ہیلمٹ اور ہمارے عوام کی مجبوری

ہیلمٹ اور ہمارے عوام کی مجبوری
ہیلمٹ اور ہمارے عوام کی مجبوری

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پچھلے دو ماہ سے ہیلمٹ کا استعمال ہر موٹر سائیکلسٹ پر اچانک لازم کر دیا گیاہے۔ ذہانت اور تخلیقی قوت سے عاری سیاسی اور ریاستی اِنتظامیہ نے ہیلمٹ پہننے کے حکم کو گذشتہ ماہ اچانک نازل کیا، قانون شکنی کرنے والے پر 1000 روپے جرمانہ کی سزا دینے کا فرمان ہوا۔ ہیلمٹ پہننا یقیناًموٹر سائیکل چلانے والے کی حفاظت کے لئے ہوتا ہے۔

ہیلمٹ پہننے کی مہم ہمارے ہاں کئی سال سے بطور ہفتہ روڈ سیفٹی چلتی رہی ہے۔ لاہور میں 10 لاکھ سے زیادہ موٹر سائیکلیں روڈ پر ہیں۔ 30 فیصدموٹر سائیکل چلانے والے غریب اور متوسط گھرانوں کے ہیں جو بعض مرتبہ اپنے بال بچوں کے ساتھ ایک ہی موٹر سائیکل پر سوار عموماً چھٹی والے دِن مِلنے ملانے کے لئے جا رہے ہوتے ہیں۔

50 فیصد کے لئے موٹر سائیکل Cargo vehicle ہے۔ اِن موٹر سائیکلوں پر ہر قسم کا بھاری سامان لدا ہوا سڑکوں پر نظر آتا ہے۔ یہ سامان گوالوں کے دودھ کے جستی کین بھی ہو سکتے ہیں، لوہے کا کام کرنے والوں کے لوہے کے سرئیے، سٹرکچر اور بڑے سائز کے لوہے کے ہورڈنگ بھی ہو سکتے ہیں۔ شیشے کی فل سائز کی Sheets بھی موٹر سائیکل کی پچھلی سیٹ پر بیٹھے شخص نے سر پر بڑے خطرناک طریقے سے رکھی ہوتی ہے۔ بقیہ 30 فیصد موٹر سائیکلسٹ کالجوں، سکولوں اور دفتروں کے نوجوان ہوتے ہیں اور اکثر ڈبل سواری کی شکل میں ہوتے ہیں (یہ اعداد لاہور ٹریفک کے محکمے سے ملے ہیں)۔
میَں پنجاب کی روڈ سیفٹی اِنتظامیہ اور سیاسی لیڈر شپ کو اس لئے Duffer لکھ رہا ہوں کہ اُنہوں نے یہ حکم جاری کرنے سے پہلے یہ کیوں نہیں سوچا کہ:۔
1) (۔کیا اتنی جلدی اور اتنی تعداد میں ہیلمٹس کا اِنتظام ہو سکے گا؟(2) ۔کیا ہیلمٹ صرف ڈرائیور کی حفاظت کے لئے ہے اور سواریوں کے لئے نہیں ہے؟ (3)۔ کیا پاکستان کے گرم موسم میں یہ ہیبت ناک ہیلمٹ باعثِ زحمت نہیں ہونگے؟
جس ملک میں موٹر سائیکل بطور Family Transport بھی استعمال ہوتی ہو وہاں ہیلمٹ ڈرائیور کو تو حادثے کی صورت میں بچالے گا، لیکن اُس موٹر سائیکل پر بیٹھے بیوی بچوں کی حفاظت کا کیا اِنتظام ہو گا۔ 2017ء میں صرف لاہور میں 29700 کے قریب موٹر سائیکل کی وجہ سے حادثات ہوئے۔

اِن حادثات میں 270 موت کا شکار ہوئے، 2200 کی ٹانگیں اور بازو فریکچر ہوئے اور 180 کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ ہیلمٹ بالکل ضروری ہے، لیکن حکومت اور ٹریفک پولیس کے کُند ذہن بابوؤ ں کو سوچنا چاہیے تھا کہ اتنی خطیر تعداد میں ہیلمٹ کا انتظام اِتنی جلدی کیسے ہو جائے گا اور کیا عورتیں اور بچے اس حفاظتی سہولت سے مستفید ہو سکیں گے؟
دراصل موٹرسائیکل کی ایجاد یورپ والوں نے کی تھی بطور سنگل سواری کے۔ اگر فیملی کو ساتھ لے جانا ہوتا تھا تو موٹر سائیکل کے ساتھ دوپہیوں والا صوفہ نما ریڑہ جوڑ دیتے تھے اور یوں موٹر سائیکل فیملی ٹرانسپورٹ بن جاتی تھی۔

