ہزار چشمہ ترے سنگِ راہ سے پھوٹے

ہزار چشمہ ترے سنگِ راہ سے پھوٹے
ہزار چشمہ ترے سنگِ راہ سے پھوٹے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

وسعتِ خیال اور ندرتِ خیال کسی بھی تحریر یا سخن کو اوجِ ثریا پر لے جاتا ہے۔ ایسے سخن طراز اپنے منفرد انداز و فکر سے لبریز اسلوب کی بدولت نہ صرف لوگوں بلکہ قوموں کے خیالات، جذبات، افکار اور اذہان کو بدلنے کی قدرت رکھتے ہیں۔ لیکن تاریخ میں ایسے قلم کار کم کم ہی نظر آتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ ایک ایسی شخصیت کا نام ہے کہ جنہوں نے اپنی آفاقی شاعری کی بدولت نہ صرف برصغیر کے مسلمانوں کی کایا پلٹ کر رکھ دی بلکہ عالمِ اسلام کے تمام مسلمانوں کو دعوتِ فکر دی کہ ”وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اِک ٹوٹا ہوا تارا“۔ انہوں نے شاعری کو ایک نیا اسلوب عطا کیا۔ انہوں نے اپنی بلند نگاہی، فکر کی پختگی، اور عشق کی تڑپ اور لگن کو اس طرح شاعری کے سانچے میں ڈھالا کہ جس نے ہر دورمیں بنجر ذہنوں کو زرخیز کرنے کا سامان مہیا کیا۔ مردہ روحوں میں ایک نئی جان پھونک ڈالی۔جمود کے شکار جسموں کو تحرک کا مطلب سمجھایا۔ علامہ اقبالؒ نے ہمیشہ ہی علم کی اہمیت پر زور دیا لیکن علم کے ساتھ ساتھ عمل پر بہت زیادہ زور دیا۔ کیونکہ عمل بغیر علم بے کار ہے۔جیسا کہ آپ فرماتے ہیں۔۔۔
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
علامہ اقبالؒ کا دل فقط برصغیر کے مسلمانوں کے نہیں دھڑکتا تھا بلکہ وہ تمام مسلمانوں کے دکھ، درد، اور تکالیف کو اپنے سینے میں لئے پھرتے تھے۔ وہ تمام امتِ مسلمہ کو اس حدیث کے مصداق سمجھتے تھے کہ تمام مسلمان ایک جسدِ واحد کی طرح ہیں۔ جس کے اگر ایک حصہ میں تکلیف ہو تو سارا جسم درد محسوس کرتا ہے۔ علامہ اقبالؒ کو تمام امت کی برابر فکر تھی۔ اسی لئے جب علامہ اقبالؒ تعلیم کے سلسلے میں لندن تشریف لے گئے تو وہاں مختلف شہروں کی لائبریریوں میں قدیم مسلمان علما،حکما، اور فلسفیوں کی نایاب کتب اہلِ یورپ کے قبضے میں دیکھ کر بہت رنجیدہ ہوئے اور فرمانے لگے
حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اِک عارضی شے تھی
نہیں دنیا کے آئینِ مسلم سے کوئی چارہ
مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آباء کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا
اسی طرح 1912  ء میں بادشاہی مسجد کے صحن میں جنگِ بلقان کے مجاہدین کے لئے چندہ اکٹھا کرنے کے اجتماع میں حضور رسالت مآب میں۔ کے عنوان سے ایک شہکار نظم پڑھی۔ گویا علامہ اقبالؒ تمام امتِ مسلمہ کا درد اپنے دل میں رکھتے ہیں اور ہمیشہ ان کی بہتری اور رہنمائی فرماتے نظر آتے ہیں۔
علامہ اقبالؒ نے اپنی حکیمانہ نظر سے امت کو درپیش مسائل کا مشاہدہ کیا اور عاقلانہ اور فلسفیانہ طرزِ شاعری سے ا±ن کا تدارک بھی کیا۔ علامہ اقبالؒ نے اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانوں کو ہمیشہ آگے بڑھنے کے جذبے کو بیدار رکھنے کی تلقین کی۔ وہ مسلمانوں کی حالتِ زار دیکھ کر رنجیدہ ہو جاتے۔علامہ اقبالؒ امتِ مسلمہ کو تمام عالم میں کامیاب و کامران دیکھنا چاہتے تھے۔ اس لئے وہ ہمیشہ ا±ن کی بہتری کے لئے کوشاں رہے۔اور ا±ن کے اندر آگے بڑھنے کی جستجو کو جگاتے رہے۔ جس طرح وہ کہتے ہیں کہ
نہیں مقام کی خوگر طبیعتِ آزاد
ہوائے سیر مثالِ نسیم پیدا کر
ہزار چشمہ ترے سنگِ راہ سے پھوٹے
خود ی میں ڈوب کے ضربِ کلیم پیدا کر
علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ ایک آزاد طبیعت کبھی بھی سکون و ثبات کی عادی نہیں ہوسکتی۔ ہوا چلتے رہنے ہی سے قائم رہتی ہے اگر رک جائے تو ختم ہو جاتی ہے اور گھٹن کا باعث بنتی ہے۔ اسی طرح وہ انسان کو زندگی میں آگے بڑھتے رہنے کی ترغیب دیتے ہیں کہ اگر زندگی میں مزید آگے جانا ہے ترقی حاصل کرنی ہے تو بادِ نسیم بن جاجس کا کام چلتے رہنا ہے۔ جب کوئی انسان اس پر عمل پیرا ہو جائے گا تو اس کے راستے میں آنے والے جس پتھر پر بھی وہ ضرب لگائے گا۔ وہیں سے کامیابیوں و کامرانیوں کا چشمہ پھوٹ پڑے گا۔ لیکن اس کے لئے انسان کو اپنے اندر مخفی خداداد صلاحیتوں کو جاننا ہو گا۔ جس طرح حضرت علیؓ کا قول ہے کہ جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا گویا اس نے رب کو پہچان لیا۔ اسی تناظر میں علامہ اقبالؒ ایک اور جگہ پر فرماتے ہیں کہ
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن
علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ قسمت کا رونا رونے سے بہتر ہے کہ اپنے عمل اور محنت سے تو قسمت ہی بدل دے۔اللہ تعالی سے قسمت کا شکوہ شکایت کرنے کی بجائے خود کو اس قابل بنا کہ تو خود جس طرح چاہے اللہ تعالی تیری قسمت کو ویسا بنا دے۔ اور یہ سب کچھ تب ہی ممکن ہے جب تو اپنے اصل کو پہچان لے گا اور یہ تب تک ممکن نہیں جب تک ت±و اپنے آپ کو اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت میں نہ دے دے۔
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے؟
ایسے ہی ارمغانِ حجاز میں کہتے ہیں کہ
ترے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے
خودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے
عبث ہے شکوہء تقدیرِ یزداں
تو خود تقدیرِ یزداں کیوں نہیں ہے
علامہ اقبالؒ نے مسلمانوں کو مخاطب کر کے کہ کہا کہ اگر تمہاری زندگی میں دنیا کو تسخیر کرنے کی تڑپ اور لگن نہیں ہے تو تمہاری زندگی غم، درد، اور تکلیف کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ عقل بھی تیرے کچھ کام نہیں آ سکتی۔اور دین پر چلنا بھی فقط تیری مجبوری ہو گی اور یہ کسی طور بھی تیری زندگی کی تاریکیوں کو دور نہیں کر سکتا۔ جب تک کہ تو اپنے اندر اس تجلی کو دیکھ نہ لے۔ جو تجھے زندگی کی تاریک راستوں پر اجالے کا سامان مہیا کرسکے۔ یہ تڑپ اور لگن تجھے تیری خودی کی تجلی اور روشنی سے ہاتھ آئے گی۔
بے تجلی زندگی رنجوری است
عقل مہجوری و دیں مجبوری است
علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں ایک عقلمند مرد تجلی کے بغیر کبھی بھی کسی راستے پر نہیں چلتا۔جبکہ نادان بنا سوچے سمجھے خوابوں اور خیالوں کی دولتیوں سے ہی مر جاتا ہے۔
بے تجلی مردِ دانا رہِ نبرد
از لکد کوبِ خیالِ خویش مرد
علامہ اقبالؒ نے مسلمانوں کو اپنے اندر ضربِ کلیمی پیدا کرنے کی دعوت دی ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کو دورِ حاضر کے فتنوں سے نبرد آزما ہونے کی تلقین بھی کی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ کامیابی کا طریقہ بھی بتایا ہے۔ کہ بت شکنی کے لئے ضربِ کلیمی کی ضرورت ہے اور یہ طاقت خودی میں ڈوبنے سے حاصل ہوتی ہے۔جس طرح اللہ تعالی نے اپنی معجزانہ خدائی طاقت حضرت موسیؑ کو عطا فرمائی کہ ان کا عصا مبارک فرعوں کے سانپوں کو اژدھا بن کر نگل گیا، حضرت موسیؑ نے عصا مبارک دریا کے پانی پہ مارا تو دریا میں رستہ بن گیا۔ علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ اگر تو بھی اپنی خودی کو پہچان لے گا تو اس کی چوٹ سے تیرے رستے میں پڑنے والے پتھروں سے ہزاروں چشمے پھوٹ سکتے ہیں۔ تیری خودی عصا بن کر تیری مشکلوں، مصیبتوں، اور پریشانیوں کو نگل جائے گی۔ علامہ اقبالؒ کا اک اک شعر معنویت، فلسفے، اور حکمت سے بھرپور ہے۔ جس پر جتنی چاہے بات ہو سکتی ہے۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں عملی طور پر اقبالؒ کی تعلیمات کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ علامہ اقبالؒ نے پاکستان کا جو خواب دیکھا تھا وہ تب ہی پورا ہو گا اگر ہم ا±ن کی سوچ اور فکر کے مطابق اپنی زندگیاں بسر کرنا شروع کر دیں۔ ورنہ زبانی جمع خرچ کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہو سکتے۔

مزید :

بلاگ -