اب نوازشریف کا لبرل پاکستان !

اب نوازشریف کا لبرل پاکستان !
 اب نوازشریف کا لبرل پاکستان !

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اب میاں نوازشریف نے ایک نئی پھلجھڑی چھوڑی ہے کہ عوام کا مستقبل ’’لبرل پاکستان‘‘ ہے۔ اگر چہ اُن کا پورا بیانیہ ہی اعتراضات کے طوفان اُٹھا تا ہے۔ فرماتے ہیں کہ ’’ڈھائی سال میں ترقی کے تمام اہداف حاصل کر لئے، عوام کا مستقبل جمہوری اور لبرل پاکستان میں ہے‘‘۔ معلوم نہیں کیوں میاں نوازشریف نے ترقی کے جو اہداف حاصل کئے ہیں ، اُس کا پتا ابھی تک دستر خوانی قبیلے کے دانشوروں کو نہیں چلا ، وگرنہ وہ ڈھول باجے کے ساتھ یہ راگ اب تک کتنی ہی بار جھومتے جھامتے گا ، گُنگُنا چکے ہوتے، مگر یہ موضوع یہاں موزوں طور پر زیربحث ہی نہیں۔ یہاں تک کہ اس بیانئے میں عوام کے مستقبل کی آمریت نما جمہوریت کے ساتھ وابستگی بھی موضوع بحث نہیں ۔یہاں پر اس پورے بیانئے کا محض ایک جز یعنی ’’عوام کامستقبل لبرل پاکستان ہے ‘‘کو زیر غور لانا مقصود ہے۔


لبرل پاکستان کی بات میاں نواشریف نے اُسی دن کی ہے، جس دن وزیرمملکت سائرہ افضل تارڑ نے جنرل پرویز مشرف کو سینیٹ میں ’’رول ماڈل ‘‘ کہہ کر چیئرمین سینیٹ رضاربانی سے ایک جوابی سوال کی صورت میں ڈانٹ کھائی۔ اب محترمہ نے وضاحت بھی فرما دی ہے۔ میاں نواز شریف نے اگر چہ نام نہیں لیا، مگر لبرل پاکستان کی اصطلاح کی ساری گونج گمک مشرف کے عرصۂ اقتدار میں ہی پیدا ہوئی۔ ’’روشن خیال اعتدال پسندی ‘‘نامی حیا باختہ حسینہ نے بھی اُسی دور میں اپنی چھب دکھلاکر قیامتیں ڈھائی تھیں۔ تب پاکستان کو امریکی مقاصد کی ڈھب پر لانے کے لئے ایک ذہنی غسل دینے کا فیصلہ ہوا تھا۔ ایک افغان جنگ میں جب لڑائی کے لئے بنیادی ہتھیار کے طور پر اسلام کی ضرورت تھی ، تو جنرل ضیاء الحق کی اسلام پسندی امریکی باجگزاری کے کام آئی، مجاہدین امریکا کے بانیوں کے ہم پلہ سمجھے گئے۔ اُن کی قبائلی روایات کبھی اعتراض کا موجب نہ بنیں۔ اُن کے معاشرے میں عورت کا مقام تب کبھی زیرِ بحث نہ آیا ۔ افغان معاشرے میں کبھی جھانک کر نہ دیکھا گیا کہ اُن کی بچیاں زیورِ تعلیم سے آراستہ ہور ہی ہیں یا نہیں۔ پھر اچانک دور تبدیل ہوا ۔اور امریکی مقاصد بدل گئے۔جنرل ضیاء قرآنی آیات پڑھتے تھے، نیا جنرل مشرف کتوں کو بانہوں میں بھر کر تصویریں اُتارتا نظر آنے لگا۔ اب وہی مجاہدین یک بیک دہشت گرد ہو گئے۔ یہ میاں نوازشریف کے دستر خوانی قبیلے کے ہی دانشور تھے، جو پاکستان کی فضاؤں سے اڑان بھرتے طیاروں کی گنتی گنتے اور افغانوں کے بہتے خون کا روز حساب کرکے قوم کو بتا تے تھے کہ جرنیلی اقتدار نے مسلمانوں کا خون کتنا ارزاں کر دیا۔ ڈرون کے فتنے نے کیا کیا قیامتیں ڈھائیں۔ زیادہ پُرانی بات نہیں تب ہی روشن خیال اعتدال پسندی اور لبرل پاکستان پر تنقید کے طوفان میں مشرف کے چہرے کو گم کرنے کے جتن کئے گئے تھے۔


