پاکستان ریلوے.... افکارِ پریشاں (6)
اس بے یقینی کی حالت میں آج بھی لوگ ریلوے میں سفر کرنا چاہتے ہیں۔ سستا اور آرام دہ ہونے کی وجہ سے long lead کے لئے اور کوئی متبادل ذریعہ سفر نہیں۔ ریلوے کو چاہئے کہ اپنا ٹریفک long lead کے لئے مخصوص کرے، اور non-stop ٹرینیں چلائے۔ راقم نے اُس وقت کے وزیر، چےئرمین / سیکرٹری، جنرل منیجرز اور ممبر فنانس کو یہ نوٹ بھیجا تھا کہ پسنجر سیکٹر کے نقصان کو کلی طور پر ختم کرنا تو مشکل ہے، تاہم اس کو کسی حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لئے مندرجہ ذیل تجاویز دی گئیں:
(i)پاکستان ریلوے اپنے پسنجر آپریشن کو صرف 32 میل / ایکسپریس ٹرینوں تک محدود کردے، جو 70 فیصد ٹریفک earn کرتی ہے۔
(ii)دو یا تین ٹرینیں (ٹریفک کے مطابق) کراچی سے لاہور تک ڈائریکٹ چلا دی جائیں۔ باقی ساری ٹرینیں ملتان terminate کرکے انٹر سٹی نان سٹاپ ٹرینیں چلائی جائیں۔ مثلاً
(ا ) ملتان سے لاہور
(ب) لاہور سے راولپنڈی
(ج) راولپنڈی سے پشاور
(د) ملتان سے فیصل آباد
(ر) لاہور سے فیصل آباد
(س) کراچی سے حیدر آباد
(iii)پشاور کے مسافروں کے لئے کراچی سے براستہ کشمور،کندیاں نان سٹاپ گاڑیاں چلائی جائیں۔
(iv)ٹرینوں کے standardized rakes کئے جائیں۔ مندرجہ بالا آپریشن سے لوکوموٹِوز کی ضرورت کم پڑجائے گی، جس کو مال کے لئے استعمال کیا جائے۔ اس تجویز کو دیوانے کی بڑ سمجھا گیا، اور اُس وقت کے جنرل منیجر نے زبانی طور پر اسے ناقابل عمل قرار دیا۔
شوکت عزیز صاحب کے دور میں ریلوے کو کارپوریشن بنانے کے معاملات میں کافی تیزی آئی ہوئی تھی، لیکن اُس وقت کے چےئرمین بعد میں وزیر ریلوے کی مداخلت کی وجہ سے اس معاملے میں پیش رفت نہ ہو سکی۔ایسی کارپوریشن جو competition کے ماحول میں کام کررہی ہو، پاکستانی کلچر میں یقینا مشکلات کا شکار ہوگی، بعید از قیاس نہیں۔مثلاً بے روک ٹوک بھرتیاں، فنڈز کو استعمال کرنے کی کھلی آزادی، بورڈ آف ڈائریکٹرز کے لئے ناجائز مراعات اےسے معاملات ہیں، جو کسی کارپوریشن کے مالی امور میں مہلک ثابت ہو سکتے ہیں۔ ریلوے کو کارپوریشن بنائیں یا نہ بنائیں، منافع بخش منصوبے اس کو کامیابی کی طرف گامزن کرسکتے ہیں۔
وزیراعظم نواز شریف صاحب کے دور میں ایٹمی دھماکہ کرنے پر ڈونر ممالک نے پاکستان کو مالی امداد (قرضہ) دینا بند کردی،جس کے اثرات ریلوے پر بھی پڑے۔ حکومت پاکستان کے پاس foreign exchange نہ ہونے کے باعث ایسے ممالک سے رجوع کرنا پڑتا ہے، جو foreign exchange بھی دےں اور equipment بھی مہیا کرےں۔ ایسی صورتِ حال میں اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایک مجبور ملک ڈونر ملک کی شرائط کا پابند ہوگا۔ اسی وجہ سے پاکستان ریلوے کو چین کی طرف جانا پڑا۔چین کے ریلوے equipment کے سلسلے میں بہت سی بے سر و پا باتیں پریس میں آتی رہی ہیں۔ اصل صورتحال یہ ہے کہ یورپی اور امریکن لوکوموٹِوز کی قیمت اُس زمانے میں 2.5 ملین ڈالر تھی۔ جبکہ چین سے اسی ہارس پاور کا لوکوموٹِو 1.4 ملین ڈالر میں ملا۔ کارکردگی کے متعلق صرف اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ چائنا ریلوے، جو دنیا کے بڑے ریلوے نظاموں میںشامل ہے، انہی انجنوں کو استعمال کرتا ہے۔ تو آخر پاکستان میں اس کو کیا ہوگیا؟ وجہ صرف یہ تھی کہ مطلوبہ پرزہ جات چین سے حاصل نہ کئے گئے اور لوکوموٹِوز کو ground کرنا پڑا۔ ریلوے ، جو ایک عرصہ سے سرمایہ کاری کی کمی کا شکار تھی، اتنی بڑی سرمایہ کاری اور وہ بھی کمرشل لون (commercial loan) کی متحمل نہ ہوسکی۔ اس میں چند منصوبے ترجیحات میں شامل نہ کئے جاتے تو مثبت نتائج حاصل ہوتے۔ راقم نے 2000ءمیں اپنی presentation میں اس کا اظہار کردیا تھا۔ اس میں اُس وقت کے وزیر، چےئرمین، دونوں جنرل منیجرز، چند پرنسپل افسر حاضر تھے۔ اس میں بتایا گیا کہ پاکستان ریلوے کا خسارہ 2001-02ءمیں 4.8 بلین سے بڑھ کر 2012-13ءمیں 12 بلین ہوجائے گا۔ حاضرین نے اسے قبول تو کیا ،لیکن پھر 2012ءکس نے دیکھا ہے۔ آئیں، بائیں شائیں!
