گرم لہریں اور سرد لہریں!
اپوزیشن کی گیارہ سیاسی پارٹیوں نے دعویٰ کر رکھا ہے کہ حکومت کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں اور آنے والے جنوری میں (Coming January) اس کا بوریا بستر گول کر دیا جائے گا۔ سیاستدان اس قسم کے دعوے کرتے رہتے ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں۔ لیکن نئی بات یہ ہے کہ اس بار پی ٹی آئی اور فوج ایک صفحے پر ہیں۔ اپوزیشن کو حکومت کا نہیں فوج کی مخالفت کاسامنا ہے۔ان کے سزا یافتہ لیڈر ببانگِ دہل کہہ چکے ہیں کہ ان کی جنگ حکومت کے خلاف نہیں، بلکہ ان لوگوں کے خلاف ہے جو اس حکومت کو لے کے آئے ہیں۔
ہمارے ایک بزرگ (رشتے میں تایا کہہ لیجئے) سدا بہار انسان تھے۔ بہت لکھے پڑھے،تصوف اور شعر و شاعری کے رسیا لیکن حسن پرستی میں بھی اپنی مثال آپ۔ فربہ اندام خواتین ان کے نزدیک دنیا کی حسین ترین مخلوق شمار ہوتی تھیں۔ کسی موٹی اور جواں سال عورت کو دیکھتے تو ریشہ خطمی ہو ہو جاتے۔ ان کو روزانہ ڈائری لکھنے کی عادت بھی تھی۔ ان کے بیٹے ہمارے عم زاد بھی تھے، کلاس فیلو بھی اور یارِ جانی بھی۔ وہ سکول میں آکر ’تفریح‘ کے پیریڈ میں اپنے والد بزرگوار کی ڈائری کے اوراق سنایا کرتے تھے۔ ہمارے زمانے میں ساتویں آٹھویں کلاس کے طلباء کی اردو زبان پر دسترس کافی مضبوط ہوا کرتی تھی۔ ایک روز وہ بولے: ”جیلانی یار!…… یہ ابا جی کی ڈائری میں ہر ہفتے ’لہروں‘ کا ذکر بہت ہوتا ہے۔ یہ بتاؤ کہ ان کے جغرافیائی معانی جو ماسٹر ’چینی جادوگر‘ نے بتائے ہیں ان کا تعلق ان لہروں سے کیا ہے؟“……
ہم نے سکول میں ہر ماسٹر صاحب کا ایک عرفی نام رکھا ہوا تھا مثلاً ماسٹر ہاتھی (جو بہت موٹے تازے تھے)،ماسٹر تِیلا (جو تنکے کی طرح دبلے پتلے تھے)،مولوی ڈگڈی (جو ہمارے عربی زبان کے استاد تھے اور بہت اونچی آواز میں اپنے ’ہونہار طلباء‘ کو دشنام نما مغلظات سنایا کرتے تھے) اور ماسٹر چینی جادوگر (جو اپنے نقوشِ رخ کی وجہ سے بالکل چینی لگتے تھے اور ہر وقت ہاتھ میں دو فٹ کی ایک چھڑی پکڑ کر اس کو گھماتے رہتے تھے) ان کو وہم تھا کہ طلبا اس چھڑی کی وجہ سے ان سے خوف کھا کر ان کا آموختہ فراموش نہیں کریں گے۔ وہ ہمیں جغرافیہ پڑھاتے تھے۔ اسے اتفاق سمجھیں کہ ان دنوں وہ ’طبعی جغرافیہ‘کے سبق میں سمندری روئیں (Currents) اور لہریں (Waves) کا باب پڑھا رہے تھے…… ہم لیبریڈار کی ’سرد رو‘ اور جنوبی افریقہ کی ’گرم رو‘ کے اسباق یاد کیا کرتے تھے۔ جب ہمارے ’عم زاد“ نے اگلے روز اپنے والد کی ڈائری بستے سے نکال کر ہمیں دکھائی تو اس میں لکھا تھا: ”آج ڈھکی میراں شاہ سے اتر رہا تھا کہ ایک فربہ اندام خاتون نظر آئی۔ رنگ روپ سرخ و سفید تھا اور جاذب نظر بھی تھی۔ ان کو دیکھنا تھا کہ فوراً ’گرم لہر‘ میں ہوا۔ اور اس کے نزدیک پہنچ کر اس سے پوچھا: ’بی بی! آپ کو پہلے بھی کہیں دیکھا ہے۔ آپ فرید کوٹ میں تو نہیں رہتیں۔