میاں نواز شریف جب عوام کے مستقبل کو لبرل پاکستان کے ساتھ منسلک کر رہے تھے تو معلوم نہیں، اُن کے قریب کھڑے کسی وزیر مشیر نے اُن کے کان میں سرگوشی کی یا نہیں کہ حضور یہ پرویز مشرف کے دور کے جنتر منتر ہیں ۔ لبرل پاکستان کے ساز پر تب امریکیوں سے سازباز کر کے جمہوریت کے خلاف آمریت کے لئے سندِ جواز حاصل کیا گیا تھا۔ لبرل پاکستان کی ہی دُھن پر روشن خیال اعتدال پسندی کی رقاصہ اپنے بدن کے زاویئے بُنتی تھی۔ اور اس حال میں خود ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ زن بھی گلاس سر پر رکھ کر ہاتھ پاؤں ہِلاتا اورٹھمکے لگاتا تھا۔ یہ بڑا ہی معرِکَہ آرا دور تھا۔ تب کی اپنی داستانیں تھیں۔اُس دور کے لبرل پاکستان کی اپنی نورجہانیں تھیں، اور اپنے معرکہ روح وبدن تھے۔ جو دن بہ دن بڑھتے پھیلتے ہی چلے گئے تھے۔ تب عتیقائیں محفل آرا تھیں اور عافیائیں امریکی جیلوں میں بھیج دی گئی تھیں۔ معلوم نہیں کسی نے میاں نوازشریف کے کان میں سرگوشی کی تھی یا نہیں کہ تب آپ جدہ کے سرور پیلیس میں تھے۔ اور آپ کے ہاتھوں سے لگائی گئی گرہیں ، یہی بیچارے عوام لبرل پاکستان کے نام پر اپنے دانتوں سے کھول رہے تھے۔


یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا کہ جب میاں نواز شریف یہ فرما رہے تھے کہ لبرل پاکستان عوام کا مستقبل ہے، تو کسی نے اُن کے کان میں کہا کہ حضورِ ذی وقار یہ مستقبل ،ماضی میں بھگتایا جا چکا ہے، جس کے اثرات کی بہار میں بگرام کی ایک قیدی نمبر650کا ذکر ِ خیر بار بار ، بتکرار، بصد اصرار کیا جاتا تھا۔ ہم آپ کے نمک خوار تو اِسے لبرل پاکستان کے خلاف ایک مقدمہ بنا کر پیش کرتے تھے اور صورِ اسرافیل پھونکتے تھے۔تب آپ کے رخِ انور پر بھی اُن کا ذکر درد کی سلوٹیں اُبھار دیتا تھا۔ ہم نے اُسے بہن کہا، بیٹی کہا، حضور کچھ رحم نما توجہ فرمائیں۔ اپنے نمک خواروں کو رسواکرنے کا اہتمام تو نہ کریں۔ ہم نے کبھی ایک عیسائی بنیاد پرست ، کیلی فورنیا کے امریکی شہری گیری فالکنر سے عافیہ صدیقی کا موازنہ کرکے اس حکومت کو کیا کیا کوسنے نہیں دیئے تھے۔تب شہابی آنکھوں ، گلابی گالوں اور سنہری بالوں والی افغان بچیاں ہمارے سربلند قلم میں سیاہی بھرنے کے کام آتی تھی۔ تب بش کی جلائی گئی آگ کو ہم نے کروسیڈ کے نام سے لبرل پاکستان والے مشرف کے خلاف ایک مذہبی جذبہ پیدا کرنے کے لئے استعمال کیا تھا۔


مشرف کے خلاف طرح طرح کے نکات پیدا کرنے والے اس دستر خوانی قبیلے کے کسی دانشور نے اب تک یہ نکتہ میاں نوازشریف کے گوش گزار کیا یا نہیں کہ جب بش اس جنگ کو کروسیڈ کہہ رہا تھا تو پاکستان کو لبرل بنانے کی جدوجہد بھی ایک ساتھ شروع ہوئی تھی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور لبرلزم کی تکرار میں ایک نامیاتی رشتہ ہے۔اس رشتے کی وضاحت اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے ہی لوگوں کے خون بہانے سے ہوتی ہے، جو دونوں طرف سے ایک مذہبی عقیدے کے تحت جاری ہے، مگر جس کی وضاحت کے لئے ایک لبرل نظریہ بھی درکارہے۔ اس لبرل ازم کی اپنی علمیات اور مابعد الطبیعات ہے ۔ جو ایک مستقل موضوع ہے، اسے کسی اور وقت پر اُٹھا رکھتے ہیں۔ سائرہ افضل تارڑ کی وضاحت اپنی جگہ، مگر میاں نواز شریف کے لبرل پاکستان کا تصور مشرف کے لبرل پاکستان سے کس طرح مختلف ہو گا؟ یہ اصطلاح تو اپنی اصل میں ایک ہی طرح کے نتائج پیدا کرتی ہے۔ تو کیا اقتدار کے لئے نوازشریف کے جسم میں مشرف کی روح حلول کر جائے گی؟ یوں بھی مشرف آج کل وہ گفتگو فرما رہے ہیں جو بے اقتدار نوازشریف کبھی فرمایا کرتے تھے، تو کیا اس مُلک کے مفادات کے لئے ہماری تہذیب ہماری اقدار اور ہماری اصطلاحات حزب اختلاف کے خزاں رسیدہ موسموں کے لئے ہی کارآمد ہے؟کیا یہ بھی لبرل ازم کی ہی ایک قسم ہے؟

مزید :

کالم -