں سپروائزر منتخب ہوئے اور اپنے خون پسینہ کی کمائی سے اپنے علاقہ ڈھوڈھیاں ‘154گ ب ٹوبہ ٹیک سنگھ میں زمین کے کاروبار سے منسلک ہو گئے۔۔۔
راچڈیل کے مجسٹریٹ امتیاز احمد جو شرافت دیانتداری اور دوستی کے حوالے سے اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے کے والد محترم کی وفات کی خبر ان پر قیامت بن کر ٹوٹی اور وہ انتہائی عجلت میں پاکستان پہنچ گئے۔۔۔ آج بھی وہ اپنے والد مرحوم کے بستر پر سونے کو ترجیح دیتے ہیں ۔۔۔حقیقی معنوں میں حاجی مختار احمد کے جانشین کا نام امتیا زاحمد آف راچڈیل ہے۔۔۔ان کے پانچوں بیٹے اپنے والد کی وفات اور جدائی کا غم کبھی بھی نہیں بھول سکیں گے بلکہ ایک دوسرے سے چھپ کر کبھی کسی کمرے کے کونے میں اور کبھی چھت پر چڑھ کر آنسو بہا کر دل کو تسکین دے لیا کریں گے۔۔۔ حاجی مختار احمد کی اہلیہ اور امتیاز احمد برادران کی والدہ تقریبا 22سال قبل 1999ٗمیں وفات پا گئیں مگر ان کے والد نے دوسری شادی نہ کی اور 22سال بعد وہ اپنی مرحومہ اہلیہ کی قبرکے ساتھ جہاں انہوں نے اپنے لیے قبر کی جگہ مختص کر رکھی تھی پرسکون ابدی زندگی گزارنا شروع کر دی ہے۔۔۔
دنیا میں باپ ایک سائبان شفقت ہے۔۔۔ جس کے سائے میں اولاد پروان چڑھتی ہے ۔۔۔باپ کے ہوتے ہوئے اولاد خود کو محفوظ سمجھتی ہے۔۔۔ باپ کے ہوتے ہوئے بیٹے بے فکری کی زندگی بسر کرتے ہیں۔۔۔۔ جیسے ہی باپ کا سایہ عافیت سر سے اٹھتا ہے تو فوراً ہی اولاد کو محسوس ہوتا ہے کہ اس کے سر پر کتنا بوجھ آن پڑا ہے۔۔۔باپ دنیا میں اللہ رب العزت کی عظیم نعمت ہے۔۔۔۔ انسان جو کچھ بھی ہے والد ہی کی وجہ سے ہے۔۔۔ والد اپنی اولاد کی پرورش کے لیے اپنی جان تک لڑادیتا ہے۔۔۔۔ وہ اپنی ساری زندگی اولاد کی راحت رسانی میں صرف کردیتا ہے۔۔۔۔ دنیا کی تمام نعمتیں اولاد کو لاکر دینے کی کوشش کرتا ہے، جس کے لیے اپنی خواہشات کو بھی دبا دیتا ہے۔۔۔۔ دنیا میں کوئی شخص کسی دوسرے کو خود سے آگے جاتا ہوا نہیں دیکھ سکتا، کسی دوسرے کو خود سے زیادہ ترقی کرتا ہوا دیکھ کر شاید ہی کوئی خوش ہو لیکن والد کی شخصیت ایسی ہے کہ وہ چاہتا ہے اس کی اولاد اس سے آگے بڑھے۔۔۔۔ وہ بچوں کو ترقی کرتا ہوا دیکھ کر پھولا نہیں سماتا۔۔۔۔ خود اپنے بچوں کے بہترین مستقبل کے لیے کوشش کرتا ہے، وہ چاہتا ہے کہ جو کام میں نہیں کرسکا میرے بچے کریں۔۔۔۔
والد ایک ایسا مقدس محافظ ہے جو ساری زندگی اولاد کی نگہبانی کرتا ہے۔۔۔۔اللہ رب العزت نے بھی والدین کی عظمت کا جابجا تذکرہ فرمایا ہے۔۔۔۔ ان کی عظمت بیان فرماتے ہوئے تلقین کی ہے کہ ان کا ہر حکم بجا لاؤ سوائے اس حکم کے جس میں اللہ کی نافرمانی ہو اور ان کے سامنے اف تک نہ کہو۔۔۔۔ ان کے سامنے عاجزی اختیار کرو۔۔۔۔ بڑھاپے میں ان کا خیال رکھو۔۔۔۔ ان کی خدمت کرکے اپنے لیے حصول جنت کا راستہ ہموار کرو۔۔۔۔ ایک مرتبہ حضرت جبریل علیہ السلام نے نبی کریم ﷺ کے سامنے یہ بددعا فرمائی کہ ہلاک ہوجائے وہ شخص جو اپنے والدین کو بڑھاپے کی حالت میں پائے اور ان کی خدمت کرکے جنت نہ حاصل کرسکے تو آپﷺ نے جواب میں فرمایا: آمین۔۔۔۔ اس سے معلوم ہوا کہ والدین کی خدمت نہ کرنا بالخصوص جب وہ بڑھاپے میں پہنچ جائیں کتنی بڑی بدنصیبی ہے۔۔۔۔ ایک موقع پر باپ کا مقام بیان کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”باپ جنت کے بیچ کا دروازہ ہے، اگر تو چاہے تو اس دروازے کی حفاظت کر یا اس کو ضائع کردے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”وہ شخص ذلیل و رسوا ہوا، وہ شخص ذلیل و رسوا ہوا، وہ شخص ذلیل و رسوا ہوا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی، یا رسول اللہﷺ کون؟ آپ ﷺ نے فرمایا جس نے اپنے ماں باپ میں سے دونوں یا کسی ایک کو بڑھاپے میں پایا اور پھر (ان کی خدمت کرکے) جنت میں داخلے کا حق دار نہ بن سکا۔
ایک صحابیؓ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ ﷺ میرا باپ میرا سارا مال خرچ کر دیتا ہے، آپ ﷺ نے ان کے والد کو بلایا۔ جب والد کو معلوم ہوا کہ ان کے بیٹے نے رسول اللہ ﷺ سے ان کی شکایت کی ہے تو انہیں بہت رنج ہوا۔۔۔ راستے میں چلتے ہوئے انہوں نے دل میں کچھ اشعار کہے۔ جب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ پہلے مجھے وہ اشعار سنایئے جو آپ نے راستے میں کہے ہیں۔۔۔ وہ مخلص صحابی تھے، سمجھ گئے کہ وہ اشعار جو ابھی تک میرے کانوں نے بھی نہیں سنے، وہ بھی اللہ تعالی نے سن لیے اور رسول اللہ ﷺ کو خبر بھی کردی ہے ۔۔۔۔ انہوں نے وہ اشعار سنانے شروع کیے۔۔۔جن کا خلاصہ کچھ یوں ہے: ”میں نے تجھے بچپن میں غذا دی اور تمہاری ہر ذمہ داری اٹھائی، تمہارا سب کچھ میری کمائی سے تھا۔۔۔۔ جب کسی رات تم بیمار ہوجاتے تو میں بیداری میں رات گزارا دیتا۔۔۔۔ میرا دل تمہاری ہلاکت سے ڈرتا رہا، حالانکہ میں جانتا تھا کہ موت کا ایک دن مقرر ہے۔۔۔۔ جب تو اس عمر کو پہنچ گیا تو پھر تم نے میرا بدلہ سخت روئی اور سخت گوئی سے دیا۔ جیسا کہ تم مجھ پر احسان و انعام کررہے ہو۔۔۔ کم از کم اتنا ہی حق مجھے دے دیتے جتنا ایک شریف پڑوسی دیتا ہے۔ ۔۔۔ کم از کم مجھے پڑوسی کا حق ہی دیا ہوتا“ جب رسول اللہ ﷺ نے یہ اشعار سنے تو بیٹے سے فرمایا کہ ”تو اور تیرا مال سب تیرے باپ کا ہے۔۔۔۔
اس سے معلوم ہوا کہ باپ کے دل سے نکلنے والی آہ کتنی جلدی عرش تک پہنچتی ہے، اس لیے والدین کے لیے راحت کا ذریعہ بننا چاہیے نہ کہ اذیت رسانی کا۔۔۔ ماں باپ کو ہمیشہ خوش رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے تا کہ ان کے دل سے دعائیں نکلیں۔۔۔۔ ماں باپ کی خدمت سے زندگی میں خوشحالی آتی ہے، رزق میں برکت ہوتی ہے، اولاد فرمانبردار ہوتی ہے، دعائیں اور عبادت اللہ رب العزت کی بارگاہ میں قبول ہوتی ہیں۔۔۔