میرا خیال ہے، وہیں آپ کو دیکھا تھا‘…… یہ سن کر بی بی نے جواب دیا: ’بھائی جان! میرا بڑا بھائی فلک شیر خان بالکل آپ کی طرح کا گول مٹول ہے۔ رنگ کا سانولا ہے لیکن آپ تو زیادہ ہی سانولے ہیں۔ اور آپ کی ناک بھی ان سے موٹی ہے۔ ہم بھائی جان کو ’پکوڑا بھائی جان‘ کہتے ہیں۔آپ کے رشتے داروں نے آپ کا کیا نام رکھا ہوا ہے‘…… یہ سننا تھا کہ فوراً گرم لہر سے سرد لہر میں ہوا۔ شام کی نماز میں دو نفل توبہ ادا کئے کہ آئندہ کسی موٹی عورت کو للچائی نظروں سے مت دیکھو وگرنہ ’پکوڑا بھائی جان‘ بن جاؤ گے!“
وہ بزرگ یہ ڈائری موٹی نب (Nib)اور سیاہ روشنائی سے لکھا کرتے تھے۔ ہم خود بھی اپنی سکول کی کاپیوں میں اردو زبان کی لکھائی زیڈ (Z) کی موٹی نب اور چراغ روشنائی سے کیا کرتے تھے۔ لالہ موسیٰ میں بنی ہوئی چراغ روشنائی کی پڑیا ایک پیسے کی ملا کرتی تھی۔ میں نے ڈائری کی عبارت پڑھی تو ماسٹر چینی جادوگر کی گرم رو اور سرد رو کی یاد آئی اور عم زاد سے پوچھا: ”کیا آپ کے والد نے فزیکل جغرافیے کا وہ باب بھی پڑھا تھا جو ہم آج کل پڑھ رہے ہیں؟…… اور اس میں گرم رو اور سرد رو کا ذکر ہے؟“ اس نے سن کر جواب دیا: ”ارے یار! وہ گرم رو ہے اور اس ڈائری میں گرم لہر لکھا ہوا ہے۔ کیا ماسٹر صاحب نے رو (Current) اور لہر (Wave) کا فرق نہیں بتایا تھا؟“…… میں یہ سن کر سوچنے لگا۔ اتنے میں گھنٹی بجی اور تفریح کا پیریڈ تمام ہوا اور ہم نے جلدی جلدی اگلے پیریڈ کے لئے کلاس روم کا رخ کیا۔
قارئین گرامی! میں نے عمداً یہ سطور اپنی اور آپ کی بوریت دور کرنے کی غرض سے لکھی ہیں۔ میڈیا پر صبح و شام و شب جو کچھ آن ائر کیا جا رہا ہے یا جو کچھ اخباروں کی زینت بنایا جا رہا ہے وہ قارئین و ناظرین و سامعین کی فرسٹریشن میں اضافہ کر رہا ہے۔ یہ اضطراب اور یہ بے کلی اس تسلسل سے ہمارے سامنے پھیل رہی ہے کہ ہمارے چہروں سے مسکراہٹ غائب ہوتی جا رہی ہے۔ پہلے ٹی وی چینلوں پر کبھی کبھی مزاحیہ مشاعرہ بھی دیکھنے اور سننے کو مل جاتا تھا۔ اخباروں میں ہفتہ میں ایک دو مزاحیہ اور طنزیہ کالم پڑھ کر زیرِ لب مسکراہٹ کا سامان ہو جایا کرتا تھا۔ ایسے ڈرامے بھی نشر ہوا کرتے تھے کہ جن کے سکرپٹ اور اداکاروں کی اداکاری کا معیار ہر کہ و مہ کو لبھاتا تھا اور لوگ ہفتہ بھر اگلی قسط کا انتظار کیا کرتے تھے۔ لیکن اب دنیا نیوز کے ’حسبِ حال‘ کی طرح کے پروگرام تقریباً ہر ٹی وی چینل دکھا اور سنوا رہا ہے لیکن کئی ایک کو سن اور دیکھ کر فرحت کی بجائے کراہت محسوس ہوتی ہے۔ یہ زوال اس پس منظر میں اور بھی کھٹکتا ہے کہ ہم نے سیاسی ٹاک شوز کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے۔ یہ سیاسی پروگرام دیکھ اور سن کر بقول کسے آدھا پاکستان ’واہ واہ‘ کی رٹ لگاتا ہے تو آدھا ’آہ آہ‘ کرتا نظر آتا ہے!
