عشرت العباد سے استعفا لئے بغیر نئے گورنر کا تقرر کر دیا گیا
تجزیہ: نصیر احمد سلیمی
سندھ کے نئے نامزد گورنر جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی کی حلف برداری 11 نومبر جمعہ کی صبح ساڑھے دس بجے گورنر ہاؤس کراچی میں ہوگی۔ سندھ کابینہ کے سینئر وزیر اور پیپلز پارٹی سندھ کے صدر نثار کھوڑو نے اپنے ردعمل میں سبکدوش ہونے والے گورنر ڈاکٹر عشرت العباد کے بارے میں کہا کہ انہوں نے چودہ سال عوام کی خدمت کی ہے تاہم اگر ڈاکٹر عشرت العباد کو پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفی کمال کی جانب سے لگائے گئے الزامات کی پاداش میں عہدے سے ہٹایا گیا ہے تو پھر ان الزمات کی تحقیقات کرانا بھی وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ نثار کھوڑو نے مصطفی کمال کے بارے میں کہا ہے کہ ان کو جواب دینا ہوگا کہ اگر الزامات درست ہیں تو وہ اتنے طویل عرصے تک خاموش کیوں رہے؟ واضح رہے کہ مصطفی کمال نے اگرچہ ڈاکٹر عشرت العباد پر اربوں روپے کی کرپشن سمیت سرکاری زمینوں پر قبضوں اور سرکاری ملازمتوں کی خرید و فروخت تک کے الزامات لگائے تھے مگر سب سے سنگین الزام دہری شخصیت کا تھا۔ ڈاکٹر عشرت العباد نے مصطفی کمال کے الزامات کا جواب اپنے دھیمے مزاج کے برعکس اسی زبان میں دیا اور جوابی الزامات کی بوچھاڑ کردی مگر دہری شہریت کے الزام کا جواب دینے سے گریز کی پالیسی اختیار کی اور کہا کہ میرا ہر اقدام آئین کے مطابق ہے جس کا ایک مطلب یہ بھی لیا گیا کہ ڈاکٹر عشرت العباد دہری شخصیت کے معاملہ کو یا تو ابہام میں رکھنا چاہتے ہیں یا ان کے نزدیک دہری شہریت کے ساتھ گورنر کا منصب رکھنا آئین کے منافی نہیں ہے۔ وہ گورنر بنے تو یہ ایشو اس وقت بھی اٹھا تھا مگر میڈیا کو گورنر ہاؤس کے ذرائع یہی جواب دیا کرتے تھے کہ گورنر نے دہری شہریت ترک کردی ہے۔ مصطفی کمال کی طرف سے دیگر الزامات کے ساتھ دہری شخصیت کا الزام جس شدت سے لگایا گیا تھا، ڈاکٹر عشرت العباد اگر اس الزام کا جواب دو ٹوک الفاظ میں دے دیتے تو یہ قضیہ ختم ہو جاتا اور اب نثار کھوڑو اس حوالے سے وفاقی حکومت کو اپنی تنقید کی سان پر نہ رکھتے۔ دہری شہریت کا شور اب شاید کوئی افادیت نہ رکھتا ہو کیونکہ وہ تو گورنر کے منصب سے رخصت ہوچکے تاہم ڈاکٹر عشرت العباد اپنے اوپر لگنے والے الزام کی وضاحت کرنے کی ضرورت اس وجہ سے نہ بھی محسوس کریں کہ اگر میری دہری شہریت ثابت ہو بھی جاتی تو زیادہ سے زیادہ استعفیٰ ہی دینا پڑتا نا۔ اب میں مستعفی ہوئے بغیر ہی باعزت طریقہ سے دوسرے گورنر کی تقرری کے بعد رخصت ہو رہا ہوں۔
گورنر ہاؤس اور وفاقی حکومت اس کی تصدیق کرتے ہیں کہ انہوں نے استعفیٰ نہیں دیا۔ صدر نے وزیراعظم کی مشاورت کے بعد اپنا آئینی اختیار استعمال کرتے ہوئے نئے گورنر کی تقرری کردی ہے جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ یا تو وفاقی حکومت ان پر دہری شہریت کے الزام کو درست نہیں سمجھتی یا گورنر کے منصب پر فائز شخص کیلئے دہری شہریت نہ رکھنے کی شرط کو آئینی ضرورت نہیں سمجھتی جبکہ آئینی ماہرین کے نزدیک کسی بھی آئینی عہدے پر دہری شہریت کے حامل شخص کو فائز نہیں کیا جاسکتا۔ مصطفی کمال نے ڈاکٹر عشرت العباد پر دہری شخصیت رکھنے کا الزام بھی عائد کیا تو اس نامہ نگار نے گورنر ہاؤس میں ان کے ایک قریبی مشیر سے رابطہ کیا اور دریافت کیا کہ گورنر اب اس الزام کی کوئی وضاحت کردیں تاکہ کوئی ابہام نہ رہے تو ان کا جواب تھا کہ گورنر اس کے سوا کوئی وضاحت کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے کہ ان کا ہر اقدام آئینی ہے‘‘۔ جب صراحت کے ساتھ دہری شہریت کے حوالہ سے وضاحت مانگی گئی تو ان کا پھر یہی جواب تھا کہ ’’وہ کہہ چکے ہیں میری یہاں موجودگی آئینی اور قانونی ہے‘‘۔ جس کے بعد ہی اس نامہ نگار نے لکھا تھاکہ یا تو ڈاکٹر عشرت العباد اپنے اوپر لگنے والے اس الزام کا دو ٹوک جواب دیں یا پھر مصطفی کمال کو جھوٹا الزام لگانے کی پاداش میں قانون کی عدالت میں لے کر جائیں۔ اگر وہ یہ نہیں کرنا چاہتے تو پھر اس منصب سے رضاکارانہ مستعفی ہو جائیں۔ اگر وہ یہ نہیں کرتے تو وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کو برطرف کریں بصورت دیگر وفاقی حکومت یہ وضاحت کرے کہ گورنر کے منصب پر فائز ہونے کیلئے دہری شہریت نہ رکھنے کی شرط ضروری نہیں۔ یہی مطالبہ دیگر صحافیوں، کالم نگاروں اور تجزیہ نگاروں نے بھی کیا تھا۔ اس نامہ نگار نے کئی آئینی ماہرین سے اس حوالہ سے رائے جاننے کی کوشش کی تو ان کا جواب تھا کہ اگر آئینی منصب پر فائز شخص پر دہری شہریت کا الزام لگ جائے تو وفاقی حکومت پر لازم ہو جاتا ہے کہ وہ اس شخص سے وضاحت طلب کرے یا خود اس الزام کی تحقیقات کرکے پوزیشن واضح کرے۔ اگر الزام درست ہو تو وفاقی حکومت کی آئینی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ اس شخص کو برطرف کرکے اس کا معاملہ دروغ گوئی کے الزام میں قانون کی عدالت کے حوالہ کرے۔ اگر یہ نہیں کرتی تو وہ بھی آئین سے انحراف کی زد میں آئے گی۔ 1973ء کے دستور میں دہری شہریت کے حامل شخص کو قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلی، سینیٹ اور کسی بھی آئینی عہدے کیلئے نااہل قرار دیا گیا تھا۔
سندھ سے پیپلز پارٹی کے رکن سینیٹ سابق وزیر داخلہ تو دہری شہریت کے الزام میں قصور وار قرار دیئے جانے والے تھے کہ انہوں نے دہری شہریت ترک کردی اور سینیٹ سے مستعفی ہوکر دوبارہ الیکشن لڑا تھا۔ اسی طرح سابق مشیر پٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین نے بھی دہری شہریت سامنے آنے کے بعد سینیٹ سے مستعفی ہونے میں عافیت جانی تھی۔ سندھ کے موجودہ وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ کا دہری شہریت کا معاملہ عدالت میں گیا تو انہوں نے بھی عدالتی فیصلہ آنے سے قبل ہی وزارت اور اسمبلی کی رکنیت سے استعفی دے دیا تھا۔ دہری شہریت ترک کرنے کے بعد 2013ء کے بعد وہ ضمنی انتخاب میں کامیاب ہوکر آئے تھے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی اور ایم کیوایم کے اور پنجاب میں مسلم لیگ اور دیگر جماعتوں کے بھی بہت سے ارکان دہری شہریت کی وجہ سے نااہل ہوچکے ہیں۔