9مئی سانحے کا ذمہ دار انتشاری ٹولہ اور قومی سلامتی
9مئی 2024ء گزر گیا۔ یہ ایک سیاہ دن تھا۔ سانحہ 2023ء کی یاد کا دن تھا۔ گزر گیا۔ میں اس سانحہ عظیم کے ایک پارٹ کا عینی شاہد ہوں۔ میں نے اس گھناؤنی سازش کے ایک اہم ایکٹ کو رونما ہوتے دیکھا۔جناح ہاؤس جو ہمارے بابائے قوم کے نام سے ہی منسوب نہیں ہے بلکہ ان کی جائیداد ہے جسے انہوں نے اپنی ذاتی کمائی سے خریدا تھا۔ جناح ہاؤس ہماری سرحدوں کے پاسبان، کور کمانڈر کی سرکاری رہائش گاہ تھی۔ یہ کسی سرکاری دفتر کے بابو یا بابے کی رہائش گاہ نہیں بلکہ دشمن پر لرزہ طاری کرنے والے ہمارے بہادر سپوتوں کے سربراہ کور کمانڈر کا سرکاری گھر تھا۔ہمارے ملک کی حفاظت کرنے والے، دشمنوں کو کھٹکنے والے فوجی سربراہ کا گھر تھا۔ ہماری طاقت و عظمت کا ریاستی نشان جسے 9 مئی 2023ء کو نشانہ بنایا گیا۔ ایک طے شدہ منصوبے کے مطابق اسے ذلیل و خوار کیا گیا، اس پر حملہ آور ہوا گیا،اسے نذر آتش کر دیا گیا،اسے جلا کر راکھ بنا دیا گیا۔ اس پر ایسے حملہ کیا گیا جیسے یہ کسی دشمن کی رہائش گاہ ہو، اس پر ایسے دھاوا بولا گیا جیسے کسی دشمن کی پوسٹ کو فتح کیا جا رہا ہو۔ میں نے اوّل تا آخر اس سانحہ عظیم کو دیکھا۔ ایک صحافی کے طور پر، ایک پاکستانی کے طور پر، ایک شہری کے طور پر،چار ساڑھے چار گھنٹوں تک جاری اس ڈرامہ گری کو دیکھا۔ کور کمانڈر ہاؤس کے مین گیٹ والے چوک میں سٹیج لگایا گیا تھا۔ اشرار گرجا چوک کی طرف سے، صدر گول چکر والی روڈ کی طرف سے، راحت بیکری کی طرف سے بڑے منظم انداز میں آگے بڑھتے دیکھے،گروہ درگروہ آنے والوں میں ٹین ایجر نوجوان لڑکے لڑکیوں سمیت، جوان اور ادھیڑ عمر انکلز اور آنٹیاں بھی شامل دیکھیں۔ دیندار قسم کی برقع پوش لڑکیاں اور آنٹیاں بھی مصروفِ کار دیکھیں۔ کئی خاندان بھی دیکھے جن میں امی، ابو، دادا، دادی اور بیٹے بیٹیاں وغیرہ بھی شامل تھے، وہ ایک طے کردہ منظم انداز میں متحرک تھے۔اس وقت شدید گرمی تھی۔ ٹھنڈے پانی کی بوتلیں بھی وافر مقدار میں جلوس کے ساتھ ساتھ لائی جا رہی تھیں۔ نوجوان بڑے منظم انداز میں پانی تقسیم کرتے نظر آئے۔
میں شرکاء کے ساتھ چل پھر کر گفتگو کررہا تھا۔ میں انہیں حلیے سے ان کا ہم خیال نظر آ رہا تھا۔ دراصل میں ایک نجی ٹی وی چینل پر اپنا ہفتہ وار ٹاک شو ریکارڈ کرانے کے بعد اپنے گھر عسکری 9واپس جا رہا تھا کہ ان لوگوں سے مڈ بھیڑ ہو گئی،کیونکہ میں ریکارڈنگ کراکے آ رہا تھا اس لئے لباس ذرا انکلز والا بھی تھا،انہیں لگا کر میں بھی ان کا ہم جماعت ہوں اس لئے وہ مجھ سے انتہائی شفقت سے،کھل کھلا کر گفتگو کرتے رہے۔ برقع پوش خواتین کو دیکھ کر لگتا تھا کہ یہ باپردہ بچیاں اور خواتین تحریکی نہیں ہیں، جماعت ِاسلامی کی خواتین ہیں اور نوجوانوں کو مصروفِ کار دیکھ کر لگتا تھاکہ یہ نوجوان شاید جمعیت کے نوجوان ہیں جو اس قدر تحریکی جذبے کے ساتھ شرکاء جلوس کی معاونت اور رہنمائی کر رہے ہیں۔ ان کی آنیاں جانیاں دیکھ کر لگ رہا تھا کہ یہ سب بڑے مشنری جذبات کے ساتھ کسی عظیم مشن کی تکمیل کے لئے سرگرمِ عمل ہیں۔ ویسے عمران خان کے شیدائی، انصافی یوتھیے جب یہ کہتے ہیں کہ ”خان نہیں تو پاکستان نہیں“ تو ان کے اس مشن کی حرکیات سمجھنے میں مشکل پیش نہیں آتی۔ عمران خان ایک فتنہ ہے، داعش کے ابوبکر البغدادی کی طرح فتنہ عظیم ہے جو عربوں میں جنگ و جدل اور قتل و غارت گری کے لئے امریکی سی آئی اے نے تخلیق کیا،بالکل اسی طرح عمران خان ایک فتنہ ہے، جسے یہود نے تخلیق کیا ہے۔ عمران خان اور اس کی تحریک انصاف کے بارے میں یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہو چکی ہے کہ یہ فتنہ عظیم ہے جو پاکستان کو تباہ و برباد کرنے کے لئے میدانِ عمل میں اتارا گیا ہے۔ پاکستان کو کمزور کرنے کے لئے ففتھ جنریشن وار دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے جاری ہے جس کے ذریعے نوجوانوں کی ذہن سازی کی جا رہی ہے اور سوشل میڈیا کے ذریعے مملکت کے تمام شعبوں کو افراتفری کا شکار کر دیا گیا ہے۔ اب دشمنوں کا اصل ہدف پاکستان کی مسلح افواج ہیں، کیونکہ ہمارے ہاں اب یہی ایک ادارہ بچا ہوا ہے جو مملکت کی فکری، نظری اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت میں کلیدی کردار ادا کرتا رہا ہے۔ دشمن کو پتہ ہے کہ جب تک یہ ادارہ قائم ہے،مضبوط ہے، مؤثر ہے اس وقت تک پاکستان کو کمزور نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان کو ہندوستان کی سپرمیسی ماننے پر آمادہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔
خطے میں بھارت کی چودھراہٹ قائم نہیں ہو سکتی۔ چین کے بڑھتے ہوئے اثرات کو روکا نہیں جا سکتا ہے۔ باقی جہاں تک سیاسی اداروں اور دیگر ریاستی اداروں کا تعلق ہے انہیں زیرِ شکار لانا کچھ زیادہ مشکل نہیں۔ عمرانی فتنہ ان اداروں تک سرایت کر چکا ہے۔ معاشرے میں انتشار اور افتراق کے صرف بیج ہی نہیں بوئے گئے ہیں بلکہ وہ اب تناور درخت بن چکے ہیں۔ آخری ہدف کے طور پر فوج کو نشانے پر لیا جا چکا ہے،9مئی 2023ء اسی سازش کی حکمت ِعملی کا نتیجہ تھی اور یہ حکمت ِعملی ابھی تک بروئے کار اور بروئے عمل ہے۔ عمران خان ابھی تک ایک بپھرے ہوئے، شکست خوردہ رہنما کے طور پر جھوٹ در جھوٹ کے سہارے اپنے عقیدت مندوں کو یقین دلا رہا ہے کہ اس کے مقابل فوج کمزور ہو چکی ہے اور وہ وقت دُور نہیں ہے جب وہ ایک بار پھر اقتدار میں ہوگا۔ ویسے9مئی 2023ء سے 9مئی 2024ء تک جو کچھ کیا گیا ہے اس سے عمرانی سازشی حرکیات کو طاقت ملی ہے۔ انتشاری ٹولہ دندناتا پھر رہا ہے، وہ ڈر خوف کی فضا سے باہر آ چکا ہے۔ سانحہ عظیم کی تپش کم ہو گئی ہے، اس کی حیثیت ایک عام احتجاجی مظاہرے کی نظر آنے لگی ہے جس میں کچھ لوگوں نے جذبات میں آکر توڑ پھوڑ کی تھی۔ یعنی یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ 9مئی سانحہ نہیں ایک احتجاجی مظاہرہ تھا جس نے تشدد کا رُخ اختیار کر لیاتھا۔ احتجاج مظاہرین کا حق تھا جسے انہوں نے استعمال کیا۔ باقی جو کچھ ہوا اس کی تحقیقات ہونی چاہیے۔ جوڈیشل کمیشن بننا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔ ایک سال کے دوران ہمارے حکمرانوں اور دیگر اداروں نے اس سانحے کے ذمہ داران کو کیفرِ کردار تک پہنچانے میں جس طرزِ عمل کا مظاہرہ کیا ہے اس سے تو عمرانی ٹولے کے بیانات درست لگتے ہیں۔اگر یہ سازش تھی اور اس کے ثبوت موجود ہیں تو پھر ذمہ داران کو کیفرِ کردار تک کیوں نہیں پہنچایا گیا؟اگر عمران خان اس سازش کا سرغنہ تھا تو اس پر قدغن کیوں نہیں لگائی گئی،اس کی پارٹی کو الیکشن لڑنے کی اجازت کیوں دی گئی؟ ابھی تک حتمی فیصلہ کیوں نہیں کیا جا سکا کہ عمرانی فتنے کے ساتھ کیا سلوک کیا جانا ہے؟وہ جیل میں کسی ڈان کی طرح زندگی گزار رہا ہے۔6کمروں پر مشتمل جیل میں اسے ہر سہولت میسر ہے۔اب تو پنکی پیرنی بھی جیل میں پہنچائی جا چکی ہے۔وہ جیل میں بیٹھ کر پارٹی چلا رہا ہے،افتراق و انتشار پھیلا رہا ہے،پاکستان کی مسلح افواج کے خلاف نہ صرف ہرزہ سرائی کررہا ہے بلکہ مضامین غیر ملکی اخبارات میں بھی چھپوا رہا ہے۔ ہماری ریاست کہاں ہے، ہماری حکومت کہاں ہے، ہماری عدلیہ کیا کررہی ہے۔ عمران خان اور اس کی جماعت اگر انتشاری ٹولہ ہے توسب کچھ ختم کیوں نہیں کر دیا جاتا ہے، اسے کیفرِ کردار تک کیوں نہیں پہنچایا جا رہا ہے؟ ذرا سوچیں۔