ملک میں سیاسی انتہا پسندی عروج پر ہے

  ملک میں سیاسی انتہا پسندی عروج پر ہے
  ملک میں سیاسی انتہا پسندی عروج پر ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 عمران خان کو انداز سیاست بدلنا ہوگا۔ ذاتیات پر حملے تو ہو ہی رہے تھے اب شخصیات پر حملے بھی ہونے لگے ہیں یار مجھے تو عمران خان پر قاتلانہ حملے کا بہت افسوس ہوا ہے تمہیں نہیں ہوا؟ مجھے بھی ہوا ہے لیکن مجھے عمران خان پر حملے کی بجائے اس نوجوان کی موت  پر زیادہ افسوس ہوا ہے جو اپنے خاندان کا واحد کفیل تھا ویسے مجھے یہ بڑا اچھا لگا ہے کہ فواد چودھری سوگوار خاندان کے ہاں گئے تھے اور افسوس کرنے کے علاوہ اسے بھاری مالی امداد دینے کا بھی کہا ہے، کیا فواد چودھری مالی مدد والا وعدہ پورا کریں گے؟لگتا نہیں ہے کیونکہ ابھی تک ٹیلی تھون کے ذریعے سیلاب زدگان کے لئے جمع کئے جانے والے اربوں روپے کا کوئی پتہ نہیں چلا کہ وہ کہاں گئے اور وہ توشہ خانے سے پانچ کروڑ میں خرید کر 22کروڑ روپے میں بیچے گئے تحفوں کا منافع بھی پوری طرح زیر بحث نہیں آیا تو اس صورت حال سے کیا یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ تحریک انصاف فائرنگ میں جاں بحق  ہونے والے نوجوان کے خاندان کی مالی مدد  کرے گی اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آزادی مارچ پر خرچ ہونے والی رقم کا روزانہ کا تخمینہ 35لاکھ روپے لگایا گیا ہے اور سیانے لوگ کہتے ہیں یہ خرچہ مزید بڑھ سکتا ہے۔
ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں، اس صورت حال سے عمران خان پریشان ہیں کیونکہ 126 دن کے دھرنے میں تو اس کے سارے اے ٹی ایم (علیم خان،جہانگیر ترین اور فیصل واؤڈا اور وہ تمام خفیہ ذرائع جو منظر عام پر نہیں آئے) بڑی باقاعدگی سے کام کر رہے تھے جبکہ اب مندرجہ بالا پائے کا کوئی ایک بھی اے تی ایم آن بورڈ نہیں ہے۔
”ارے واہ تمہاری انفرمیشن تو بڑی کمال ہے؟


”اور سنو عمران خان نے بطور وزیراعظم توشہ خانہ، فارن فنڈنگ اور دیگر ذرائع سے جو روپیہ جمع کیا تھا اس کو خرچ کرنے سے انکار کر دیا ہے اور اب وہ اسلام آباد مارچ کی قیادت شاہ محمود قریشی کو سونپ رہے ہیں۔ مبصرین کا اندازہ ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دوبارہ شروع ہونے والے لانگ مارچ میں لوگوں کی آمد توقع سے کم ہو گی کیونکہ ایک تو موسم سردیوں کی طرف رواں رواں ہے دوسرا مارچ میں شامل دیہاڑی دار اپنے معاوضے سے مطمئن نہیں ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ پنجاب پولیس کے بارے میں تحریک انصاف کے بعض رہنما جو بیان بازی کر رہے ہیں ان سے پولیس کے اعلیٰ افسر اور چھوٹے عہدے دار و ملازمین انتہائی نالاں ہیں یہاں تک ایف آئی آر کے معاملے کو جو عمران خان نے غیر ضروری طور پر انتہائی طول دیا، اس سے وزیراعلیٰ پنجاب بھی تحریک انصاف کے ساتھ ایک پیچ پر نہیں رہے اور عمران خان کا ساتھ بادلِ نخواستہ دے رہے ہیں اس لئے دوبارہ مارچ شروع ہونے کی صورت میں پولیس پوری طرح ان کا ساتھ نہیں دے گی۔ بے چاری پنجاب پولیس کا اس وقت یہ حال ہے کہ اس کو تو وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ بھی لعن طعن کر رہے ہیں کہ وہ جلاؤ گھیراؤ اور راستے بند کرنیوالوں کو روکنے کی بجائے ان کو تحفظ دے رہی ہے اور رانا ثناء اللہ نے صرف پولیس کو ہی نہیں صوبائی حکومتوں کو بھی اس امر کا ذمہ دار قرار دے دیا ہے کہ ان حکومتوں کی حدود میں جو ہنگامے ہو رہے ہیں، جلاؤ گھیراؤ سے راستے بند کرکے عوام کو پریشان کیا جا رہا ہے اس کو روکنا ان کی آئینی ذمہ داری ہے۔ یہ حکومتیں جو اس سلسلے میں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں تو وفاق کسی وقت بھی اس صورت حال پر اپنا آئینی حق استعمال کر سکتا ہے انہوں نے حالیہ پریس کانفرنس میں یہ واضح کر دیا ہے کہ کل وفاق نے اپنا کوئی آئینی حق استعمال کیا تو یہ لوگ سپریم کورٹ کا رخ کریں گے  بہتر ہے کہ سپریم کورٹ ابھی سے ان کے بارے میں نوٹس لے کر کارروائی کا آغاز کرے۔عمران خان نے کمال ہوشیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے لانگ مارچ کی قیادت شاہ محمود قریشی کے سپرد کرنے کی جو چال چلی ہے اس سے وہ تحریک انصاف کے کسی بھی غیر آئینی اقدام بری الزمہ قرار نہیں دیئے جا سکتے کیونکہ جو ملک میں بدامنی کی فضا پھیلی ہوئی ہے اس سب سے بڑی ذمہ داری عمران خان پر ہے اس لئے ایک بڑی دھانسو قسم کی ایف آئی آر ان  کے خلاف بھی درج ہونی چاہیے۔
فوج کے ایک اعلیٰ عہدے دار پر الزام تراشی کے نتیجے میں اس ادارے کی طرف سے بھی حکومت کو عمران خان کے خلاف کارروائی کے لئے خط لکھ دیا گیا ہے اور حکومت نے اس خط پر ایکشن کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا بھی شروع کر دیا ہے۔
یار یہ تو بڑی فکر مندی کی بات ہے؟


