کرپشن کے مفہوم کی غلط فہمی!

 کرپشن کے مفہوم کی غلط فہمی!
 کرپشن کے مفہوم کی غلط فہمی!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


میں نے جب جب اپنے وزیراعظم عمران خان کو کرپشن کے خلاف وعظ فرماتے سنا ہے تب تب ذہن میں شدت سے یہ سوال ابھرا ہے کہ کیا دنیا میں کوئی ایسا ملک بھی ہے جس میں کرپشن نہیں ہے یا ازل سے لے کر آج تک کوئی انسانی معاشرہ ایسا بھی ہے جس میں کرپشن نام کی کوئی چیز نہیں تھی……
مجھے تاریخ دانی کا کچھ زیادہ زعم نہیں لیکن تاریخ خوانی کا ایک ادنیٰ طالب علم ضرور رہا ہوں۔ یقین کیجئے ابتدائے آفرنیش سے لے کر آج تک انسانوں کے کسی معاشرے میں کرپشن کا کبھی فقدان نہیں رہا۔ اسی کرپشن کے بطن سے بہت سے پیر پیغمبر ولی اولیا اور نیک سیرت انسان اٹھے لیکن ان میں سے کوئی ایک بھی ’کرپشن فری‘ سوسائٹی قائم کرنے یا دیکھنے میں کامیاب نہیں ہوا۔
کرپشن سے مراد صرف مال و زر کی کرپشن نہیں۔ غیر مالی کرپشن کی اقسام گنوانے لگوں تو آپ بور ہو جائیں گے۔ میرے مطابق انسان اور کرپشن ایک ساتھ پیدا ہوئے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو خدا کو کیا پڑی تھی کہ ایک لاکھ 24ہزار پیغمبر مبعوث فرماتا۔ اور میں نے جب سے یہ تعداد سنی ہے تب سے بھی ہزاروں سال پہلے پیغمبر تو پیدا ہونے ہی بند کر دیئے گئے کیونکہ آنحضورؐ جب ختم المرسلین قرار پائے تو نزول پیغمبراں کا سلسلہ ہی بند ہو گیا۔ وگرنہ نجانے کتنے ایک لاکھ 24ہزار اور ہوتے…… لیکن یقین کیجئے کرپشن کا سلسلہ بند نہیں ہوا۔ میرا خیال ہے لوگ زندہ ہوتے رہیں گے اور مرتے بھی رہیں گے لیکن جب تک خدا باقی ہے تب تک کرپشن بھی باقی رہے گی۔ خدا چونکہ ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا اس لئے کرپشن کا شیطانی کاروبار بھی ازل سے ہے اور ابد تک باقی اور قائم رہے گا۔ اقبال نے تو شاید کسی ’خودی وغیرہ‘ کے لئے یہ شعر کہا ہوگا لیکن یہ جتنا کرپشن پر صادق آتا ہے، اتنا کسی اور بھلائی یا برائی پر صادق نہیں آتا:
ازل اس کے پیچھے ابد سامنے
نہ حد اس کے پیچھے، نہ حد سامنے


