امن کی خواہش کو کمزوری سمجھنے والے بھارت کیلئے سبق
پاکستان نے اپنی طے شدہ حکمت عملی کے مطابق بھارت کو ہفتہ کی صبح پو پھٹنے کے ساتھ ہی وہ جواب دیا،جس کا پوری قوم انتظار کر رہی تھی۔یہ جواب بھی ڈی جی آئی ایس پی آر کے اُس دعوے کی مکمل تعبیر تھا کہ ہم ایسا جواب دیں گے دنیا حیران رہ جائے گی۔ پاکستان کے جاں باز ہوا بازوں نے بھارت کے اندر گھس کر چُن چُن کرا یسے اہداف کو نشانہ بنایا جو بھارتی جارحیت کا مرکز بنے ہوئے تھے،خود بھارتی میڈیا اس تباہی پر بھارتی حکومت کے بخیے ادھیڑتا رہا کہ جب آپ اپنے ایئر بیسز اور ایئر سپیس نہیں بچا سکتے تو عوام کو کیا بچائیں گے۔اب دنیا تو کیا کوئی بھارتی بھی یہ واویلا نہیں کر سکتا کہ پاکستان نے زیادتی کی ہے،کیونکہ جس طرح بھارت دو ہفتوں سے چھیڑ چھاڑ کر رہا تھا اور اُس نے باقاعدہ پاکستان کے تین شہروں کو نشانہ بھی بنایا، ڈرونز کی بارش کی، اُس کے بعد دنیا اِس بات پر حیران تھی کہ پاکستان اتنی بڑی جارحیت کے باوجود جواب کیوں نہیں دے رہا،خود بھارتی عوام جنہیں بھارت کے میڈیا نے جنگی جنون میں مبتلا کر رکھا ہے چھلانگیں لگا رہے تھے،بلکہ بھنگڑے ڈال رہے تھے کہ پاکستانی افواج اور حکومت بھارت کے سامنے سہم کے بیٹھ گئی ہیں وہ ہمارے فوجی و حکومتی ترجمانوں کی اس بریفنگ کو بھی ایک مذاق سمجھتے تھے کہ پاکستان جواب دے گا، انتظار کیا جائے۔یہ انتظار جب ہفتہ کی صبح ختم ہوا تو پورے بھارت میں ہا ہار کار مچ گئی۔ ایک طرف بھرپور سائبر حملہ جس نے بھارت کے نظام کو مفلوج کر دیا اور دوسری طرف میزائلوں سے مزین فضائی حملوں نے بھارت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ کیا زبردست حکمت عملی ہے کہ اب دنیا پاکستان کو الزام بھی نہیں دے سکتی کہ اُس نے امن کو تہہ و بالا کیا ہے۔ہم نے امن کی خاطر جتنا صبر کیا وہ دنیا کے سامنے آ چکا ہے،اب ردعمل کا وقت ہے تو دنیا حیرت سے دیکھ رہی ہے،پاکستان کے پاس اتنی طاقت اور مہارت موجود ہے،جس نے بھارت کے حجم کو سکیڑ کے رکھ دیا ہے اور اُس کا ہر شہر پاکستانی فضائیہ اور میزائلوں کی دسترس میں آ گیا ہے۔کامیابی کا معیار دیکھئے کہ جتنے طیارے بھارت کو سبق سکھانے گئے تھے، سب کے سب اپنا مشن مکمل کر کے واپس آ گئے جبکہ بھارت کے مزید دو طیارے تباہ ہوئے جن کے پائلٹس کو بشمول ایک خاتون پائلٹ کو پکڑ لیا گیا۔
بھارت کی ہمیشہ یہ تاریخ رہی ہے کہ وہ امن کی خواہش کو بزدلی و کمزوری سمجھتا ہے،حالانکہ امن کی خواہش بہادر اور طاقتور قوموں کا شیوہ ہوتی ہے،بھارت نے پاکستان میں دہشت گردوں کی سرپرستی کی، فنڈنگ کرتا رہا، علیحدگی پسندوں کو ہر طرح کی سہولتیں فراہم کیں اور اب بھی کر رہا ہے۔ تاہم پاکستان سفارتی ذرائع سے بھارت کی ایسی مذموم حرکتوں کو بے نقاب کرتا رہا۔کبھی اس حوالے سے باقاعدہ جنگ کا راستہ اختیار کرنے کا نہیں سوچا، دوسری طرف بھارت ہے جو اپنے مخصوص ایجنڈے یا اپنی داخلی صورتحال کے باعث جس کی وجہ ہے نریندر مودی اپنی ساکھ کھو رہے ہیں، ایک جنگی جنون کو ہوا دیتا رہا تاکہ بھارتی عوام کو یہ باور کرا سکے، ملک میں جو بدامنی اور دہشت گردی ہے اُس کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے۔وہ آج تک کوئی ایسا ٹھوس ثبوت نہیں دے سکا جس کے بارے میں دنیا کو باور کرا سکے کہ اُس کے الزامات درست ہیں،جبکہ دوسری طرف پاکستان ہے جس نے بلوچستان میں اُس کی مداخلت کے ناقابل ِ تردید ثبوت دنیا کے سامنے پیش کئے ہیں اس کے باوجود جواب دینے کا وہ راستہ اختیار نہیں کیا، جو بھارت نے کیا ہے اور بلا جواز نہتے شہریوں پر میزائل برسا کر انہیں زندگی سے محروم کیا۔ ان بلاجواز و بلا اشتعال حملوں کے باوجود پاکستان نے صبرو تحمل کا مظاہرہ کیا۔بھارت کو ایک فضائی حملے کا اشارہ دے کر سمجھایا کہ جنگ مسئلے کا حل نہیں اور امن کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے،مگر اِس بات کو بھی درخور اعتنانہ سمجھا گیا۔ڈرونز بھیجنے کی احمقانہ حکمت عملی اختیار کی گئی، مختصر یہ کہ پاکستانی عوام کو خوفزدہ کیا جائے، جبکہ پاکستانی عوام کی حالت یہ تھی جہاں ڈرون گرتا وہاں بھنگڑے ڈالتے،اُس کا ملبہ دیکھنے پہنچ جاتے تھے۔البتہ بھارتیوں کی اس حماقت کے باعث پاکستان کی حکومت اور مسلح افواج پر یہ عوامی دباؤ بڑھتا گیا کہ بھارت کو جواب دیا جائے،جس کے بعد پاکستان کے ذمہ دار حلقوں کی طرف سے بھارت کو یہ واشگاف پیغام دیئے گئے کہ وہ پاک و ہند کے امن کو اپنی مقبولیت کی بھینٹ نہ چڑھائیں، یہ سلسلہ جاری رہا تو ایسا جواب دیں گے جو بھارتی عوام اور حکومت کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو گا۔اس نرم یاد دہانی،بلکہ تنبیہ کا بھی بھارت پر کوئی اثر نہیں ہوا،اس نے الٹا ڈرون حملوں کا سلسلہ بڑھا دیا۔لاہور کو بھی نشانہ بنایا گیا، غالباً یہی وہ لمحہ تھا جب پاکستان کی حکومت اور افواج نے بھارت کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا،جس پر عمل ہفتہ کی صبح ہوا،پوری پاکستانی قوم شاہینوں کی کامیابی پر خوشی سے نہال ہو گئی اس لئے نہیں کہ وہ جنگی جنون میں مبتلا ہے،بلکہ اس لئے کہ پاکستان کے صبر و تحمل کو بھارت دنیا کے سامنے بزدل اور پہلگام میں دہشت گردی پر اعترافِ جرم بنا کر پیش کررہا تھا۔ پھر جواب بھی ایسا دیا گیا تھا جس نے پاکستان کی طاقت، دفاعی صلاحیت اور جنگی حکمت عملی کا دنیا کے سامنے لوہا منوا لیا۔
اب دیکھتے ہیں بھارت اس سے کیا سبق سیکھتا ہے۔کیا اشتعال میں آ کر مزید آگ بھڑکاتا ہے یا ہوشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے برصغیر کے ڈیڑھ ارب انسانوں کو آگ کے شعلوں کی نذر ہونے سے بچا لیتا ہے۔یہ بات تو اس کے دماغ سے اب نکل جانا چاہئے کہ پاکستان کوئی حلوہ ہے جسے وہ لاہور پہنچ کر آرام سے کھا لے گا یہ تو لوہے کا چنا ہے جو اُس کے حلق میں ایسا پھنسے گا کہ اُس کی ساری اکڑ زمین بوس ہو جائے گی۔پاکستان نے ایک ہی حملے میں واضح کر دیا ہے اُس کے پاس جدید ٹیکنالوجی بھی ہے،جنگ کرنے کی مہارت بھی اور سب سے بڑی بات وہ جذبہ جو شوقِ شہادت سے جلا پاتا ہے۔پاکستان نے اس مشن کا نام ہی ایسا رکھا ہے، جو اس کے ناقابل ِ تسخیر ہونے کو ظاہر کرتا ہے۔بنیان مرصوص، اللہ کی طرف سے ملنے والی وہ سیسہ پلائی دیوار ہے، جس سے سر ٹکرا کر پاش پاش ہوا جا سکتا ہے، رتی بھر کامیابی حاصل نہیں کی جا سکتی،پھر جس طرح قوم نے اپنی افواج کے پیچھے سیسہ پلائی دیوار کی مانند کھڑے ہونے کا عملی ثبوت دیا ہے،اُس سے یہ واضح ہو گیا ہے بھارت تو کیا اُس کا باپ بھی اپنی تمام تر عددی برتری، اسلحہ کی فراوانی اور چار گنا آبادی کے باوجود پاکستان،اس کے عوام اور افواج کے جذبے کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔بھارت کے پاس راستہ صرف ایک ہی ہے کہ وہ خطے کا تھانیدار بننے کی بجائے اچھے ہمسائے کی طرح رہے۔ پاکستان کے خلاف سازشیں چھوڑے اور دِل سے اُس کے مساویانہ وجود کو تسلیم کرے۔ دہشت گردوں کی سرپرستی سے باز رہے اور مقبوضہ کشمیر کو کشمیریوں کے حوالے کر کے اپنی نو لاکھ فوج کو واپس بلائے۔اگر وہ ایسا نہیں کرتا اور اپنی طاقت کے زعم میں اپنی چودھراہٹ منوانا چاہتا ہے تو اس کا یہ خواب تباہی تو لا سکتا ہے، شرمندہئ تعبیر نہیں ہو سکتا۔
٭٭٭٭٭
