حکومت، اپوزیشن فرینڈلی رسہ کشی
اپوزیشن میں تھوڑی سی قربت پیدا ہوئی تو اس کا فوری نتیجہ سامنے آ گیا اور قومی اسمبلی میں ایک ہی دن حکومت کو دوبار شکست ہوئی۔ یہ قربت نجانے کب تک برقرار رہتی ہے شہباز شریف کے عشایئے اور رابطے اس قربت کو بڑھانے کا سبب ہیں مگر ہنوز دلی دور است کے مصداق یہ نہیں کہا جا سکتا، یہ قربتیں آگے چل کر برقرار بھی رہیں گی۔ یہ بات تو ثابت ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کا ایجنڈا ایک نہیں ہے، دونوں بنیادی طور پر ایک دوسرے کی حریف ہیں، البتہ اس وقت عمران خان کی وجہ سے وہ ایک ہو جائیں تو کچھ بعید نہیں لیکن اس سارے معاملے میں نوازشریف کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا وہ کیا چاہتے ہیں اور کس طرح مستقبل کی سیاست کو اپنے ڈھب سے چلانا چاہتے ہیں کسی کو کچھ معلوم نہیں، اس دوران بعض ذرائع سے یہ خبر بھی آئی ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے جارحانہ سیاست کے لئے مریم نواز کو میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا ہے اور شہباز شریف پارلیمانی سیاست کریں گے۔ کیا واقعی شہباز شریف اس پر مان جائیں گے؟ اگر بالفرض مریم نواز جلسوں میں سخت لب و لہجہ اختیار کرتی ہیں، بیک وقت وزیر اعظم عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کو نشانہ بناتی ہیں تو کیا اس کا فائدہ مسلم لیگ (ن) کو ہو سکے گا؟ شہباز شریف جو ایک سافٹ کارنر پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کیا اسٹیبلشمنٹ کی نظر میں اس کی اہمیت بڑھ جائے گی یا اس کی نظروں میں شہباز شریف بھی ایک بے اثر سیاستدان بن کر رہ جائیں گے؟
شہباز شریف کو البتہ یہ کریڈٹ تو جاتا ہے کہ وہ بکھری ہوئی اپوزیشن کو ایک مرتبہ پھر جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں اور کسی حد تک انہیں کامیابی بھی مل رہی ہے۔ وہ بلاول بھٹو زرداری کو اپنے ساتھ بٹھانے میں کامیاب رہے ہیں اور اے این پی کو منا لائے ہیں۔ آگے چل کر کیا ہوتا ہے اس کا پتہ تو بعد میں چلے گا تاہم اس میں حکومت کے لئے خطرے کی ایک گھنٹی ضرور موجود ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اپوزیشن اگر پوری طرح متحد ہو جائے تو اسمبلی کے اندر اور باہر حکومت کے لئے مشکلات پیدا کر سکتی۔ بلاول بھٹو زرداری تو ایک عرصے سے کہہ رہے ہیں تحریک عدم اعتماد کا راستہ اختیار کیا جائے، موجودہ حالات میں جب حکومت مہنگائی کی وجہ سے شدید دباؤ میں ہے اور عوامی حمایت بھی بہت کم ہو چکی ہے، اپوزیشن کی کوئی بھی مشترکہ حکمت عملی پورے سیاسی سیٹ اَپ کی جڑیں ہلا سکتی ہے۔ کل قمرالزمان کائرہ کہہ رہے تھے، پی ڈی ایم ختم ہو چکا ہے کیونکہ اس کی اصل طاقت پیپلزپارٹی تھی۔ سوال یہ ہے اگر پیپلزپارٹی واقعی متحدہ اپوزیشن بنانا چاہتی ہے تو پھر پی ڈی ایم میں شامل کیوں نہیں ہو جاتی۔ یہ بات طے ہے کہ شہباز شریف اگر پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے بلاول بھٹو زرداری کو عشایئے پر بلاتے تو وہ کبھی نہ آتے۔ انہوں نے بطور اپوزیشن لیڈر انہیں آنے کی دعوت دی تو وہ فوراً چلے آئے۔ اس کا مطلب یہ ہے چھوٹی موٹی ایڈجسٹمٹ تو ہو سکتی ہے مگر اپوزیشن کے دوبارہ متحد ہونے کی امید کم ہی ہے۔ اس سارے معاملے میں مولانا فضل الرحمن ایک ایسا کردار نظر آتے ہیں جو مانگتا بہت کچھ ہے لیکن اس کی اہمیت اتنی نہیں ہوتی۔ غالباً یہ کہنا بھی غلط نہیں ہوگا کہ پی ڈی ایم سے پیپلزپارٹی کے نکلنے کا ایک سبب مولانا فضل الرحمن کا بے لچک رویہ بھی تھا جنہوں نے سوائے استعفوں کے اور کسی بات پر رضا مندی ظاہر نہیں کی، آج بھی اگر پیپلزپارٹی سے یہ مطالبہ کیا جائے کہ وہ اسمبلیوں سے استفا دے تو یقیناً وہ اسے مسترد کر دے گی۔ جو بات قابل غور ہے وہ پیپلزپارٹی کی موجودہ سیٹ اپ میں حصہ داری ہے، وہ سندھ میں حکومت بنائے بیٹھی ہے اور اسے کسی صورت قربان نہیں کرنا چاہتی۔