بہت سی ایجادوں کی طرح برطانیہ نے موٹر سائیکل بھی ایجاد کی۔ پہلی موٹر سائیکل ،عام بائیسکل کے ساتھ چھوٹا سا پیٹرول انجن لگا کر، بنائی گئی تھی۔ آج سے قریباً 60 سال قبل یہ سائیکل نما موٹر بائیک ہمارے ہاں Quickly اور Moped کے نام سے سڑکوں پر واجبی سی رفتار سے دوڑتی نظر آتی تھی۔ Moped اور کوئکلی میں یہ سہولت تھی کہ اگر انجن خراب ہو گیا یا پیٹرول ختم ہو جاتا تھا تو یہ ہی موپڈ بطور بائیسکل کے پیڈل کے ذریعے چلنی شروع ہو جاتی تھی۔ دوسری جنگِ عظیم تک تیز رفتار اور بھاری انجن کی موٹر سائیکلیں وجود میں آ چکی تھیں۔ Triumph, Norton, BSA,Thunder Bird اور ہارلے ڈیوڈسن ۔ دوسری جنگِ عظیم میں موٹر سائیکل بطور ڈسپیچ رائڈرز استعمال ہوتی تھیں۔

برِصغیر میں جنگ عظیم کے ختم ہونے کے بعد موٹر سائیکل سوِلین استعمال میں آنی شروع ہوئی، یہ موٹر سائیکلیں فوج کی استعمال شدہ ہوتی تھیں جو جنگ کے بعد ہندوستانی فوج کے فالتو سامان کی طرح عام لوگوں میں نیلام کر دی گئیں۔

فوج میں چونکہ سیفٹی کو ہر حالت میں فوقیت ہوتی ہے ، اس لئے ہر ڈسپیچ رائڈر کے لئے ہیلمٹ استعمال کرنی لازم تھی۔ دراصل ہیلمٹ کی ایجاد موٹر سائیکل کی ایجاد سے 4000 سال پہلے ہو چکی تھی۔ پُرانے زمانے میں فوجیں جب تلواروں سے لڑتی تھیں تو سپاہیوں اورسپہ سالاروں کو موٹے چمڑے کےُ خد (Helmet) سرکو چوٹ سے بچانے کے لئے دئیے جاتے تھے۔ بعد میں کانسی اورتانبے کے خُدپہننے کا رواج ہو گیا۔ یورپ اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں موٹر سائیکل اَب برائے سواری استعمال نہیں ہوتی، بلکہ بطور Sports استعمال ہوتی ہے۔ ہارلے ڈیوڈسن موٹر سائیکلیں سڑکوں پر آتی ہیں تو اُن کی آواز سے ہی دہشت پھیل جاتی ہے ۔

چونکہ یہ Sports وہیکل ہیں اس لئے اِن کے حفاظتی قوانین سخت ہیں۔ ہیلمٹ کے علاوہ ہر رائڈر کو اور اُس کے پیچھے بیٹھے ساتھی کو Knee guards بھی گھٹنوں پرچڑھانے ہوتے ہیں۔ ہیلمٹ سائیکلسٹز کے لئے بھی استعمال کرنا ضروری ہے۔

کوہ پیمانی،بیس بال اور گھڑسواری میں بھی ہیلمٹ پہننا لازم ہے۔برِصغیر اور افریقی غیر ترقی یافتہ ممالک میں موٹر سائیکل باقاعدہ سواری کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔اِن ممالک کے عوام سیفٹی رولز سے آگاہ بھی نہیں ہوتے اور نہ ہی اپنی جہالت کی وجہ سے حفاظتی رُولز کی پرواہ کرتے ہیں۔
ہمارے جیسے غریب ممالک کے لئے یورپ نے موٹر سائیکل کی طرح سکوٹر بنا کر دیدی۔ 1980 تک آپ لاہور کی سڑکوں پرہلکی پاور کی سکوٹریں دوڑتی دیکھ چکے ہونگے۔یہ سکوٹریں مناسب رفتار سے دوڑتی تھیں، لیکن یہ بطور Cargo Vehicle استعمال نہ ہو سکتی تھیں۔

سڑک پر چلتی سکوٹر کو توازن میں رکھنا مشکل ہوتا تھا ،کیونکہ سکوٹر کا انجن سکوٹر کی ایک سائڈ پر لگا ہوتا تھا۔ اُس پرسامان لادنے سے توازن کے بگڑنے کا خدشہ ہوتا تھا۔ اُن دِنوں سکوٹر ایک باوقار سواری تھی۔ Racing یا وَن وھیلنگ کے لئے استعمال نہیں ہوتی تھی، اس لئے اُن دِنوں سکوٹر سوار پرہیلمٹ پہننے کی پابندی نہیں تھی۔
ہیلمٹ پہننے کی سخت پابندی کا حکم کچھ سیاسی پہلو بھی رکھتا ہے۔ موجودہ حکومتِ پنجاب کی تمام سیاسی قیادت ناتجربہ کار ہے، بلکہ کچھ کچھ نادان بھی۔ ضمنی اِنتخابات سے ایک ماہ قبل ہیلمٹ پہننے کا چنگیزی حکم مع 1000 روپے جرمانہ ، ہمارے متوسط اور کم آمدنی والے موٹر سائیکل مالکان پر بجلی بن کر گرا۔ ووٹ دینے کے لئے عموماً یہ ہی طبقہ زیادہ فعال ہوتا ہے۔ ویسے بھی پاکستان کی 60 فیصد آبادی جوانوں پر مشتمل ہے اور زیادہ تر وہی عمران خان کا ووٹر ہے۔

