گرفتاری اور ما بعد اثرات و حالات!

  گرفتاری اور ما بعد اثرات و حالات!
  گرفتاری اور ما بعد اثرات و حالات!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


کیا قانونی ہے اور کیا غیر قانونی میں اس بحث میں نہیں الجھنا چاہتا سابق وزیراعظم عمران خان گرفتار ہوئے اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کی حراست کو قانونی قرار دے دیا تحریک انصاف کے سیکریٹری جنرل اسد عمر نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ جانے کی بات کی یہ ان کا حق اور قانونی طریقہ بھی ہے کہ اس عدالت کی اپیل بڑی عدالت ہی سن سکتی ہے۔ میری نظر میں اس عمل کے سیاسی اور انتظامی پہلو ہیں، سابق وزیر اعلیٰ پنجاب اور تحریک انصاف کے مرکزی صدر چودھری پرویز الٰہی پرانے اور تجربہ کار سیاست دان ہیں انہوں نے منگل کے روز ہونے والے واقعات کے حوالے سے اپنی جماعت کو توڑ پھوڑ سے الگ کر لیا اور ایسی ہنگامہ آرائی کرنے والوں کو شرپسندقرار دے کر کہا ہے کہ یہ لوگ ہماری جماعت کو بدنام کرنا چاہتے ہیں ان سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ انہوں نے عمران خان کا ساتھ دینے کا پھر اعلان کیا اور کہا کہ یہ ان کا فرض ہے۔


تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری قومی اور بین الاقوامی میڈیا کی خبر بنی اور اس حراست کے خلاف ملک بھر میں مظاہرے ہوئے جو پرتشدد بھی تھے۔ اس سلسلے میں اگر میں لاہور کی مثال دوں تو حیرت ہوئی ہے کہ یہاں ہونے والے مظاہرے اچانک پرتشدد کیسے ہو گئے ہیں جب دفتر سے گھر کے لئے روانہ ہوا تو مجھے رکشا پر جانا پڑا کہ شہر میں ہنگاموں کی اطلاعات گردش کر رہی تھیں۔ ایسا ہوا بھی بعض مقامات پر ٹائر جلائے گئے۔ ڈنڈا برداری ہوئی اور پولیس پر پتھراؤ بھی کیا گیا۔ آج کی اطلاع ہے کہ زخمی ہونے والوں میں ڈی آئی جی (آپریشنز) شامل ہیں جن کی دائیں آنکھ پر پتھر لگا اور اس کا آپریشن ہوا ہے۔ ان کے علاوہ نگران وزیر صحت کے مطابق کئی دیگر اہل کار اور شہری بھی زیر علاج ہیں۔ دفتر سے جیل روڈ کے راستے نہر کی طرف جانے کی کوشش کی تو جیل روڈ کے پل سے دھرم پورہ والے پل تک ٹریفک بند تھی کہ زمان پارک والے ٹکڑے میں ہنگامے ہوئے تھے۔ مجبوراً گلبرگ روڈ کی طرف ہوئے تو دیکھا کہ تحریک انصاف کے کارکن ٹولیوں کی صورت میں نعرہ زنی کرتے ہوئے شیر پاؤں پل کی طرف جا رہے تھے جبکہ گلبرگ روڈ پر پارٹی پرچم لئے چند ٹولیاں پیدل بھی تھیں۔ راستے میں چوراہوں پر رکاوٹیں رکھے دو دو درجن کے قریب کارکن راستہ روکے کھڑے تھے اور جو تھوڑی ٹریفک تھی وہ دوسرے راستے اختیار کر رہی تھی بہرحال کلمہ چوک سے آگے کا راستہ بالکل صاف تھا اور گھر تک پہنچنے میں کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔


