جاوید چودھری کے مخالفین کے لئے
مجھے اس بات کابخوبی اندازہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کرم سے میرے قلم سے نکلے ہوئے ہرلفظ کوقارئین بہت پسند کرتے ہیں،چاہے وہ کالم کی شکل میں ہو یا شاعری کی صورت میں ہر لفظ میرے قارئین میں بہت مقبولیت حاصل کر جاتا ہے،کیونکہ مَیں نے ہمیشہ یہی کوشش کی ہے کہ حق اورسچ لکھوں،جبکہ غریب آدمی کی آواز بنوں۔ مجھے فیس بُک پیج کے ذریعے قارئین کے حوصلہ افزا میسج ملتے رہتے ہیں، سبھی میسج میں ایک سے بڑھ کر ایک میرے قلم سے نکلے ہوئے الفاظ کو سراہا جاتا ہے، (نوٹ: مَیں فارغ اوقات میں صرف فیس بُک اور ٹویٹر اکاؤنٹ پر لوگوں کی طرف سے کئے گئے میسج یا کامنٹس پڑھتا ہوں، اگر کسی نے میرے کالموں کے بارے میں اپنی رائے دینی ہو تو وہ صرف ان دونوں ذرائع سے مجھ تک رسائی حاصل کر سکتا ہے، باقی کسی ویب سائٹ پرکئے گئے کامنٹس کونہ میں پڑھتا ہوں اور نہ ہی کوئی اپناٹائم ضائع کرے)۔ اب چلتا ہوں مَیں اپنے اصل ٹاپک کی طرف پچھلے دنوں میرے ساتھ ایک عجیب واقعہ پیش آیا میں جب بھی فیس بُک پرکوئی پوسٹ شیئر کرتا اس کو ہر کوئی پسندکرتا اور اس پوسٹ پر مختلف افراد مختلف انداز میں تعریفی کامنٹس بھی کرتے تھے، لیکن ہر پوسٹ پرمجھے ایک تنقیدی میسج بھی ضرور موصول ہوتاتھا،ہردفعہ کامنٹ کرنے والے کا نام نیا ہوتا تھا، مگر ان تمام کامنٹس سے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے ایک ہی آدمی مختلف نام استعمال کر کے کامنٹس کررہاہو۔
غصے کی بات یہ تھی کہ اس کے کامنٹس بھی کوئی تعمیری نہیں ہوتے تھے بلکہ اس کی باتوں سے ایسامحسوس ہوتا تھا کہ جیسے وہ پاگل پن کامریض ہواور کسی پاگل خانے میں بیٹھ کرکامنٹس کر رہا ہو،کیونکہ اگرکسی ایک چیز کو 100 آدمی اعلیٰ کہیں اورایک آدمی کہے کہ یہ چیزٹھیک نہیں ہے تواس کامطلب یہ ہوتاہے کہ اس چیزمیں کوئی خرابی نہیں ہے، بلکہ اس ایک آدمی کوکوئی بیماری لاحق ہوگئی ہے۔ یہ سلسلہ تقریباًتین روزتک چلتا رہا، میں چاہتا تو اسے بلاک کرکے آسانی سے جان چھڑوا سکتا تھا، لیکن مَیں نے سوچا کیوں نہ آج اس کوسبق ہی سکھایاجائے، ذرا سوشل میڈیا اور مختلف ویب سائٹس پرنقلی نام استعمال کر کے کامنٹس کرنے والوں کو بھی پتہ چلے کہ دنیاآج چاند پر پہنچ چکی ہے اور یوں مُنہ پر نقاب اُوڑھ کر فضول کامنٹس کرنے کا انجام بہت بُرا بھی ہو سکتا ہے۔
اس مقصد کے لئے میں نے اپنے ایک دوست کو فون کیا، جو خفیہ پولیس میںآفیسر ہے (میرا دل تو چاہ رہا ہے کہ میں اس کانام یہاں پر ضرور اپنے قارئین سے شیئر کرو تاکہ پاکستانی قوم یہ جان سکے کہ پاکستان کی خفیہ پولیس میںآج بھی ایسے لوگوں کی بہتات ہے جو اللہ تعالیٰ کی مدد سے مجرموں کو پاتال کی گہرائیوں سے نکال کر قانون کی ہتھکڑیاں پہنا سکتے ہیں،لیکن کیونکہ اس وقت وہ ایک حاضرڈیوٹی آفیسر ہے، اس لئے قانونی تقاضوں کے مطابق اس کانام میں اپنے کالم میں شیئر نہیں کروں گا)۔ مجھ سے پورا واقعہ سننے کے بعد اس نے کہا کہ ملک صاحب اب آپ ٹینشن فری ہو جائیں،انشااللہ وہ آدمی ایک دودن کے اندر اندر آپ کے سامنے موجود ہو گا اور پھر اس نے واقعی اپنے مختلف ذرائع سے فیس بُک پر کئے گئے کامنٹس کی مدد سے اس آدمی کی آئی پی ٹریس کی اور 24 گھنٹوں سے بھی پہلے اس کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کر لیں۔
