سہیل احمد: بڑا فنکار، بڑا آدمی

سہیل احمد: بڑا فنکار، بڑا آدمی
سہیل احمد: بڑا فنکار، بڑا آدمی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 نام ور اداکار سہیل احمد کو میں 90 کی دہائی کے ابتدائی برسوں سے جانتا ہوں۔میڈیا کی ثقافتی دنیا کے انسائیکلو پیڈیا طاہر سرور میر اور لیجنڈ آف ٹیلی ویژن محسن جعفر بھی میرے رفیق کار تھے۔ تب طاہر سرور میر فلم اور سٹیج کی رپورٹنگ کرتے تھے اور محسن جعفر ٹیلی ویژن کی خبریں دیا کرتے تھے۔ طاہر سرور میر اُن دنوں ایک نسبتاً نئے اداکار سہیل احمد کی خبریں بہت نمایاں انداز میں لگاتے تو مجھ سمیت کئی رفقائے کار اُسے دوست نوازی پر محمول کیا کرتے تھے۔جب ہم اُس پر اعتراض کرتے تو میر صاحب پنجابی میں کہتے:"  یار! آپ ایک بار اُس کا کام تو دیکھیں،پھر اعتراض کیجیے گا۔" چنانچہ دوسرے معترضین کی طرح ایک دن مجھے "محفل" تھیٹر جا کر وہ ڈرامہ دیکھنا پڑا جس میں سہیل احمد اور امان اللہ ایک ساتھ کام کر رہے تھے۔اُس ڈرامے میں سہیل احمد امان للہ کی ہر جگت کا ترکی بہ ترکی جواب دے رہے تھے۔جب امان اللہ سہیل احمد کی ایک جگت کے جواب میں خاموش ہوگئے تو سہیل احمد نے احتراماً اُن کے پاؤں چھوئے۔امان اللہ نے سہیل احمد کو گلے لگا لیا۔یہ منظر دیکھ کر مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ سہیل احمد جلد ایک بڑے فن کار اور بڑے آدمی کی صورت میں فن کے منظرنامے پر جلوہ افروز ہو گا اور آج یہ بات ثابت بھی ہو چکی ہے۔سہیل احمد کی ہر جگت نہایت شائستہ لیکن مزیدار تھی۔فحاشی مجھے اُن کی کسی جگت میں نظر آئی نہ دماغ میں۔وہ سٹیج پر موجود پرانے اداکاروں کو جگتیں لگاتے لیکن اُن کی عزت میں کمی نہ  آنے دیتے۔ اُن دِنوں سٹیج پر واہیات قسم کا رقص ہوا کرتا تھا۔سہیل احمد کے کئی مزید ڈرامے بعد میں بھی دیکھنے کا موقع ملا لیکن میں نے نہیں دیکھا کہ کبھی کوئی  وزنی رقاصہ بے وزن رقص کر رہی ہو اور  سہیل صاحب اُس کے پیچھے کھڑے ہوں،وہ چپکے سے بیک سٹیج کی طرف چلے جایا کرتے تھے۔

