افغانان کا اوچ کے چھ گاﺅں میں جاری اراضی تنازعہ پر شدید تحفظات کا اظہار 

    افغانان کا اوچ کے چھ گاﺅں میں جاری اراضی تنازعہ پر شدید تحفظات کا اظہار 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

                                                                        چکدرہ (تحصیل رپورٹر) افغانان اوچ اور مزارعین درمیان زمین کا تنازعہ 1960 سے چلا ارہا ہے سپریم کورٹ نے افغانان اوچ کے حق میں فیصلہ دیا ہے چھ سرکلی جات کے مالکان افغانان اوچ ہے جو بھی اس علاقے میں زمین خریدے گا تو وہ ہم کو قبول نہیں ہوگا مزارعین نے بوگس کاغذات بنوائی ہے حاجی خانشہزادہ کی قیادت میں نمائندہ گان کے ہمراہ گزشتہ روز چکدرہ پریس کلب میں ایک ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اوچ کے چھ گا_¶ں میں جاری اراضی تنازعے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ نمائندہ گان میں شاہی ودان، اعزاز خان، منیر خان، بیرسٹر عطاءاللہ خان، ریاض خان، خان شہزادہ، صابرالرحمن، عادی خان۔ اعجاز خان ودیگر سینکڑوں افراد شامل تھے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے حاجی خان شہزادہ اور ریاض خان نے کہا کہ اوچ کے علاقوں میں اراضی کے اصل مالکان افغانان اوچ ہیں، لیکن بعض بااثر افراد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کی غلط تشریح کرتے ہوئے زمینوں کی غیر قانونی خرید و فروخت میں ملوث ہیں۔ انھوں نے واضح کیا کہ بعض مالکان نے اپنے مزارعین کو اراضی فروخت کی ہے، جبکہ کچھ بیرونی افراد بھی مزارعین کے ذریعے زمینیں خریدنے کی کوشش کر رہے ہیں، جو کہ سراسر غیر قانونی اور ناقابل قبول ہے۔ ریاض خان نے 1972 میں لینڈ کمیشن کی جانب سے جاری کردہ فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اوچ کے اصل مالکان افغانان اوچ ہیں جبکہ مزارعین اتماخیل اور روغانی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیںمزارعین زمین کے پیداوار میں برابر کا حصہ مالکان کو دیں گے پہاڑوں میں مویشی چرائی، لکڑی کاٹنے اور گھریلو ضروریات کے لیے لکڑی کا استعمال مالکان کی اجازت سے مشروط ہے۔ مالکان عدالتی فیصلے کے مطابق مزارعین کو بے دخل کرنے کا اختیار رکھتے ہیں انھوں نے یہ بھی کہا کہ لینڈ کمیشن، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے فیصلوں میں واضح طور پر اوچ کے چھ گا_¶ں کی ملکیت افغانان اوچ کے نام پر تسلیم کی گئی ہے۔ ان گا_¶ں میں کسی بھی قسم کی خرید و فروخت صرف تحصیلدار ادینزئی کی موجودگی میں ہی قانونی تصور کی جائے گی، بصورت دیگر تمام لین دین کالعدم اور غیر قانونی ہونگے انھوں نے حکومت اور مقامی انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ 2022 تا 2025 کے محصولات مزارعین سے فوری طور پر ریکور کیے جائیں اور افغانان اوچ کے حق ملکیت کو تسلیم کیا جائے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ان کے جائز حقوق پامال کیے گئے تو وہ قانونی چارہ جوئی اور احتجاجی تحریک پر مجبور ہوں گے، جس کی تمام تر ذمہ داری مقامی انتظامیہ پر عائد ہوگی۔