نونہالوں کو مصطفوی ؐ  کر دیں 

      نونہالوں کو مصطفوی ؐ  کر دیں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 وہ " میرا آئیڈیل " ہے۔ یہ شاید دنیا میں سب سے زیادہ پوچھا جانے والا " سوال و جواب " ہے۔ "آئیڈیلائزیشن" آب رواں کی مانند ایک پروسیس کا نام ہے، جس میں بلا کا تغیر و تبدل پایا جاتا ہے۔ اگر خوش قسمتی سے کوئی پروفیشنل "لالاری" یا "رنگ ریز" مل جائے تو ٹھیک، ورنہ یہ رنگ اترتا، چڑھتا رہتا ہے، ہر نقلی اور اصلی رنگ اپنی مخصوص مہک و خوشبو رکھتا ہے۔ کبھی کوئی فلمی ہیرو، ایکٹر، شاعر، لیڈر، سپاہی، کھلاڑی، دولت مند، آئیڈیل بن بیٹھتا ہے اور کبھی کوئی ریسلر، ڈاکٹر، استاد یا کوئی مذہبی پیشواء وغیرہ۔ یہاں ہمیں یہ محسوس ہو رہا ہے اور یہ مبنی برحقیقت بھی ہے کہ بچپن سے نوجوانی اور پھر بڑھاپے تک، ہمارا پسندیدہ کردار چینج ہو رہا ہوتاہے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ ہم متلاشی و خریدار جس "سودے" کے ہیں، وہ ہمیں ابھی ملا نہیں، جو خوش بختوں کو ہی نصیب سے میسر آتا ہے۔ سرکار دو عالم ؐ  کی ذات وہ یگانہ صفات ہستی ہے، جس کے رنگوں نے حیات انسانی کے داخلی و خارجی مراحل کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ آنکھ کھلنے سے آنکھ بند ہونے تک کے سفر میں، کسی دوسری طرف دیکھنے کی نہ کوئی ضرورت ہے، نہ وجہ ہے، اور نہ ہی آج تک کبھی ایسا ہوا ہے۔ 

انسانوں کی بھلائی کی خاطر، میں یہاں آپ سے دست بستہ عرض گزار ہونا چاہتا ہوں، اور یہ بات "پلے باندھ" لیں، سرکار دو عالم ؐ  کی حیات طیبہ کا ذکر مبارک ناگزیر ہے۔ بچوں میں، نوجوانوں میں، بوڑھوں میں، باتوں باتوں میں، گھر میں، دفتر میں، جیسی مجلس ہو اسی کے مطابق الفاظ و بیان کے چناؤ کے ساتھ، یہ فریضہ سر انجام دیں۔ 

تجربات سے پتہ چلتا ہے کہ انسان سب سے پہلے ذہن میں "خیال" لاتا ہے، پھر "سوچنے" کا عمل شروع ہوتا ہے، اس کے بعد "ارادہ"، پھر" نظریہ" اور "یقین و ایمان" اور پھر کہیں جا کر عمل وجود پاتا ہے۔ اگر اس سارے پروسیس کو سیرت کا "بابرکت تڑکہ" لگا دیا جائے تو زہے نصیب، یہی تو مقصود ہے۔ 

بچپن کے دن وہ "گولڈن پیریڈ" ہوتے ہیں، کہ جب ذہن کی سلیٹ صاف و شفاف، چٹی سپید اور ہموار ہوتی ہے، اس زمانے میں لکھی جانے والی تحریریں لوح محفوظ کی مانند "Saved" ہوتی ہیں۔ زمانہ منزلیں مار کر آگے بڑھ جاتا ہے، لیکن ابتدائی دور کی باتیں، تربیت، طریقے و سلیقے کہاں بھولتے ہیں، یہی تو انسان کی " باڈی لینگوئج" کہلاتی ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ابتدائی انسانی دور، "بچپن " بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے، سمجھداری کی بات یہی ہے کہ یہ دور محبوب خدا ؐ کی "سیرت طیبہ" کی روشنی میں آگے بڑھے، پروان چڑھے و خوب پھلے پھولے۔ 

حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے" کہ سرکار ؐ  کے پاس بچے لائے جاتے، آپ ؐ  ان کے لئے برکت کی دعا کرتے اور گھٹی دیتے" (مسلم شریف)۔

بچوں کی حوصلہ افزائی فرمانا، سلام میں پہل کرنا، کھانے میں شریک کرنا، سواری پر بٹھانا، گھل مل جانا، ساتھ کھیلنا، کبھی نہ جھڑکنا، سرکار دو عالم ؐ  کی روٹین تھی۔ 

دنیا کی تاریخ میں سرکار ؐ  ہی وہ نابغہء روزگارہستی ہیں، جنہوں نے بچوں کی تعلیم و تربیت و کردار سازی کی اہمیت و تلقین کی انتہاء کر دی، ذرا دیکھیں تو سہی، کہ جانی دشمنوں کو بھی اس بناء پر چھوڑ دیا گیا کہ وہ بچوں کو تعلیم فراہم کریں۔ ہم اپنے بچوں کو ضرور بہ ضرور سائنسی علوم و اصول، تکنیک، جدت اور ماڈرن لائف سٹائل دیں، لیکن ان کی Base اور ذہنی " سوفٹ ویئر" سیرت سرکار دو عالم ؐ  ٹھہرے، اس میں ہماری اور آنے والی نسلوں کی بقاء پوشیدہ ہے۔ تھوڑی دیر کے لئے ہم اپنی سوچ کو "پانچواں گیئر" لگاتے ہیں، کیونکہ بزرگوں کا قول ہے کہ "حرکت میں برکت ہے"، اور ہمارے اندر بھی ایک سپیشل گیئر ہے، جو آٹومیٹک کام کرتا ہے۔ 

ہم جانتے ہیں ناں، کہ بات وہی وزنی ہوتی ہے جو کسی کے عمل میں ہو، اور وہی نسخہ، نسخہ کیمیاء جو فعلی ہو، قولی نہ ہو۔ کبھی ہم نے غور کیا کہ سرکار دو عالم ؐ  کی "سیرت مبارک " کو دوسرے تمام افراد و اشخاص کی سوانح عمریوں پر، چاہے کوئی حکمران ہو، مصلح ہو، فاتح عالم ہو، حتی کہ پیغمبر ہو، فضیلت کیوں حاصل ہے؟  وجہ صرف اور صرف یہی ہے کہ سیرت کا مطلب ہی سو بٹا سو "پریکٹیکل" ہے، جبکہ سوانح عمریاں دراصل، قیاس آرائیاں، قیافے، قصے، غیر مصدق واقعات وغیرہ۔سرکار دو عالم ؐ کی سیرت ابتدائی دور سے ہی اپنے "فالورز" سے پریکٹیکل کی متقاضی رہی ہے، بلکہ ان صحبت یافتگان، خوش نصیبوں نے تو تاریخ کا دھارا ہی بدل ڈالا۔ وہ لوگ اپنے عمل سے کردار کے "استعارے و ستارے" ٹھہرے۔ 

بلا مبالغہ، صداقت، عدالت، سخاوت اور شجاعت ان کے علاوہ ہم کہاں سے سیکھ سکتے ہیں۔ 

مزید :

رائے -کالم -