ایک غیر ملکی نے کہا کہ مجرم کی معافی کیلئے نہیں کہنا بلکہ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ سزا پانیوالے مجرم پر خطاکار اور کمزور انسان سمجھ کر رحم اور کرم کیا جائے
مصنف:جسٹس (ر) بشیر اے مجاہد
قسط:81
میں نے اُنہیں بتایا اسلام کی تعلیمات اس سلسلہ میں بہت واضح ہیں۔ اسلام حقوق العباد کی ذمہ داری انسانوں پر ہی ڈالتا ہے اور واضح طور پر اللہ کا حکم ہے کہ اللہ تعالیٰ حقوق اللہ کے سلسلہ میں تو معافی بھی دے سکتاہے مگر حقوق العباد کا تعلق انسانوں سے ہے۔ جو انسان کسی دوسرے انسان سے زیادتی یا ظلم کرے گا وہ اس کے لئے اُسی انسان کے سامنے جواب دہ ہے۔ اگر کوئی مدعی اپنے مجرم کو معاف کر دے یا سزا دے یہ اُس کی اپنی مرضی ہے۔ اسلام اور نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات میں رحم کرنے والے کو بڑا مقام دیا گیا ہے۔
اس پر آنے والے مہمانوں میں سے ایک غیر ملکی نے کہا کہ ہمیں مجرم کے جرم کی معافی کے لئے نہیں کہنا بلکہ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ سزا پانے والے مجرم کو بھی ایک خطاکار اور کمزور انسان سمجھ کر اس پر رحم اور کرم کیا جائے۔ یہ کوئی زبردستی نہیں صرف اس اُمید پر کہ شاید معافی ملنے یا محبت بھرے سلوک سے کوئی مجرم اپنی مجرمانہ روش سے باز آ جائے اور آئندہ زندگی ایک اچھے انسان کی طرح گزارنے پر تیار ہو جائے۔ مہربانی کرنے والے کے جذبہ سے کوئی متاثر بھی تو ہو سکتا ہے؟ میں نے یہ سن کر انہیں کہا کہ جی ہاں یہ درست بات ہے اور میں اس کی تحسین کرتا ہوں۔ اس پر ان صاحبان نے پرزنرز فیلوشپ موومنٹ کا لٹریچر مجھے دیا اور ساتھ ہی دعوت دی کہ وہ میرے پاس اس لئے آئے ہیں کہ کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں اس تنظیم کی کانفرنس ہو رہی ہے اس میں شرکت کریں اور وہاں اپنے مؤقف کا اظہار بھی کریں جس پر میں نے سرکاری طریق کار کے مطابق چیف جسٹس اور وزارت قانون سے اس کی اجازت حاصل کی اور مقررہ تاریخ کو اوٹاوا پہنچ گیا۔ جہاں میرے استقبال اور رہائش کے لئے بہت اہتمام کیا گیا تھا۔میری بیگم اور بیٹی بھی ہمراہ تھیں۔
کانفرنس میں یہی سب باتیں دہرائی گئیں جو کہ میں بیان کر چکا ہوں۔ اس کے بعد انہوں نے اعلان کیا کہ اب پاکستان سے آنے والے مندوب جو کہ ایک بیرسٹر اور پاکستان کی ہائی کورٹ کے آنریبل جج ہیں اپنے خیالات کا اظہار کریں گے۔ میں جب مائیک کے سامنے پہنچ گیا تشہد و تعوذ کے بعد میں نے آیت الکرسی پڑھی اور کہا کہ میں پیغمبر اسلام ﷺ کا ایک ادنیٰ سا پیروکار ہوں۔ ہمارے رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق قیدیوں سے انسانیت اور محبت بھرا سلوک کرنے کا حکم دیا ہے اور ہدایت فرمائی ہے کہ مجرم کو سزا اس سے زیادہ نہ ہو جتنی کا وہ حق دار ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی ہے کہ مجرم کو معاف کر دینے والا بہت اہم اور بڑا آدمی ہوتا ہے اور مجرم کو کسی طور اس کے جرم سے زیادہ سزا نہ ملے اس کے لیے سربراہ مملکت کو جواب دہ ہونا پڑے گا۔ پیغمبر اسلام ِﷺ نے جنگوں میں گرفتار ہونے والے قیدیوں کو معاف بھی کیا ہے اور انہیں یہ بھی کہا کہ صاحب علم قیدی مسلمانوں کو تعلیم دیں تو انہیں رہا کر دیا جائے۔ اس طرح ہزاروں قیدیوں کو صرف اس بدلے میں رہا کیا گیا کہ انہوں نے دس یا پندرہ مسلمانوں کو تعلیم کے زیور سے مالا مال کر دیا تھا۔ اس زمانے کے قوانین کے مطابق قیدیوں کو قتل کرنے یا اُنہیں معذور بنا دینے کی مخالفت کی گئی ہے۔ اسلام جرائم پیشہ افراد کو صرف یہ رعایت دیتا ہے کہ اگر وہ آئندہ جرم سے توبہ کر لیں تو اُنہیں معاف کیا جا سکتا ہے مگر جو لوگ اپنی طاقت کے جبر کی وجہ سے اپنے جرائم کو چھوڑنے کے لیے تیار نہ ہوں انہیں چھوڑنے کے لئے تیار نہیں۔ باقی جو لوگ جرائم سے لاتعلقی کا اظہار کریں وہ معاف کر دیئے جائیں۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