وزیر اعظم عمران خان بھی ان تمام کمزوریوں کو جانتے ہیں۔ وہ اگر اپنی ایک کمزوری یعنی مہنگائی پر قابو پالیں تو شاید موجودہ اپوزیشن ان کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکتے، کہنے کو کل بھی وزراء نے کہا ہے 2023ء کے بعد بھی وزیر اعظم عمران خان ہی ہوں گے اور اپوزیشن اسی طرح واویلا کرتی رہ جائے گی تاہم فی الوقت یہ بات عجوبہ نظر آتی ہے کیونکہ عوامی سطح پر ایک واضح بے چینی موجود ہے اور لوگوں کی زندگی مہنگائی و بے روز گاری نے اجیرن کر رکھی ہے۔ کل مجھے لاہور سے شاعرہ اور ناول نگار عنبرین مشتاق بھٹی کا فون آیا جو ایک سرکاری ادارے میں ملازم ہیں انہوں نے کہا خدارا وزیر اعظم عمران خان کی توجہ اس بارے میں مبذول کرائیں کہ مہنگائی نے اچھے خاصے سفید پوش گھرانوں کی حالت بھی پتلی کر دی ہے۔ انہوں نے کہا صرف پٹرول کی مد میں ان کا خرچ چھ ہزار روپے ماہانہ سے زائد ہو چکا ہے کیونکہ انہیں روزانہ 40 کلومیٹر دور اپنے دفتر جانا پڑتا ہے، جبکہ آمدنی میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔
باقی اخراجات بھی بیس فیصد بڑھ گئے ہیں، لوگ اس وجہ سے ذہنی مریض بنتے جا رہے ہیں۔ عنبرین مشتاق بھٹی نے کہا 2018ء کے انتخابات میں ان کے پورے گھرانے نے تبدیلی کی خاطر عمران خان کو ووٹ دیا تھا آج اس پر پچھتاوا ہو رہا ہے۔ کیا وزیراعظم عمران خان کو ان حالات کا علم نہیں؟ عنبرین مشتاق بھٹی تو ایک پڑھی لکھی اور تخلیق کار خاتون ہیں، یہاں تو وہ عام عورتیں بھی جو گھروں میں کام کر کے اپنا گزارا کرتی ہیں وہ عمران خان کو ووٹ دینے کے اپنے فیصلے پر پچھتا رہی ہیں۔ میرے گھر کام کرنے والی خاتون کل اپنی چھوٹی بیٹی کے ساتھ کام کرنے آئی، میری اہلیہ کے پوچھنے پر اس نے بتایا سکول کی فیس نہ دینے کی وجہ سے وہ نہیں جا رہی اس لئے میں نے اسے اپنے ساتھ کام پر لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس پر ہم نے اسے ڈانٹا اور فیس کے پیسے دے کر بھیجا کہ کل وہ اسے ساتھ نہ لائے بلکہ سکول چھوڑ کے آئے۔
اس قسم کے حالات میں لوگ صرف ریلیف چاہتے ہیں، ریلیف ملنے کی انہیں کوئی صورت نظر نہیں آ رہی عوام تو دھڑکتے دل کے ساتھ پندرہ نومبر کا انتظار کر رہے ہیں نجانے اس روز تبدیلی سرکار تیل کی قیمت میں اور کتنا اضافہ کرتی ہے۔ اب ان حالات میں اپوزیشن کے آپس میں جھگڑے ہی ختم نہیں ہو رہے سب نے دیکھا تتر بتر اپوزیشن نے مہنگائی کے خلاف جو احتجاج کیا وہ صدابصحرا ثابت ہوا، حکومت نے اس کا ذرہ بھر اثر قبول نہیں کیا۔ اب بھی بیانات کی حد تک شہباز شریف اور بلاول بھٹو ایک پیج پر نظر آتے ہیں مگر ایسا شاید کبھی نہ ہو کہ وہ مہنگائی کے خلاف مظاہروں میں بھی ایک ٹرک پر کھڑے ہو جائیں۔ دونوں ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنائیں گے اور یہ بھی چاہیں گے عوام ان کے احتجاج میں جوق در جوق شامل ہوں۔ شہباز شریف پر ایک فرینڈلی اپوزیشن لیڈر کی جو چھاپ لگ چکی ہے، اس کی وجہ سے حکومت ان کی سرگرمیوں کو زیادہ سنجیدہ نہیں لیتی، ہاں آج مریم نواز کوئی بیان داغیں تو سارے ترجمان ان کے خلاف بیانات کی برسات کر دیں گے، مسلم لیگ (ن) کا یہ دہرا معیار بھی حکومت کے لئے غائبانہ امداد بنا ہوا ہے۔ اس لئے شہباز شریف اپوزیشن کے درمیان جتنی بھی قربتیں بڑھا لیں ہونا کچھ بھی نہیں۔