بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں ریلوے سٹیشن پر ہونے والے خود کش حملے میں خاتون سمیت 28 مسافر شہید جبکہ60سے زائد زخمی ہوئے۔ تفصیلات کے مطابق کوئٹہ سے جعفر ایکسپریس کے ذریعے پشاور جانے والے مسافروں کی بڑی تعداد ہفتہ کی صبح کوئٹہ ریلوے سٹیشن کے پلیٹ فارم ون پر موجود تھی، مسافر ٹرین کا انتظار کر رہے تھے تقریباً آٹھ بجکر 20منٹ پر ایک خود کش حملہ آور مسافر کے روپ میں پلیٹ فارم پر اس جگہ پر آ کر کھڑ ا ہوا جہاں مسافروں کا بے تحاشا رش تھا اور اِسی دوران اُس نے خود کو زور دار دھماکے سے اُڑا لیا۔ دھماکہ اتنا شدید تھا کہ اس کی آواز شہر بھر میں سُنی گئی،پلیٹ فارم پر ہر طرف چیخ و پکار مچ گئی۔ دھماکے سے پلیٹ فارم کا شیڈ مکمل طور پر تباہ ہو گیا،دفاتر اور ٹکٹ گھر کے شیشے بھی ٹوٹ گئے۔ذرائع کے مطابق دھماکے میں آٹھ سے دس کلو دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا تھا جس میں بال بیرنگ بھی شامل تھے۔اس کی ذمہ داری کالعدم بلوچ تنظیم نے قبول کر لی ہے، واقعے کے بعد شہر بھر کے مسافر کوچ اڈوں پر سکیورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف، آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت کی،وزیراعظم کا کہنا تھا کہ معصوم اور نہتے شہریوں کے جان و مال کو نقصان پہنچانے والے دہشت گردوں کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی،انہوں نے بلوچستان حکومت سے واقع کی تحقیقاتی رپورٹ طلب کر لی ہے۔کمشنرکوئٹہ ڈویژن محمد حمزہ شفقات نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ ریلوے سٹیشن پر دھماکا خودکش تھا، بمبار سامان کے ساتھ ریلوے سٹیشن میں داخل ہوا،ایسے کسی بھی شخص کو روکنا مشکل ہوتا ہے جو خودکش حملے کے لئے آیا ہو، یہ حملہ سکیورٹی فورسز پر بھی تھا۔ اِس موقع پر ایس ایس پی کوئٹہ نے کہا کہ ٹیمیں تحقیقات کر رہی ہیں کہ خود کش حملہ آور کس راستے سے داخل ہوا، شہر میں پولیس کا گشت بڑھا دیاگیا ہے۔ حکام کے مطابق حملہ آور کے جسمانی اعضاء فرانزک ٹیسٹ کے لئے بھیجے جائیں گے اور کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر لگے ہوئے 16 مختلف سی سی ٹی وی کیمروں کا ریکارڈ بھی تحویل میں لے کر تفتیش کی جا رہی ہے۔کوئٹہ میں چار دن کے لئے ٹرینیں بند کر دی گئی ہیں۔اِس کے علاوہ ہرنائی کوئٹہ میں بھی دہشت گردی کا ایک واقعہ ہوا، قومی شاہراہ ضلع زیارت کی انتظامی حدود مانگی کے مقام پر دہشت گردوں نے ہرنائی سے کوئلہ لے جانے والے ٹرکوں پر فائرنگ کرکے انہیں آگ لگا دی جبکہ وہاں کے ایس پی کی گاڑی پر فائرنگ کے نتیجے میں اسسٹنٹ سب انسپکٹر شہید اور گن مین زخمی ہوگیا۔
روس کے صدر ولادی میر پوٹن، ملائیشیا کے وزیراعظم انور ابراہیم، ترکیہ حکومت اور ایرانی سفیر نے کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر دہشت گردانہ حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی، امریکی اور برطانوی سفارتخانے پاکستان کے ساتھ کھڑے ہونے کے عزم کا اظہار کیا۔روس کے صدر نے خط لکھا جس میں انہوں نے ذمہ داروں کے لئے انصاف کا مطالبہ کیا، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے ساتھ روس کی یکجہتی پر زور دیا، انہوں نے مزید لکھا کہ وہ دہشت گردی کی تمام شکلوں کے خلاف اپنے پاکستانی شراکت داروں کے ساتھ تعاون جاری رکھنے کے لئے پُرعزم ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں گزشتہ چند برسوں میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، رواں سال ستمبر میں قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزارتِ داخلہ نے اِس بات کا اعتراف کرتے ہوئے بتایا تھا کہ گذشتہ دو سال کے دوران ملک میں مجموعی طور پر دہشت گردی کے دو ہزار 75 واقعات پیش آئے۔