نور الامین مینگل کی خدمات

نور الامین مینگل کی خدمات
نور الامین مینگل کی خدمات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

گزشتہ کئی سال سے لاہور میں متعدد ڈپٹی کمشنر تعینات ہوئے۔ مارشل لاءکے دوران کئی ایڈمنسٹریٹر ضلع لاہور میں تعینات ہوئے۔ کئی لارڈ میئر منتخب ہو کر اقتدار کے مزلے لوٹ کر چلے گئے۔ سابق ناظم میاں عامر محمود بھی آٹھ سال تک ضلع لاہور کے حاکم رہے۔ اُن کے ساتھ کیپٹن خالد سلطان ڈی سی او لاہور کے علاوہ میجر (ر) طارق شفیع چک، میاں اعجاز احمد، سجاد احمد بھٹہ، احمد خان چیمہ، ڈی سی او لاہور تعینات رہے، لیکن جو جرا¿ت مندانہ فیصلے ڈی سی او نورالامین مینگل کر رہے ہیں، وہ فیصلے اس سے قبل کسی بھی حکمران نے کرنے کی جرا¿ت نہیں کی۔
5اکتوبر 2012ئ، لاہور میں قبرستان میانی صاحب کی تاریخ میں رقم ہو چکا ہے۔ ڈی سی او نورالامین مینگل نے قبرستان میانی صاحب کے اندر جا کر اپنی آنکھوں سے دیکھ کر حیرت سے قبرستان کی انتظامیہ سے دریافت کیا کہ یہ قبرستان کے اندر چار دیواریاں کیوں تعمیر کی گئی ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ یہ چار دیواریاں سابقہ ڈپٹی کمشنروں نے خود کروائی ہوئی ہیں اور انہوں نے اپنے والدین اور اپنی قبروں کے لئے قبضے کئے ہوئے ہیں۔ کچھ نے تو پیسے بھی پیشگی جمع کروائے ہوئے ہیں کہ ہم وفات پا جائیں گے تو ہمیں یہاں دفن کیا جائے۔ یہ الفاظ سن کر نورالامین مینگل صاحب سیخ پا ہو گئے۔ انہوں نے فوراً حکم صادر فرمایا کہ ”ایک ہفتے کے اندر اندر یہ تمام چار دیواریاں ختم کر کے اُن کے جمع کروائے گئے پیسے واپس کر دیئے جائیں“۔
نورالامین مینگل نے آٹھ کنال خالی زمین کو بھی قبرستان کے لئے دوبارہ مٹی ڈال کر صحیح کرنے کا حکم صادر کر دیا کہ ایک ہفتے کے اندر قبرستان میانی صاحب کے تمام قبضہ گروپوں کا خاتمہ کر کے مجھے رپورٹ پیش کی جائے۔ انہوں نے حکم دیا کہ آئندہ جو بھی کوئی شہری وفات پا جائے، اس کو یہاں دفن کیا جائے۔ یہ فیصلہ سنتے ہی مجھے بھی امید ہو گئی ہے کہ آئندہ راقم کو بھی قبرستان میانی صاحب میں قبر نصیب ہو سکے گی۔
سابق ڈی سی او لاہور سجاد احمد بھٹہ نے اپنے دفتر میں بیٹھے ہوئے کئی افسروں اور شرقپور شریف سے تعلق رکھنے والے ایم پی اے محمد اصغر منڈا کی موجودگی میں، جو مجھے نہیں جانتے تھے، سجاد احمد بھٹہ نے میرا نام لے کر کہا: ”مسعود بھسین میری خواہش ہے کہ تم میری موجودگی میں وفات پا گئے تو مَیں تمہیں میانی صاحب قبرستان میں اچھی جگہ پر خود دفن کروں گا“۔ یہ فقرہ سنتے ہی مَیں نے جواباً کہا کہ ” بھٹہ صاحب آپ نے سوچ کر بات نہیں کی، کیونکہ کل کسی نے نہیں دیکھی اور آپ جانتے ہیں کہ گزرنے والے کل کی بات ہے ،ذوالفقار علی بھٹو کی اولاد کو اپنے باپ کی نماز جنازہ نصیب نہیں ہوئی اور نہ ہی قبر پر مٹی ڈالنا نصیب ہوئی“۔
ابھی کل کی بات میاں نواز شریف، شہباز شریف کو اپنے باپ دادا کی قبر پر مٹی ڈالنا نصیب نہیں ہوئی، ابھی کل کی بات ہے بلوچستان کے نواب اکبر بگٹی کی اولاد کو اپنے باپ کی قبر پر مٹی ڈالنا نصیب نہیں ہوئی۔ کل کی بات ہے نواب ملک امیر محمد خان کے قاتل بیٹے کو اپنے باپ کی نماز جنازہ نصیب نہیں ہوئی تھی، لہٰذا آپ کون ہوتے ہیں مجھے میانی صاحب کے قبرستان میں اچھی جگہ پر دفن کرنے والے.... یہ فقرے سن کر تمام حاضرین سکتے میں آ گئے۔
میری ڈی سی او لاہور نورالامین مینگل سے گزارش ہے کہ جناب آپ فوری طور پر قبرستان کمیٹی کو ختم کر کے نئی کمیٹی تشکیل دیں تاکہ آئندہ قبضہ گروپ جرا¿ت نہ کر سکیں۔ آج پورے ضلع لاہور کے بسنے والوں کی دُعائیں آپ کے شامل حال ہیں۔ آپ نے گزشتہ ماہ جہانگیر کے مقبرے میں جا کر جعلی پیر کو گرفتار کروا کر تاریخ رقم کر دی ہے۔ آپ کی آمد کو دیکھ کر جہانگیر اور اُن کی اہلیہ اور بیٹی ضرور خوش ہوئے ہوں گے، کیونکہ بادشاہوں کی قبروں پر کبھی حکمران نہیں جایا کرتے۔ آپ واحد ضلع ایڈمنسٹریٹر ہیں، جو جہانگیر کے مقبرے پر گئے اور وہاں جا کر صفائی کرنے کے احکامات صادر کئے ہیں، آپ نے ثابت کر دیا ہے کہ آپ واقعی درد دل رکھنے والے آفیسر ہیں۔ آپ عوامی ہیں، آپ آفیسر بھی ہیں اور بہترین انسان بھی ہیں۔ آپ درویشانہ زندگی بسر کرنے کی تلقین اور تعلیم دے رہے ہیں۔       ٭

مزید :

کالم -