گھر میں کوئی مہمان آتا ہے یا آپ کسی کے ہاں جاتے ہیں تو موضوعِ زیر بحث سیاست ہوتی ہے۔ سیاسیات کی یہ لبریزی (Saturation) ہمیں کہاں لے جائے گی اس کا اندازہ ہم میں سے کسی کو بھی نہیں۔
میں ملک کی مسلح افواج بالخصوص آرمی کی قوتِ برداشت کی داد دیتا ہوں کہ وہ اشتعال میں نہیں آتی۔ اس نے حکومتِ وقت کا ساتھ دینا ہوتا ہے۔ اگر ماضی میں فوج اور حکومت کے کرتا دھرتا لوگوں میں اتحاد اور ایکتا کا فقدان تھا تو دونوں فریق اس کے ذمہ دار ہیں۔ سنجیدہ دماغوں میں یہ مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے کہ سیاسیات کو ڈی ملٹرائز کیا جائے۔ اگر آرمی کو اپنے کسی وزیراعظم سے کوئی پرخاش ہے تو وہ ذاتی (Subjective) نہیں،معروضی (Objective) ہونی چاہیے۔ فوج، حکومت کا ایک ماتحت ادارہ ہے لیکن یہ ایسا ”ماتحت“ ہے جو غلام بن کے نہیں رہ سکتا۔ وزیراعظم کو چاہیے کہ وہ اس ماتحت کے تحفظات دور کرے۔ اس کا نقطہ ء نظر سنے، اس پر بحث و مباحثہ کا دروازہ بند نہ کرے اور اپنے اوپر تنقید سننے کا حوصلہ پیدا کرے۔ یہ چلن ساری دنیا میں جاری و ساری ہے۔
گلگت بلتستان میں انتخابات کی مہم زوروں پر ہے۔ مریم نواز صاحبہ یہ اعلان کر رہی ہیں کہ وہ لالک جان شہید (نشانِ حیدر) کی سرزمین میں آکر فخر محسوس کررہی ہیں۔ان کو یہ بھی بتانا چاہیے کہ وہ تنظیم جو لالک جانوں کی پرورش کرتی ہے، جس کی گود میں لالک جان پلتے ہیں اور جو لالک جانوں کو جان پر کھیلنے کے قابل بناتی ہے اس کا بھی کوئی والی وارث ہے یا نہیں؟…… کیا اس تنظیم کا سربراہ گردن زدنی ہے؟…… کیا اس کے بارے میں زبان درازی کرکے لالک جانوں کی تخلیقِ نو کا سلسلہ جاری رہ سکے گا؟
دوسری طرف بلاول زرداری صاحب ہیں جو یہ دلیلیں دے رہے ہیں کہ ان کی پارٹی اقتدار میں آکر فوج کی تنخواہوں اور پنشنوں میں 100%اضافہ کر دیتی ہے۔ بندہ پوچھے کیا یہ اضافہ پارٹی اپنی جیب سے ادا کرتی ہے؟ کیا گلگت۔بلتستان کے لوگ اتنے ہی کودَن ہیں کہ ان کو معلوم نہیں کہ یہ لوگ (سیاسی لیڈر) اس طرح کی بڑھکیں کیوں لگا رہے ہیں۔ اس خطے میں اعلیٰ تعلیم کی کمی ضرور ہوگی، اعلیٰ عقل و دانش کی کمی ہرگز نہیں۔ میں نے ایک گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ فقدانِ تعلیم، فقدانِ دانش کا سبب نہیں ہوتا۔ تعلیم، عقل کو چمکاتی اور صیقل ضرور کرتی ہے لیکن عقل تخلیق نہیں کر سکتی کہ عقل و دانش ایک خداداد صفت ہے جو اعلیٰ تعلیم کی محتاج نہیں …… میں برسوں یہاں آیا گیا ہوں۔ گلگت بلتستان کے اس خطے میں عقل و دانش کی ہرگز کمی نہیں۔ ان کو خوب معلوم ہے کہ لالک جانوں کی تخلیق، مدرسوں کی محتاج نہیں ؎
علم میں دولت بھی ہے، قدرت بھی ہے، لذت بھی ہے
ایک مشکل ہے کہ ہاتھ آتا نہیں اپنا سراغ