”اُردو اور ترکی میں باہمی ترجمے کی روایت“
افتتاحی گفتگو میں صدر شعبہ اردو استنبول یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر خلیل طوقار نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ترکوں اور برصغیر پاک وہند کے روابط کی تاریخ کئی صدیوں پر مشتمل ہے۔ اگر ہم تاریخی پس منظر کو مد نظر رکھ کر دیکھیں تو ہمیں ترکی ا ور برصغیر پاک وہند کے تعلقات کو محکم تربنانے میں کئی روشن استعارے ملیں گے لیکن ان میں جو سب سے روشن تر استعارہ ہے وہ اردو زبان ہے۔ اردو زبان کا ذکر ہوتا ہے تو میں ہر محفل میں یہ عرض کرتا ہوں کہ زبان اردو نہ صرف برصغیر پاک وہند کی مشترکہ تہذیبی اور ثقافتی زبان ہے بلکہ وہ ہماری یعنی ہم ترکوں کی بھی اتنی ہی اپنی زبان ہے۔
ڈاکٹر یوسف خشک نے اپنی گفتگو میں ترکی اور پاکستان اور اردو کے تعلقات پر روشنی ڈالتے ہوئے خطے میں دونوں ممالک کی اہمیت پر بات کی۔تراجم سے دونوں زبانوں میں علوم کی نئی نئی راہیں کھلتی ہیں۔
ڈاکٹر صوفیہ لودھی نے ”ترکی ادب سے اردو تراجم کی روایت“کے موضوع پر گفتگو کی۔ترکی ا دب کے اردو میں تراجم کے حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے اسے ایک وقت کا اہم تقاضا قرار دیا۔
ایسوسی ایٹ پروفیسر ذکائی قارداش نے ”نمائندہ ماڈرن ترکش انڈرسٹینڈنگز اِن پاکستان:جمہوری پبلیکشنز اور فرخ سہل گوئندی“ کے موضوع پر بات کی۔
فرخ سہیل گوئندی اپنے مقالے میں غیر ملکی زبانوں کے ترجموں کی اہمت کے تناظر میں ترکی کے تراجم کے حوالے سے بات کی۔ انھوں نے کہا کہ گورنمنٹ آف پاکستان کے ساتھ تمام لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ اردو کے ساتھ ترکی کے لوگوں کو بہتر طریقے سے متعارف کرائیں۔ انھوں نے کہا کہ جو پاکستان کے لوگ ہیں وہ ترکی کے قریب آگئے ہیں،اس میں ا دب کا بڑا حصہ ہے۔ ادب سے پتہ چلتا ہے کہ ان کا اوڑھنا بچھونا کیسا ہے رہن سہن کیسا ہے۔
دوسرے سیشن میں ماڈیریٹر ڈاکٹر محمد کامران تھے۔گیسٹ آف آنرز میں پروفیسر ڈاکٹرخواجہ محمد اکرام الدین اور پروفیسر ڈاکٹر سعادت سعید شامل تھے۔
ڈاکٹرسعادت سعید نے کہا:میں آہستہ آہستہ نظموں کے ترجمے کر رہاں ہوں یاشر کمال کو پورے طور پر ترجمہ کرنا مشکل ہے۔یاشر کمال کی علیحدہ ڈکشنری بنی۔ انھوں نے مختلف ا سلوب کے ناول لکھے ہیں اس لیے ان کا ترجمہ کافی مشکل ہے۔ انشاء اللہ جب ترکی پہ عبور ہوگا تب میں یہ ترجمہ پڑھوں گا۔ اوحان پاموک کے ترجمے بھی اہم ہیں مگر یاشر کمال کے ترجمے زیادہ مشکل ہیں۔ پاکستان میں افتخار جالب ایک ایسا شاعر کا جس کا اسلوب مشکل ہے۔ عمومی ترجمہ مشینی ترجمہ مشکل نہیں۔مگر وہ ترجمہ مشکل ہے جو کہ اسالیب کی فہم کے حوالے سے ہو۔