عمران خان کا ایک اور نعرہ ریاست مدینہ کا احیاء بھی ہے۔ لیکن کون سی ریاستِ مدینہ؟ تاریخ اسلام بتاتی ہے کہ جب تک ختم المرسلینؐ کا وصال نہیں ہوا تب تک کرپشن کا دیو شاید بوقبیس کے پہاڑوں کے پیچھے چھپ کر اور تاک لگا کر بیٹھا رہا۔ جونہی آپؐ کا وصال ہوا، یہ دیو ایک بڑی سی زقند بھر کر عین مدینہ میں آکودا۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق کا عہدِ خلافت تو صرف دو سال رہا۔ لیکن کیا ان کی وفات کے بعد حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ یکے بعد دیگرے شہید نہیں کئے گئے؟ شہادت کی وجوہات کی تفصیل میں اترنے کے بجائے ہم صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ تینوں خلفائے راشدین جس کرپشن کی نذر ہوئے وہ آج کے مروج اور معروف معانی میں مالی کرپشن نہ تھی لیکن تھی تو وہ ’کرپشن‘ ہی۔ ان خلفائے راشدین پر جو الزامات لگائے گئے وہ سرتاسر بہتان اور جھوٹ تھے لیکن ان بہتانوں کا سلسلہ بڑی آسانی سے ’کرپشن‘ کے ان لغوی معانی سے جوڑا جا سکتا ہے جس کو مسلم امہ نے صدہا برس سے دیکھا اور اب تک دیکھتی رہی ہے…… اور یہ صرف امتِ مسلمہ کی بات نہیں، دنیا میں جتنی امتیں بھی تھیں، ادیان و مذاہب تھے اور عقائد و نظریات تھے ان سب میں کرپشن کے دور دورے رہے تھے۔ کسی بھی قوم کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں آپ کو معلوم ہوگا کہ ’کرپشن فری‘ سوسائٹی کا خیال، محال بھی ہے اور جنوں بھی…… حضرت علیؓ اور حضرت عائشہؓ کی جنگِ جمل سے لے کر حادثہء کربلا تک چلے جائیں، آپ کو کرپشن کی داستانیں سننے اور پڑھنے کو ملیں گی۔ اس کے بعد بنو امیّہ، بنو عباس، بنو فاطمیہ اور اندلس کی خلافت کے بعد ترک عثمانی خلافت کا دور آتا ہے…… اس کی تاریخ پڑھیں تو آپ کے چودہ کی بجائے پندرہ سو طبق روشن ہو جائیں گے کہ اس سب شکست و ریخت، سزا و ناسزا، نیکی بدی، خیر و شر اور نشیب و فراز کی تہہ میں کرپشن کی کوئی نہ کوئی پرت موجود تھی۔


میں عرض یہ کر رہا ہوں کہ یا تو ہم نے کرپشن کے لغوی مفہوم کو نہیں سمجھا یا اگر سمجھا ہے تو جان بوجھ کر خوفِ فسادِ خلق کی وجہ سے زبان بند کر لی ہے!…… اب عمران خان کو کون سمجھائے کہ پچھلے ساڑھے تین برسوں میں انہوں نے کرپشن مٹانے اور اس کو جڑ سے اکھاڑنے پھینکنے کا جو عَلم اٹھایا تھا کیا اس سے کرپشن کی جڑیں پاکستان میں مزید گہری نہیں ہو گئیں؟…… یہ مہنگائی اور ذخیرہ اندوزی وغیرہ کیا ”کرپشن“ کی نئی اصطلاحات سے ماورا کوئی ایسی برائیاں ہیں جن کو کرپشن سے الگ کیا جا سکتا ہے؟…… اگر یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ کرپشن اور ترقی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔


آنحضورؐ کے وصال کے بعد عربوں نے وہ کرپشن نہیں کی ہو گی جو ہماری لغت اور سوچ میں ہے لیکن اس کے مظاہرے تو آج بھی ریاستِ مدینہ میں پائے جاتے ہیں …… آج سے دو روز پہلے ریاض کی ایک بڑی خبر تھی کہ ولی عہد محمد بن سلمان کے حکم پر سعودی عرب میں 172اشخاص کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ یہ 172اشخاص عامۃ الناس میں سے نہیں۔ یہ نیشنل گارڈ، دفاع، داخلہ، خارجہ اور صحت کے اونچے اونچے عہدوں پر سرافراز لوگ تھے اور یہ سعودی عرب میں پہلی بار نہیں ہوا۔ اسی ولی عہد کے دور میں کئی بڑی اہم اور بین الاقوامی حلقوں میں معروف شخصیات کو گرفتار کیا گیا۔ ان سے ’مالِ مسروقہ‘ برآمد بھی کر لیا گیا لیکن پھر ان کو چھوڑ دیا گیا کہ ”جاؤ جوانیاں مانو اور موجیں اڑاؤ“۔ وہ گرفتاریاں اور اب حالیہ ایام کی گرفتاریاں ملک سے کرپشن کو ختم کرنے کی غرض سے کی گئیں …… پہلی گرفتاریوں کی تعداد 72بھی نہیں تھی لیکن موجودہ گرفتاریوں کی تعداد تو 172ہے۔ کیا کسی گرفتاری یا سزا یا چوری کے مال کی بازیابی سے کرپشن کی ”مقدار یا تعداد“ کم ہوئی؟…… ہرگز نہیں ……!اسی لئے میں نے عرض کیا تھا کہ: نہ حد اس کے پیچھے نہ حد سامنے۔