گزشتہ روز کے ان ہنگاموں ہی کی وجہ سے لوگ جلد گھروں کو چلے گئے اور دوکانیں بھی بند کی گئیں تاکہ توڑ پھوڑ سے بچا جا سکے اور آج بھی شہریوں نے احتیاط کی اگرچہ پورا شہر پر امن ہے اور ٹریفک بھی چل رہی ہے البتہ جیل روڈ سے دھرم پورہ پل تک ایک سڑک کو ٹریفک کے لئے بند کیا ہوا ہے یوں گرفتاری اور اس پر ردعمل سامنے آیا جبکہ مزید گرفتاریوں کی بھی اطلاعات ہیں۔ آج کی اطلاع یا خبر یہ ہے کہ پنجاب حکومت کی استدعا پر آرٹیکل 245 کے تحت فوج کی مدد بھی منظور کر لی گئی ہے اور امن و امان کو برقرار رکھنے کے لئے اب پولیس کے ساتھ رینجرز اور فوج بھی تعاون کرے گی، میں سمجھتا ہوں کہ یہ وجہ بھی منگل والے حالات کے باعث ہے کہ تحریک انصاف کے ایک وکیل صاحب نے سوشل میڈیا کے ذریعے مظاہرین کو لاہور کینٹ جانے کو کہا اور یہ گاڑیاں لے کر ادھر چل پڑے چنانچہ مال آف لاہور والا چوک بند ہو گیا اور چاروں طرف گاڑیوں کی قطاریں لگنے سے ٹریفک جام ہو گیا۔ تاہم یہاں کوئی ناخوشگوار صورت حال  تو پیدا نہ ہوئی لیکن لوگوں کو آمد و رفت میں جو مشکلات پیش آئیں اس سے تحریک انصاف کے لئے کوئی اچھا تاثر نہیں بنا۔


یہ صفحات گواہ ہیں کہ ہم نے مسلسل یہ عرض کیا کہ سیاست دان اور سیاسی جماعتیں تحمل اور برداشت سے کام لیں اور میز پر بیٹھ کر مسائل حل کر لیں لیکن بدقسمتی ہے کہ ایسا نہ ہوا دونوں فریق ایک دوسرے کو الزام دیتے ہیں اور صورت حال یہ ہے کہ قوم کو بھی تقسیم کر دیا ہوا ہے۔ ایسی سیاست میں نے اپنی پوری زندگی میں نہ دیکھی بڑے بڑے بحران آئے جو مفاہمت ہی کے ذریعے ٹل گئے دکھ کا مقام ہے کہ اس وقت ملک اور قوم جس بحران سے دو چار ہے اس کی فکر کئے بغیر محاذ آرائی تیز تر ہو رہی ہے اور اب عمران خان کی گرفتاری کے بعد اس میں اور شدت پیدا کی جا رہی ہے۔ پہلے ہی روز ایک محترم نے پورا ملک بند کرنے کی دھمکی دی اگرچہ ایسا نہ ہوا تاہم دوسری طرف ایک دو شہروں میں گرفتاری پر مٹھائی بانٹی اور خوشی منائی گئی میرے خیال میں یہ بھی نئی روایت ہے پنجاب میں تو یہ کہا جاتا ہے۔
”دشمن مرے تاں خوشی نہ کریئے، سجناں وی مر جانا“


واقعات تیزی سے رونما ہو رہے ہیں،انسداد دہشت گردی پولیس نے اسد عمر کو ہائی کورٹ سے گرفتار لیا،فواد چودھری بچ گئے کہ عدالت نے روک دیا تھا۔
اس وقت ملک میں امن و استحکام کی جتنی ضرورت ہے پہلے کبھی نہ تھی اب تو بلوم برگ اور ڈوڈی نے بھی کہہ دیا ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ نہ ہوا تو پاکستان جون کے بعد قرض کی قسط ادا نہ کر سکے گا کہ اب جو 3.5 ارب ادا کرنے ہیں اس کے بعد یہ ممکن نہ ہوگا اور یوں دیوالیہ ہونے کے مواقع بہت زیادہ ہیں۔ اگر ہم غور کریں تو عام فہم ذہن میں بھی یہ سمجھ آ جاتی ہے کہ یہ جو سب ہو رہا ہے اس کے پیچھے کوئی خاص مقصد ہے حکومت کے بقول آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری کی جا چکی ہیں اس کے باوجود سٹاف کی سطح والا معاہدہ نہیں ہو پا رہا اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ جان بوجھ کر بازو مروڑا جا رہا یا بقول وزیراعظم ناک سے لکیریں نکلوائی جا رہی ہیں یہ صورت حال انتہائی افسوس ناک ہے کہ بے روز گاری میں ہونے والا اضافہ اور بڑھنے کا خدشہ ہے جبکہ مہنگائی پر قابو نہیں گورننس پر بھی سوالیہ نشان ہے کیونکہ منافع خور کھل کھیل رہے ہیں اگر ٹماٹر 40 سے 50 روپے اور پیاز 70 روپے ہے تو اس کی وجہ کوئی انتظامی اثر نہیں کیونکہ دوسری سبزیاں، فروٹ اور اشیاء خورد و نوش بدستور مہنگی ہوتی چلی جا رہی ہیں عمران خان کی گرفتاری اور احتجاج کے نتیجے میں روپے کی قدر چار روپے 50 پیسے مزید گر گئی اور ڈالر مضبوط ہوا یہ سب غور کرنے کے لئے ہے۔

مزید :

رائے -کالم -