محکمہ بجلی کی مجوزہ نجکاری اور عوامی مفاد کے تقاضے

محکمہ بجلی کی مجوزہ نجکاری اور عوامی مفاد کے تقاضے
محکمہ بجلی کی مجوزہ نجکاری اور عوامی مفاد کے تقاضے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


                                        حکومت پاکستان نے یہ اعلان کیا ہے کہ وہ محکمہ بجلی کی آٹھ ڈسٹری بیوشن کمپنیوں ، لاکھڑہ اور مظفر گڑھ تھرمل بجلی گھروں کی نجکاری کرے گی۔ بجلی عوام کی بنیادی ضرورت ہے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آرٹیکل نمبر9کے تحت حکومت پاکستان کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو بجلی کی سہولت مہیا کرے۔ ماضی میں بھی راولپنڈی الیکٹرک سپلائی کمپنی اور ملتان الیکٹرک سپلائی کمپنی جیسے نجی ادارے بغیر منافع کے بجلی کے کنکشن شہر میں بھی نہیں دیتے تھے، اس لئے انہیں واپڈا کے حوالے کرنا پڑا، جس سے آج لاکھوں دیہاتوں کو بجلی مہیا کی گئی ہے، کراچی سپلائی کمپنی نجی انتظامیہ کے حوالے ہونے پر شہر میں بھی بجلی کی پیداوار میں اضافہ اور صارفین کو سستی بجلی مہیا نہیں کر سکی، بلکہ محکمہ بجلی اور سوئی ساردرن گیس کے اربوں روپے بجلی اور گیس کے بقایا جات ادا نہیں کر رہی۔ بجلی کی نجکاری کا تجربہ کیلیفورنیا (امریکہ)، برازیل اور اڑیسہ (بھارت) اور نیوزی لینڈ میں ناکام ہو چکا ہے، کیونکہ پرائیویٹ کمپنیاں عوام کے مفاد کی بجائے صرف اپنے منافع کے لئے کام کر رہی ہیں۔
ماضی میں نجی تھرمل پاور ہاﺅسوں سے مہنگی بجلی پیدا کرانے سے سرکاری شعبے کے تھرمل پاور ہاﺅسوں کی بجلی کی لاگت کے مقابلے میں حکومت کو دوگنا قیمت اد کرنا پڑ رہی ہے، اسی وجہ سے حکومت نے انہیں اب نوٹ چھاپ کر480ارب روپے کا قرضہ چکایا ہے، جس میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ بجلی کے کھربوں روپے کے اثاثہ جات نجی کمپنیوں کے حوالے کرنے کی بجائے محکمہ بجلی کی استعداد میں اضافہ کرنے کے لئے حسب ذیل اقدامات کرے، جن سے بجلی کی لوڈشیڈنگ اور مہنگی بجلی کا تدارک ہو سکے گا۔
 سرکاری شعبے میں ہائیڈل و کوئلے کے تھرمل بجلی گھر لگائے جائیں اور تربیلا ہائیڈل اور مظفر گڑھ، جامشورو کی دیرینہ مشینوں کو اپ گریڈ کرنے سے بجلی کی پیداواری استعداد میں اضافہ ہونے سے دیگر پاور ہاﺅس کی مشینوں کی اپ گریڈیشن کرائی جائے۔ تھرمل پاور ہاﺅسوں کو فرنس آئل کی بجائے گیس پر چلایا جائے، کیونکہ ہائیڈل پاور سٹیشن صرف ڈیڑھ روپے فی یونٹ پیدا کر رہے ہیں، جبکہ نجی تھرمل پاور ہاﺅسوں کی لاگت20روپے فی یونٹ ہے۔ بند تھرمل پاور ہاﺅسز فیصل آباد، کوٹری، شاہدرہ کو چالو کیا جائے اور ان کمپنیوں کے سربراہان ”چیف ایگزیکٹو“ عارضی رکھنے کی بجائے دیانت دار اور اعلیٰ پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے حامل انجینئروں کو بہتر کارکردگی کی بنیاد پرمتعین کیا جائے۔
بجلی کی چوری روکنے اور صارفین کو بہتر خدمات مہیا کرانے کے لئے بجلی کی کمپنیوں کا کنٹرول نجی ارکان بورڈ آف ڈائریکٹرز کے حوالے کرنے کی بجائے وفاقی ادارے کے سپرد کیا جائے تاکہ وہ اس کی کارکردگی کو بہتر کریں اور ان کی کارکردگی میں اضافہ ہو۔ بجلی کی چوری کو ناقابل ضمانت جرم قرار دیا جائے، بجلی کی چوری روکنے اور اس کے بقایا جات کی وصولی کے لئے متعلقہ عملے کو سیکیورٹی مہیا کی جائے۔ اس وقت صوبوں، آزاد کشمیر، فاٹا میں بجلی کے نجی صارفین کے ذمہ مبلغ 441ارب روپے کے بقایا جات واجب الادا ہیں۔
ملازمین میں صارفین کے لئے بہتر خدمات مہیا کرانے کا کلچر قائم کیا جائے اور بددیانت افراد کا محاسبہ کیا جائے اور دیانت دار و محنتی عملے کی ہر ممکن حوصلہ افزائی کی جائے اور مالی انعامات و ترقیوں سے اُن کی مخلصانہ خدمات کا اعتراف کیا جائے اور ان اداروں میں بے جا سیاسی مداخلت روکی جائے۔ کھربوں روپے کے اداروں کو سیٹھوں کے حوالے کرنے کی بجائے حکومت عوام کو سستی بجلی مہیا کر کے بجلی کے صارفین کو بہتر خدمات مہیا کر سکتی ہے، جبکہ سرمایہ دار سیٹھ صرف اپنے منافع کے لئے کام کریں گے اور عوامی مفاد کو قربان کر دیں گے۔     ٭

مزید :

کالم -