بھارت سے پروفیسر ڈاکٹرخواجہ محمد اکرام الدین نے ”غیرملکی زبانوں کے تراجم کی اہمیت:حقائق اور تجاویز“ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے، تراجم کی ضرورت، مشکلات اور ثمرات پر بات کی۔ اس حوالے سے انھوں نے مفید مشورے اور تجاویز بھی پیش کیں۔
مقالہ نگاروں میں پروفیسر جلال صوئدان نے”ہیومین لینڈ سکیپزفرام مائی ہوم ٹاؤن انڈر ٹرانسلیشن“ کے موضوع پر بات کرتے ہوئے تراجم کی اہمیت کو اجاگر کیا۔
ڈاکٹر نوریے بلک نے ”اردو میں ترکی ادب سے پہلی ترجمہ شدہ کہانی“ کے حوالے سے اردو زبان میں ترکی کے تراجم کی ابتدا پر روشنی ڈالی۔
تیسرے سیشن میں ماڈیریٹر ایسوسی اٹ پروفیسر ذکائی قارداش تھے۔ اس سیش کے گیسٹ آف آنرز میں پروفیسر محمد کامران نے انٹر نیٹ اور اردو کے مستقبل پر بات کی۔ انھوں نے کہا کہ اکیسویں صدی میں جو سب سے خوبصورت چیز ہے کہ ہماری زندگی کا دائرہ پھیل گیا ہے اب یہ عالمی گاؤں ہے اس کے کچھ ا ور تقاضے ہیں اب علم بھی کسی ایک قوم کی میراث نہیں رہا انٹرنیٹ کے ذریعے علم بھی پوری دنیا میں پھیل رہا ہے۔
اب تہذیبوں کا ٹکراؤ مکالمے کی شکل اختیار کررہا ہے۔ ترکی ا ور پاکستان کا ایک خوبصورت تعلق ہے اس کی خوشبو ہے۔جب تک تراجم کا دروازہ نہیں کھلتا علم کا دروازہ نہیں کھلتا،بات حل نہیں ہوتی۔لاہور اور استنبول میں جو یگانگت ہے وہ مجھے لاہور میں استنبول چوک میں دکھائی دیتی ہے۔اس محبت کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔
گیسٹ آف آنر جناب فاروق عادل نے کہا کہ قرآن کریم کے تراجم بار بار ہوتے ہیں۔غالب کے تراجم بھی ہوتے ہیں۔ عقیدت اور محبت کے اظہار کے لیے۔ کوئی مقصد پورا ہو یانہ ہو یہ علمی سرگرمی تو ہے۔ کسی معاملے کا اس کی تاریخ کے حوالے سے جائزہ لینا بھی بہتر ہے۔علامہ ا قبال کی نظم کا ترجمہ کرکے سعادت سعید نے نیک نامی کمائی۔ معاشرے میں کئی تبدیلیاں ہوئی ہیں جس کا تعلق معاش سے ہے۔
گیسٹ آف آنر پروفیسر ڈاکٹر ضیاء الحسن نے کہا کہ مجھے اوحان پاموک کے ناولوں کے بارے میں بات کرنی ہے اگرچہ اردو اور ترکی زبان کا ادب اس کی رفتار ہمیں ایک جیسی معلوم ہوتی ہے۔ جیسے خلیل طوقار نے جدید ترکی شاعری کے ترجمے کیے اس سے معلوم ہوا کہ جدید ادب کی لہر ہمیں اردو کے ساتھ ساتھ ترکی میں بھی نظر آتی ہے۔ یہ لہر اسالیب کے حوالے سے بھی ہے اور اصناف کے حوالے سے بھی۔ ہم ترک کے ادب سے ناواقف رہے جب تک کہ اوحان پاموک کو نوبل انعام نہیں دیا گیا اس سے ہمارے ذہنی غلامی کا اندازہ ہوتا ہے۔
مقالہ نگاروں میں ڈاکٹر محمد راشد نے ترکی اردو زبان وادب کے تراجم کے مقاصد پر بات کی۔ریسرچ اسکالر خدیجہ گورگون نے ڈاکٹر خلیل طوقار کے فارسی اردو تراجم پر سیر حاصل بات کی۔ خلیل طوقار نے فارسی اردو تراجم کے حوالے سے جتنا کام کا ہے وہ قابلِ تعریف ہے، ان کی 53کتابیں شائع ہوچکی ہیں جن میں سے اکثر تراجم کی کتابیں ہیں۔