صرف رواں سال ملک میں دہشت گردی کے 561 واقعات میں 886 شہری اپنی جان سے گئے۔رواں برس خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے 282، بلوچستان میں 272 اور صوبہ سندھ میں پانچ واقعات ہوئے جبکہ پنجاب اور اسلام آباد میں دہشت گردی کا ایک ایک واقعہ رونما ہوا۔ 2020ء سے 2024ء تک غیرملکی باشندوں پر ہونے والے آٹھ حملوں میں 12 غیر ملکیوں سمیت مجموعی طور پر 62 افراد جاں بحق جبکہ 38 زخمی ہوئے۔ وزارتِ داخلہ کے تحریری جواب کے مطابق 2024ء کی پہلی سہ ماہی کے دوران ملک بھر میں 2208 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کیے گئے ہیں جس کے نتیجے میں 89 دہشت گرد ہلاک جبکہ 328 کو گرفتار کیا گیا ہے۔ گزشتہ برس بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں 39 فیصد اضافہ دیکھا گیا گو کہ اِس سال کمی دیکھنے میں آئی ہے لیکن یہ حالیہ کارروائی بدترین مانی جا رہی ہے۔ انڈیپنڈنٹ اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق آج سے دس سال پہلے تحریک طالبان پاکستان کے مختلف گروہ ریاست کے خلاف متحرک تھے مگر اب طالبان کے ساتھ داعش خراسان اور بلوچستان لبریشن آرمی کی کارروائیاں نہ صرف مسلسل بڑھ رہی ہیں بلکہ ملک میں 82 فیصد حملوں کے ذمہ دار یہ تینوں گروہ ہیں۔ابھی اِسی مہینے بلوچستان کے علاقے دکی میں مقامی کوئلے کی کانوں پر مسلح افراد نے حملہ کر دیا تھا جس میں 21 کان کن شہید جبکہ سات زخمی ہو گئے تھے۔حالیہ حملے کی ذمہ داری بلوچستان لبریشن آرمی نے قبول کی ہے، کراچی میں چینی باشندوں پر حملے میں بھی یہی جماعت ملوث تھی،اسے عالمی سطح پر دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا گیا ہے۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ ملک میں دہشت گردی پر قابو پا لیا گیا تھا، لیکن پھر اِس حوالے سے نرم پالیسی اپنانے کا نتیجہ یہ نکلاکہ ملک میں دہشت گردی نے پھر سے زور پکڑ لیا۔ملک میں امن کی صورتحال خراب ہوتی جا رہی ہے، اب تو دہشت گردوں نے سکیورٹی فورسز کوبھی نشانے پر رکھا ہوا ہے، حکومت معاشی حالات میں بہتری لانے کی کوشش کر رہی ہے، بیرونی سرمایہ کاری کھینچنے کے لئے دن رات ایک کر رہی ہے لیکن اس کے لئے سب سے بڑا چیلنج سازگار ماحول فراہم کرنا ہے۔ ملک میں آپریشن عزم استحکام جاری ہے جس کو شروع کرنے کے لئے خاصی مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا، سیاسی جماعتوں کے تحفظات بھی تھے، لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ دہشت گردی کے جن کو دوبارہ بوتل میں بند کرنے کے لئے سب کو مل کر کھڑے ہونا ہو گا۔ہمسایہ ممالک کے ساتھ بھی بات چیت کی ضرورت ہے تاکہ امن قائم کیا جا سکے۔ آج بھی سانحہ اے پی ایس کے بعد والے جذبے کی ضرورت ہے،جب تمام سیاسی و عسکری قیادت متحد ہوکر دہشت گردی کے خاتمے کے لئے جُت گئی تھی، سب کو مل کر عزم کرنا ہو گا کہ ملک میں امن قائم کریں گے اور دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔ ہر انسانی جان قیمتی ہے اور اس کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے،دہشت گردی کے خلاف ہر صورت زیرو ٹالرینس پالیسی ہی ہونی چاہئے۔