وہ تو ہے لیکن اس سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ 6ماہ سے سڑکوں پر خجل خوار ہونے کے باوجود عمران خان نے خود کو بدلنے کی بجائے اداروں پر مسلسل دباؤ ڈالنے کی فکر میں ہر حد سے تجاوز کیا ہے اور قاتلانہ حملے کے سلسلے میں اس نے جو کچھ کہا یہ نہ صرف حماقت کی انتہا ہے بلکہ قابل مذمت بھی ہے یہی وجہ ہے کہ مختلف شہروں سے فوج کے حق میں ریلیاں نکالی جا رہی ہیں اور پاک فوج زندہ باد کے نعرے لگائے جا رہے ہیں۔ اس صورت حال سے تحریک انصاف کے متعدد رہنماؤں نے عوام سے آنکھیں چرانا شروع کر دی ہیں اور ان کے چہروں پر ابھی سے ہوائیاں اڑنے لگی ہیں اور جب سے کابینہ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ایسے اشخاص کے خلاف بھی انضباطی کارروائی کی جائے گی جو جلاؤ گھیراؤ،راستہ روکنے،املاک کو نقصان پہنچانے میں ملوث ہیں تو نام نہاد جانثاروں نے خود کو روپوش کرنا شروع کر دیا ہے۔ اب تحریک انصاف کے کارکنوں اور رہنماؤں پر جب چاروں طرف سے یلغار ہو گی تو ان کو اپنی حماقتوں کا احساس ہوگا اور وہ جان لیں گے کہ انتہا پسندی کا نام سیاست نہیں ہے۔ اب تک حکومت اور اداروں کی طرف سے ان کی ہمہ گیر بدکلامی کے خلاف نرمی برتی گئی اس کو عمران خان نے اپنی فتح اور اداروں اور حکومت کی کمزوری سمجھ لیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ہر آنے والا دن ان کے بیانات کی وجہ سے سیاست کو زہر آلود کر رہا تھا۔ اس ہلا ہل کو پابند سلاسل کرنے کا وقت قریب آ چکا ہے۔


عمران خان کو جان لینا چاہیے کہ سیاست گالی گلوچ،ہلڑ بازی، جلاؤ گھیراؤ، پکڑو اور مارو، دوسروں کو بُرا بھلا کہو، پگڑیاں اچھالو کا نام نہیں ہے۔ عمران خان کو جان لینا چاہیے کہ آج ان کو سیاست میں جو مقام حاصل ہے کل نہیں رہے گا جو مل رہا ہے کل اتنا بھی نہیں ملے گا کیونکہ آنے والے عام انتخابات کے نتیجے میں وہ لوگ اقتدار کے مستحق کہلائیں گے جن کو وہ چور اور ڈاکو کہہ کر اپنے سفلی جذبات کی تسکین کرتا ہے اس لئے کہ مسلم لیگ (ن) کا انداز سیاست شریفانہ اور مدبرانہ ہے۔
صادق ہوں اپنے قول میں غالب خدا گواہ
کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے

مزید :

رائے -کالم -