چوتھے سیشن کے ماڈیریٹر فاروق عادل تھے۔ گیسٹ آف آنر ڈاکٹر اشرف کمال نے ایلف شفق کے ناول پہ بات کرتے ہوئے کہا کہ اس ناول میں اسلامی تصوف کے حوالے سے منطق اور عشق کی بحث کو ایک نئے انداز میں پیش کیا گیا ہے۔اسے صرف عشق اور محبت کی عام سی داستان نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ اس میں ایک قسم کا آفاقی جذبہ پوشیدہ ہے جسے انسان سے اور کائنات کے وجود سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔محبت کے چالیس اصول میں محبت کے آفاقی جذبے کو بیان کیا گیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ محبت صرف ایک کشش ہے اور زندگی کا مکمل ضابطہ بھی جس کی جتنی تفاسیر بیان کی جائیں کم ہیں۔اس ناول میں دو صدیوں کی کہانی کو جس طرح جوڑ کر آپس میں ملایا گیا ہے وہ ناول نگار کی فنکارانہ خلاقی ہے۔اس کی کہانی رومی اور شمس تبریز کے دور کو موجودہ زمانے کے ساتھ ہم رنگ کیا گیا ہے۔ناول میں پیش کیا گیا خیال، اسلوب اور پھر اس کی اردو میں پیشکش بڑی اہمیت رکھتی ہے۔
لندن سے گیسٹ آف آنر فہیم اختر نے اردو اور ترکی میں باہمی ترجمے کی روایت کے موضوع پر بات کی۔انھوں نے کہا کہ جو رائٹر لندن میں اردو کا کام کر رہے ہیں انھیں ترجمے میں کیسے لایا جائے۔ پاکستان کے ساتھ ہندوستان کی بھی بات کی جائے وہاں بھی اردو میں کام ہورہا ہے۔کلکتہ جائیں بنگال جائیں جتنا کام ہوا ہے اہم ہے۔اردو میں بائبل سے ترجمے کا کام شروع ہوا۔ ترجمے کا کام ابتدا ہی سے ہورہا ہے۔ ترجمے کی مانگ شروع ہی سے جاری ہے اب زیادہ ہوگئی ہے۔ کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جنھیں ترجمہ کرنا مشکل ہوتا ہے آپ غالب کو لے لیں کتنے لوگوں نے ان کا ترجمہ کیا ہے۔اردو کے بہت سے لفظ،ملتے جلتے ہیں۔اسی طرح ترکی کے بے شمار نام ہیں جو کہ اردو میں مشترک ہیں۔
ڈاکٹر خلیل طوقار نے ترکی میں اقبال کے تراجم پر بات کی کہ اقبال ایک ایسا شاعر اور مفکر ہے جس نے نہ صرف ہندوستان بلکہ دوسرے ممالک کے ادب اور فکر پر بھی اثرات مرتب کیے۔خلیل طوقار نے کہا کہ میری ہمیشہ سے یہی کوشش ہوتی ہے کہ اردو زبان کو ترکی میں مقامی سطح پر متعارف کرائیں۔
اسسٹنٹ پروفیسرڈاکٹر آرزو سورین نے ”اے لائف ڈیڈیکیٹڈ ٹو ٹرانسلیشن: اطہر شیخ اینڈ اردو ٹرانسلیشن“ کے عنوان پر بات کرتے ہوئے پاکستان اور ترکی کے تراجم کے حوالے سے گفتگو کی۔
ریسرچ اسکالر محسن رمضان نے اردو سے ترکی میں ہونے والے نمائندہ اسلامی تراجم کے موضوع پر بات چیت کی۔