   سہیل احمد میری مشہور زمانہ (اور بعضوں کی نظر میں بدنام زمانہ) ناصر بشیر نیوز سروس کے رکن بھی تھے۔اُن دنوں میرے پاس ایک کم مشہور کمپنی کا ایک ایسا موبائل تھا جو ایک شارٹ میسیج ایک ہی وقت میں چار پانچ سو لوگوں کو بھیج دیا کرتا تھا۔میں نے اس سہولت کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔چنانچہ میں نے بیمار اور انتقال کر جانے والے ادیبوں کی خبریں ملک بھر کے ادیبوں کو پہنچانے کے لیے ناصر بشیر نیوز سروس شروع کر دی۔انتظارحسین، خواجہ محمد زکریا،عطاالحق قاسمی، مجیب الرحمن شامی، شعیب بن عزیز، مرتضیٰ برلاس، انور سدید، اصغر ندیم سید، مشکور حسین یاد، شہزاد احمد،تحسین فراقی،جنید اکرم، امجد اسلام امجد، خورشید رضوی، اظہر جاوید، ظفر اقبال، اعزاز احمد آذر اور افتخار مجاز جیسے بڑے لوگ بھی اُس کے رکن تھے۔سہیل صاحب کو جب بھی کسی بڑے آدمی کے انتقال کی خبر ملتی تو وہ جوابا" اناللہ واناالیہ راجعون ضرور لکھتے۔انہوں نے مجھے کبھی یہ نہیں کہا کہ اُن کا نام اِس سروس سے نکال دو۔یہ بات میں نے اس لیے کہی کہ دو چار نام نہاد اور مردم بیزار ادیب سیخ پا ہوئے  کہ انہیں یہ میسیج کیوں بھیجے جاتے ہیں؟سہیل احمد چونکہ علمی اور ادبی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور فن کاروں سے تعلق رکھنا چاہتے تھے۔ اِس لیے اس وقت تک میری اِس سروس کا حصہ رہے جب تک یہ جاری رہی۔انہی دنوں ایک دن اُن سے کہیں ملاقات ہوئی تو میں نے پوچھا کہ میرے میسیج آپ کو تنگ تو نہیں کرتے؟ بولے: " نہیں نہیں! دوسرے ادیبوں شاعروں کی طرح یہ سروس میرے لیے بھی بہت مفید ہے۔احباب کی خبریں ملتی رہتی ہیں۔مجھے تو بہت سے دوستوں کے غیرضروری میسیج بھی ملتے ہیں۔میں وہ بھی پڑھتا ہوں۔اُس کا حل یہی ہے کہ آپ صبح سویرے انہیں پڑھیے اور ڈیلیٹ کر دیجیے۔ سو میں بھی یہی کرتا ہوں۔ 

     سہیل احمد اخلاقی، تہذیبی اور معاشرتی اور ادبی روایات کی پاس داری کرنے والے آدمی ہیں۔وہ چھوٹے بڑے میں تمیز کرنا کرنا جانتے ہیں۔اُن کا ایک واقعہ مجھے میرے ایک دوست نے سنایا کہ ایک بار اُن کے بیٹے کی گاڑی کو ایک خاتون ڈرائیور نے ٹکر مار دی۔بیٹے نے سہیل صاحب کو فون پر واقعے کی اطلاع دی تو یہ جائے حادثہ پر پہنچے۔خاتون سے کہا کہ آپ تشریف لے جائیے اور بیٹے سے بولے: "بیٹا کسی خاتون سے اگر کبھی ایسی کوئی غلطی ہو بھی جائے تو آپ کبھی اُس سے جھگڑا مت کرنا۔" یہ بات کوئی خاندانی اور نجیب الطرفین شخص ہی کہ سکتا ہے۔

    آج بھی سہیل احمد اپنے پروگرام میں معاشرتی، سماجی، ادبی اور اخلاقی حدود و قیود کی پاس داری کرتے ہیں۔اُن کے منہ سے کبھی کسی نے کوئی ایسی بات نہیں سنی جس سے کسی کی دل آزاری ہوئی ہو۔اہلِ ادب کا کبھی مذاق نہیں اڑاتے۔میں بجا طور پر سمجھتا ہوں کہ آج ہمارے ثقافتی منظرنامے پر اتنا زیرک، بذلہ سنج، باشعور اور نکتہ تراش فن کار کوئی نہیں، جتنا سہیل احمد ہیں۔انہوں نے کامیڈی کرنے والوں کے لیے ایک ایسا معیار قائم قائم کر دیا ہے جس تک پہنچنا ہر آدمی کے بس کی بات نہیں۔

   پس تحریر:یہ سطریں لکھتے ہوئے اطلاع ملی کہ ان دنوں کینیڈا میں مقیم میرے، طاہر سرور میر اور محسن جعفر کے دیرینہ دوست اور 90 کی دہائی میں روزنامہ "پاکستان" سے بطور فوٹو جرنلسٹ وابستہ رہنے والے اشرف خان لودھی کی والدہ محترمہ چند روز پہلے انتقال کر گئیں۔اناللہ واناالیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کو ہمیشہ اپنے جوار رحمت میں رکھے اور ہمارے دوست اشرف خان لودھی  اور اُن کے دیگر اہل خانہ کو صبر عطا کرے۔آمین

مزید :

رائے -کالم -