یہ تو اس ریاستِ مدینہ کا موجودہ حال ہے جس کی پیروی کو وزیراعظم عمران خان نے حرزِ جاں بنا رکھا ہے۔ لاہور میں چینی کے ذخیرہ اندوز یا سندھ میں گندم کے ذخیرہ اندوز بڑی وافر تعداد میں پائے جا رہے ہیں لیکن غریب عوام مہنگائی کا رونا رو کر میڈیا کے پرائم ٹائم کی آبیاری کرتے ہیں یا PDM کے رہنما نشستندو خوردندد برخاستند کی کارروائی مکمل کرکے دسمبر کی کوئی تاریخ دے دیتے ہیں …… ہاں البتہ سال اور سن کا ذکر نہیں کرتے!
اُدھر مسلم امہ کی سب سے طاقتور اور مال دار ریاست سعودی عرب کا یہ حال ہے تو دوسری طرف دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت (انڈیا) کا حال بھی کچھ مختلف نہیں۔ کل ہی ایک طیارہ ساز کمپنی ڈسالٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے 75لاکھ یورو کا ”خفیہ کمیشن“ اسی شخص کو ادا کیا ہے جو آگسٹا ویسٹ لینڈ طیارہ ساز کمپنی میں 36لڑاکا طیاروں کی فروخت میں ملوث تھا۔ اس کی تفصیل میڈیا پر دیکھی جا سکتی ہے۔ کیا یہ کرپشن نہیں؟ اگر ہے تو پھر جس ملک نے رشوت دی ہے وہ بھی کرپٹ ٹھہرا اور جس نے لی ہے وہ بھی کرپٹ ہے۔ اسلحہ جات کی سیلز میں اگر کِک بیک یا کمیشن روا ہے تو باقی اشیائے خرید و فروخت میں روا کیوں نہیں؟…… اور یہ فرانس اور انڈیا یا اٹلی کی بات نہیں۔ سارا یورپ، ایشیا، افریقہ، امریکہ اور آسٹریلیا اسی ”دھندے“ میں ملوث ہیں۔


یہ بڑے بڑے اور جدید ترقی یافتہ ممالک اگر آج ترقی کے بامِ عروج پر ہیں تو یہ سب کرپشن کی برکتیں ہیں۔وہ اقوام اس کو کرپشن نہیں ”تجارتی ضرورت“ کا نام دیتی ہیں۔ لیکن ہم اور ہمارا وزیراعظم نجانے کس کرپشن کی بات کرتا ہے…… سوال ہے ملک کو آگے لے جانے کا…… عوام کو خوشحال بنانے کا…… دفاع کو مضبوط کرنے کا…… تجارتی حجم بڑھانے کا…… کرپشن کا پیسہ استعمال کرکے مزید کرپشن کمانے کا…… اور ملک کے باقی محکمہ جات سب کے سب اسی کرپٹ کلچر کے پیروکار ہیں۔ ساڑھے تین سال کے بعد اگر خان صاحب کو ہوش آ جائے کہ کرپشن پاکستان کا مسئلہ نہیں …… جو ہو چکا وہ ہو چکا…… اسے بھول جائیں …… اور خواہ مخواہ عوام کوگمراہ نہ کریں۔ صرف اس بات کو سمجھیں کہ کوئی ملک، کوئی معاشرہ اور کوئی قوم ترقی کی سیڑھی پر چڑھتی ہے تو اس کے سارے زینے (Steps)زمین سے لے کر چھت تک کرپشن کی بدولت بنائے اور قائم کئے جاتے ہیں۔ اللہ بس، باقی ہوس!!……
اس دنیا کی ریت یہی ہے کہ کرپشن کرو لیکن اپنے عوام کو جینے کا سہارا دو۔ خواہ وہ ریاست مدینہ ہو یا ریاستِ پاکستان سب کا ماٹو یہی ہونا چاہیے کہ:
نہال اس گلستاں میں جتنے بڑھے ہیں 
ہمیشہ وہ نیچے سے اوپر چڑھے ہیں 

مزید :

رائے -کالم -