میرے دوست نے جب یہ معلومات مجھے بتائیں، تو مجھ پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹتے گئے۔ یہ بات تو میرے اندازوں کے عین مطابق ثابت ہو گئی کہ وہ ایک ہی آدمی تھا، جو مختلف فیس بُک اکاؤنٹس کے ذریعے کامنٹس کرتا تھا، لیکن مزید انکشاف یہ ہوا کہ اس نے مختلف ناموں سے 25فیس بک اکاؤنٹس بنائے ہوئے تھے، جن میں 10لڑکیوں کے نام سے تھے، اس کے علاوہ اس نے6اکاؤنٹس پاکستان کی مختلف مشہور شخصیات کے نام پر بنائے ہوئے تھے، ان تمام اکاؤنٹس کے ذریعے وہ ایسا گندہ مواد شیئرکرتا، جس سے ان تمام مشہور شخصیات کا امیج عام لوگوں میں خراب ہو رہا تھا۔ ڈاکٹر عامر لیاقت کے نام کا ایک اکاؤنٹ بھی اس میں شامل تھا، جس پر وہ صرف گالم گلوچ والی پوسٹس ہی شیئر کرتا تھا، تاکہ عوام کے دل میں ڈاکٹر عامر لیاقت کے لئے اشتعال پیدا ہو۔
وہ لڑکاموبائل اورلیب ٹاپ دونوں کو اپنے ان ناپاک کاموں کے لئے استعمال کرتاتھا۔میرے دوست نے مجھے کہاکہ میں10جوانوں پرمشتمل ایک فورس اس کے گھربھیجتاہوں جو اسے ابھی گرفتارکرلائے گی ۔میں نے اس سے کہا کہ مجھے اس لڑکے کاپتہ دو،کیونکہ میں چاہتا تھا کہ فورس بھجوانے سے پہلے میں خود اس سے ایک دفعہ مل لوں،میرے دوست نے مجھے اس کا ایڈریس بتایااوریہ کہاکہ آپ کے جانے کے ٹھیک ایک گھنٹے بعدمیں پولیس فورس بھی بھیج دوں گا۔اس لڑکے کاگھرجس گاؤں میں تھا؟ وہاں میرا ایک دوست بھی رہتا تھا،میں نے اس کو فون کر دیا تاکہ آسانی سے اس لڑکے کے گھرکاپتہ چلایا جا سکے۔گاؤں میں داخل ہوتے ہی میں نے اپنے دوست کو ،جو بڑی بے تابی سے میراانتظارکر رہا تھا، ساتھ لیا اور ہم دونوں اس لڑکے کے گھرکی طرف جانے لگے، تھوڑی ہی دیر میں ہم دونوں اس کے گھرکے دروازے کے باہرکھڑے تھے۔ میرے دوست نے ان کی ڈور بیل بجائی اوراتفاق سے وہی لڑکا باہر نکلا جو ان غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث تھا۔
25اکاؤنٹس میں سے ایک ایسا اکاؤنٹ بھی تھا،جس کے بارے میں میرے پولیس والے دوست نے بتایاتھاکہ یہ اس کااصلی اکاؤنٹ ہے اور اسی اکاؤنٹ سے حاصل کی گئی ایک تصویر میں دیکھ چکا تھا،اس لئے مجھے اس کو پہچاننے میں ذرابھی دیرنہ لگی۔وہ لڑکا بھی مجھے دیکھتے ہی پہچان گیا اور اس کی حالت سے ایسا محسوس ہو رہا تھا، جیسے وہ اچانک مجھے اپنے سامنے پاکر ڈر سا گیا ہو اور تقریباً دو منٹ تک تووہ بالکل سکتے میں رہا۔ وہ کہتے ہیں نا کہ (چور کی داڑھی میں تنکا)۔۔۔مجھے اس پرغصہ تو بہت آ رہا تھا اور میرادل کر رہا تھا کہ اس کو اِسی وقت تھپڑ دے ماروں، لیکن میں قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لینا چاہتا تھا۔اس لڑکے نے لرزتی ہوئی آوازمیں ہمیں اندر آنے کوکہاجس پرمیں نے صاف انکارکردیا اور اس کوزچ کرنے کے لئے پوچھاکہ مجھے پہچانا ہے ،اس نے جلدی جلدی ہاں میں سر ہلا دیا، پھر میں نے کہاکہ تم میری تحریروں پر کامنٹس بہت زیادہ کرتے ہواور اپنے آپ کو بہت عقلمند سمجھتے ہو، مَیں نے سوچا کیوں نہ تمہارے ساتھ ملاجائے اور مناظرہ کیا جائے کہ کون کتنے پانی میں ہے ، ساتھ ہی میں نے اس کو وہ مختلف نام بھی بتا دیئے، جن ناموں پراس نے جعلی فیس بک اکاؤنٹ بنائے ہوئے تھے۔
جیسے ہی میری بات مکمل ہوئی اس کے توجیسے پسینے چھوٹنے لگے ،وہ اسی وقت مجھ سے معافیاں مانگے لگااورمنتیں کرنے لگاکہ مجھ سے غلطی ہوگئی، میری توسات نسلوں کوبھی یہ خبرنہیں تھی کہ آپ اس طرح میراکھوج لگالیں گے اوریوں اچانک میرے سامنے آجائیں گے۔ مجھے اس کی حالت پرترس آنے لگا اور مَیںیہ سوچنے لگاکہ کیایہ وہی شخص میرے سامنے بھیگی بلی بناہواہے جوفیس بک پرایسابے دھڑک ہوکرکامنٹس کرتاتھا،جیسے وزیراعظم پاکستان ہواوراسے کوئی بھی پوچھنے والانہ ہو،ابھی میںیہ سوچ ہی رہاتھاکہ میرادوسرادوست اپنی پولیس فورس کے ساتھ وہاں پہنچ گیا اور اسے اپنے ساتھ تھانے لے گیا۔باقی پولیس والے مجرم کے ساتھ جوکرتے ہیں وہ سبھی جانتے ہیں اس لئے میرایہاں لکھنے کاکوئی فائدہ نہیں ہے(جاری ہے)