ہیلمٹ پہننے کے اس حکم کی ٹائمنگ بہت غلط تھی۔ اس وقت یہ ہو رہا ہے کہ ہیلمٹ جیسی معمولی ٹیکنیک والی آئٹم چین سے امپورٹ ہو کر کروڑوں کی تعداد میں بِک رہی ہے اب تو ایک ہیلمٹ کی قیمت دو ہزار تک پہنچ گئی ہے صوبائی اور مرکزی حکومتوں کو ہیلمٹ کی لوکل مینوفیکچرنگ کا پہلے انتظام کرنا چاہیے تھا اور پھر ہیلمٹ کا استعمال لازم قرار دے دیا جاتا۔

اب تو اس طرح لگتا ہے کہ پولیس کی ملی بھگت سے ہیلمٹ کے تاجروں کو فائدہ پہنچایا جارہا ہے۔ یہ فائدہ بے مقصد تو نہیں ہو گا۔ کمیشن کا ’’تڑکا‘‘ ضرور شامل ہو گا۔ ہمارے ناتجربہ کار ، سادہ طبیعت، دیانتدار اور واجبی سی ذہانت والے وزیرِ اعلیٰ پنجاب کو تو اس ’’گیم‘‘ کا شائد پتہ بھی نہ ہو، لیکن پولیس کی اَفسر شاہی کو اس حُکم کے سیاسی اثرات کا یقیناًمعلوم تھا۔ پنجاب کے آئی جی سے وزیراعلیٰ پہلے ہی ناخوش تھے۔

چنانچہ وزیراعلیٰ کی آئی جی پولیس سے مخالفت پی ٹی آئی کے لئے مہنگی پڑی۔ضمنی انتخاب سے پہلے ایک ایسا حکم جاری کر دینا جو پی ٹی آئی کے ممکنہ ووٹر کو ناراض کر دے، کسی صورت دانشمندی کے زمرے میں نہیں آتا۔ میَں تو سمجھتا ہوں عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے کسی رہنما میں دُور اندیشی کا شائبہ تک نہیں ہے۔

2018ء کے ضمنی انتخابات کی سب سے زیادہ سیٹیں پنجاب میں تھیں۔ لاہور کی سیٹیں تو بہت ہی اہم تھیں اور لاہور میں ہیلمٹ کی خلاف ورزی کی پکڑ دھکڑ کومیڈیا میں خوب دکھایا گیا۔ اِن ہی دِنوں لاہور کے تجاوزات کو گِرانے کا عمل شروع کیا گیا اور میڈیا میں اُس کی بھی تشہیر ہوئی۔ پنجابی عوام جذباتی اوراپنے لیڈروں سے انہونی توقعات رکھتے ہیں۔

ضمنی انتخابات سے کچھ ہفتوں پہلے پولیس کی ڈرامہ بازی اور میڈیا کے بھرپور Coverage نے پی ٹی آئی کو لاہور سے دیس نکاِلا دے دیا ہے۔ ایسی ہی حماقت وفاقی حکومت کے وزیر خزانہ نے کی۔ مِنی بجٹ کو ایک ماہ کی تاخیر سے پیش کیا جا سکتا تھا۔ اس بجٹ نے مہنگائی کا طوفان کھڑا کر دیا اور حکومتی مخالفوں کو ضمنی اِنتخاب سے پہلے زبردست گولہ باری کا بہانہ مل گیا۔

مہنگائی کو ضمنی اِنتخابات کا Main ایشو بنا دیا گیا۔ پاکستان کے ہر اخبار نے اور ٹی وی چینلز نے ’’مہنگائی مار گئی‘‘ کے گیت کی وہ گردان کی کہ ووٹروں کے ذہن میں یہ بیٹھ گیا کہ پی ٹی آئی کی حکومت میں تو دُکھ ہی دُکھ اور سختیاں ہیں۔

میَں غیر سیاسی آدمی ہوں، لیکن سیاست کی رمزوں کو سمجھتا ہوں۔ میَں وثوق سے لکھ رہا ہوں کہ ہیلمٹ پہننے کا حکم آہستہ آہستہ ہوا میں تحلیل ہو جائے گا۔ ہر سال لاہور میں ایک لاکھ موٹر سائیکل داخل ہورہی ہے۔ اگر ہیلمٹ ضرور پہنانی ہے تو اس کا ڈیزائن تبدیل کرو اوراس کی Manufacturing پاکستان میں ہی ہونی چاہیے۔

مزید :

رائے -کالم -