اللہ تعالی کی خوشنودی باپ کی خوشنودی میں ہے اور اللہ تعالی کی ناراضی باپ کی ناراضی میں پوشیدہ ہے۔ اپنے بیوی بچوں کی طرح بلکہ ان سے بھی بڑھ کر اپنے ماں باپ کی ضروریات زندگی کا خیال رکھنا اولاد کے ذمہ فرض ہے۔۔۔۔ والدین کے سامنے اونچی آواز میں بات نہ کی جائے، ان کی ہر ضرورت کا خیال رکھا جائے، انہیں آرام و سکون پہنچانے کی کوشش کی جائے، ان کا ذکر اچھے الفاظ میں کیا جائے۔۔۔ کثرت سے والدین کے لیے یہ قرآنی دعا مانگی جائے ‘اے میرے پروردگار تو ان پر رحمت فرما، جیسا کہ انہوں نے مجھے بچپن میں پالا‘۔۔۔
امتیاز احمد کے والد محترم نے زندگی میں ایک دفعہ حج اور عمرے کی سعادت حاصل کی اور جہد مسلسل کی انمٹ داستان رقم کرتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوئے۔۔۔ جس شخص نے صرف پانچ پاؤنڈ جیب میں ڈال کر پردیس میں محنت مزدوری کی۔۔۔ پھر ایک ایسا وقت آیا کہ راچڈیل برطانیہ کی اکثریتی کپڑوں کی ملز کو خرید لیا اور برطانیہ کے لینڈ لارڈز افرا دمیں شمار ہونے لگے مگر انہیں ذرا بھی اپنی دولت کا تکبر نہ تھا۔۔۔ انکی اولاد آج بھی اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بے نوا اور بے سہارا لوگوں کی مدد کرتی نظر آتی ہے۔۔۔ پانچویں بھائی اپنے والد کے دوست احباب سے نہ صرف اس طرح پیار کرتے ہیں جس طرح وہ والد صاحب سے کرتے تھے بلکہ تارکین وطن سے بھی حاجی مختار احمد کے پانچوں بیٹوں کی محبت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔۔۔
راقم الحروف کو بھی ان کے ساتھ کچھ عرصہ گزارنے کا شرف حاصل ہوا ہے بلکہ میرے بیٹے ہارون نعیم مرزا نے بھی انکا ایک انٹر ویو کیا تھا ۔۔۔ حقیقی معنوں میں جتنا دکھ امتیاز احمد برادران ان کے عزیز واقارب اور اہل علاقہ کو ہے۔۔۔ اتنا ہی راچڈیل کے بچے بچے‘ بوڑھے اور جوان کو بھی ہے۔۔۔ امتیاز احمد شرافت و دیانت داری کے حوالے سے اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔۔۔پانچ وقت کی نماز روزہ کے پابند ہیں۔۔۔ دنیا کی دولت کو محض ایک کاغذی کرنسی قرار دیتے ہیں مگر کاغذی کرنسی ان پر اس قدر عاشق ہے جس طرح ان کے والد پر تھی ۔۔۔حاجی مختار احمد دنیا سے چلے گئے ۔۔۔ان کے عزیز واقارب حتی کہ ہم سب کو انہی کے پاس جانا ہے۔۔۔ ان کے درجات کی بلندی کیلئے بلاشبہ امتیاز احمد برادران کو بہت کچھ کرنا پڑیگا ۔۔۔پہلے بھی وہ اپنی والدہ مرحومہ کے لیے سالانہ برسی مناتے ہیں اور اپنی والدہ کی سہیلیوں کے لیے خصوصی عقیدت اور محبت رکھتے ہیں۔۔۔ خداوند کریم امتیاز احمد برادران سبھی کو صبر جمیل عطافرمائے اور حاجی مختار احمد کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطاکرے۔۔۔ رمضان المبارک میں وہ خالق حقیقی سے جا ملے۔۔۔ ہماری ان سطور میں یہی دعا ہے کہ حاجی مختار احمد کے بیٹوں کو خداوند کریم اس نازک موڑ پر اس طرح صبر عطافرمائے کہ ان کے ٹوٹے ہوئے دل اور آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسو رک جائیں۔۔۔۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