سعادت سعید نے کہا کہ ترکی زبان اور اردو زبان کا بڑا گہرا تعلق ہے۔ یہاں اردو لشکر کے معنوں میں ہے اردو میں زبان کے۔ اردو کو لشکری زبان بھی کہا جاتا ہے۔یہاں ترکی میں اردو کی خدمت ہوئی اور ترکی زبان کے تراجم بھی کیے گئے اردو میں۔ ڈاکٹر داؤد رہبر سب سے پہلے آئے ترکی میں اردو چیئر پہ۔پھر طاہر فاروقی، ڈاکٹر حنیف فوق، ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار، ڈاکٹر عبادت بریلوی،ڈاکٹر اے بی اشرف، ڈاکٹرانوار احمد،اورمیں (سعادت سعید)بھی یہاں رہا۔ ان سب نے مقامی اساتذہ کے ساتھ مل کر اردو اور ترکی دونوں کے باہمی تراجم کیے ہیں۔
اقبال پر بہت سا کام ہوا۔ جلال صوئیدان نے اقبال کے پورے اردو کلام کو ترکی میں منتقل کیا۔ خلیل طوقار نے اردو شعراء کی شاعری کو ترکی میں ترجمہ کیا۔
ن م راشد کی نظموں کو انھوں نے سمجھا بھی ہے اور سمجھایا بھی۔ یہ اردو کی بڑی خدمت کر رہے ہیں۔ درمش بلگور نے بھی کافی کام کیا ہوا ہے۔محمد عاکف اورا قبال کا تقابلی مطالعہ بھی کیا جاتا ہے۔ محمد عاکف نے ایک دوست کو خط لکھ کو جس طرح اقبال کی تعریف کی اس کی وجہ سے اقبال کو یہاں بڑی شہرت ملی۔عاکف ہو، اقبال ہو یا رومی ہو سب نے روحانیت کی بات کی۔
ڈاکٹر محمد کامران نے اس کانفرنس کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ میں اس کامیاب سیمینار کے اختتام پر تمام اساتذہ اور پوری ٹیم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ جب تک ہم وقت کے تقاضوں کو نہیں سمجھیں گے دنیا ہم پر اپنا دروازہ نہیں کھولے گی۔ ہمارے ترک بھائی ہمیشہ ہمارے ساتھ جڑے ہوئے ہیں،ساتھ کھڑے ہوئے ہیں، ساتھ کھڑے رہیں گے۔ یہ محبت کا سفر ہے۔
ابھی ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔ ہم اپنے حصے کا چراغ جلانے والے ہیں۔
ڈاکٹر جلال صوئیدان نے کہا کہ میں سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں ترجمے کے حوالے سے جو کچھ کہا گیا اس سے ہم مستفید ہوں گے۔ ہم آگے بھی اردو میں ترکی سے ترجمے کرنے کی کوشش جاری رکھیں گے، آپ سب کی دعا اور سرپرستی چاہئے۔ بار دیگرسب کا شکریہ۔
خلیل طوقار نے کہا، کہ سب شرکاء کا شکریہ کہ آپ نے رونق بخشی، اس میں نہ صرف پاکستان بلکہ انڈیا بھی ہے جس نے اردو کے لیے کام کیا۔ اردو ایک پیاری زبان ہے۔آپ سب کا بہت بہت شکریہ۔
٭٭٭
اکادمی ادبیات اسلام آباد‘پاکستان، اور شعبہ اردو استنبول یونیورسٹی ترکی کے
اشتراک سے ایک انٹرنیشنل سمپوزیم کا انعقاد عمل میں آیا
استنبول یونیورسٹی ترکی اور اکادمی ادبیات پاکستان کے اشتراک سے انٹرنیشنل سمپوزیم
سمپوزیم کے پہلے سیشن میں چیئر مین اکادمی ادبیات ڈاکٹر یوسف خشک اور
ڈین آف لینگویجز نمل یونیورسٹی ڈاکٹر صوفیہ لودھی مہمان اعزاز تھے