قارئین! جس طرح ایک ملک کو چلانے کے لئے ایک آئین درکار ہوتا ہے، اسی طرح ٹرانسپورٹ کو چلانے کے لئے ایک پالیسی درکار ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان ٹرانسپورٹ پالیسی سے محروم ہے۔ پرویز مشرف دور میں اس پر تھوڑی بہت پیش رفت تو ہوئی، لیکن بات آگے نہ بڑھ سکی۔ آخر یہ ہے کیا؟
ٹرانسپورٹ پالیسی کا رہنما اصول یہ ہونا چاہئے کہ ٹرانسپورٹ کا مالی بوجھ قومی آمدنی پرکم از کم ہو، اور اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ محدود وسائل کا استعمال بہترین طریقے (optimum) سے کیا جائے۔ قارئین کی دلچسپی کے لئے اس کے اہم نکات مختصراً درج ذیل ہیں:
(i)معیشت کے مختلف شعبوں کو support مہیا کرنا اور اُنہیں متحرک (stimulate) کرنا۔
(ii)توانائی اور ٹرانسپورٹ کے درمیان ایک رابطہ قائم کرنا۔
(iii)قومی تعمیر کے عمل میں ممد ثابت ہونا۔
(iv)متوازن علاقائی ترقی۔
(v)مختلف ٹرانسپورٹ کے شعبوں میں مقابلے کی فضا کے بجائے ایک دوسرے کی تکمیل (complement) کرنا۔
(vi)ماحول کو ممکنہ حد تک آلودگی سے پاک کرنا۔
(vii)ایسا نظام وضع کرنا جس سے نظام لاگت کو خود برداشت کرے۔
(viii)معاشرے کی سماجی ضروریات کو پورا کرنا۔
ٹرانسپورٹ ایک پیچیدہ عمل ہے جس کی وجہ اس کا مختلف شعبوں پر مشتمل ہونا ہے۔ مثلاً سڑکیں، روڈ ٹرانسپورٹ، ریلوے، اےئر لائن اور سمندری ٹریفک پائپ لائن وغیرہ۔
اگر اس کے کچھ یا سارے شعبہ جات پرائیویٹ سیکٹر میں ہوں تو حکومت کا عمل دخل ضروری ہوجاتا ہے۔ تاکہ سرمایہ کاروں اور عوام کے حقوق اور فرائض کا تحفظ کیا جاسکے۔ اس کے علاوہ ماحولیات و سیفٹی اور سیکیورٹی کے لئے گورنمنٹ کا عمل دخل ضروری ہوجاتا ہے۔ ترقیاتی بجٹ میں حکومت ہر سال 15/16 فیصد خرچ کرتی ہے۔ مختلف شعبوں میں منصفانہ allocation اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ایک ادارہ جو خودمختار ہو، ہر سال سائنسی بنیادوں پر مختلف شعبوں میں محدود وسائل کو تقسیم کرے، تاکہ بہتر نتائج حاصل ہوسکیں۔ ٹرانسپورٹ کی قومی ضروریات کو پورا کرنا حکومت کے بس کی بات نہیں۔ پرائیویٹ سیکٹر اس میں اپنا رول ادا کرے، جس میں پرائیویٹ سیکٹر ایک طرف تو مناسب منافع کمائے اور دوسری طرف صارفین کو بہتر سہولیات میسر ہوں۔ مذکورہ بالا ادارہ سیاسی اثر سے بالا ہونا چاہے اور ڈپٹی چےئرمین پلاننگ کمیشن کے ماتحت ہو۔ اس ادارے میں پیشہ ور ٹرانسپورٹ کے ماہر معیشت (transport, staticians, cost accountants, financial and economic experts) شامل ہوں۔
پس چہ باید کرد؟
مندرجہ بالا سطور میں ہمارے ریلوے نظام کے محاسن اور عیوب بیان کردیے گئے، جوکہ تین دہائیوں کے مشاہدات اور تجربات پر مبنی ہیں۔ طوالت کے پیش نظر کئی تفصیلات سے صرفِ نظر کیا گیا ہے۔ مختصراً مندرجہ ذیل سفارشات کی جاتی ہیں:
(i)ٹرانسپورٹ کی قومی پالیسی بنائی جائے، تاکہ معیشت میں ٹرانسپورٹ کی کم سے کم لاگت کا عنصر سامنے آئے۔
(ii)ریلوے کو اس کا مقام دلایا جائے۔ اس میں مناسب سرمایہ کاری کی جائے اور ترجیحات کا از سرِ نو تعین کیا جائے۔ بورڈ میں بلاتخصیص ماہرین تعینات کئے جائیں۔
(iii)پہلے اور دوسرے پنج سالہ منصوبوں میں ٹرک 150 میل کی حدود میں ہی نقل و حمل کرسکتے تھے، جس سے ریلوے کو بہت سپورٹ ملتی تھی۔ ریلوے کو اپنے پاو¿ں پر کھڑا کرنے کے لئے کسی ایسی پالیسی کی ضرورت ہے۔
(iv)پلاننگ کمیشن اور وزارتِ خزانہ کا منصوبوں (projects) کے سلسلے میں کردار کوئی بہتر نتائج نہیں لا سکا۔ اس کے لئے ایک high-powered ٹرانسپورٹ کونسل تشکیل دی جائے۔ یاد رہے کہ ٹرانسپورٹ میں نقصانات کے ازالے سے معیشت میں بہتری ممکن ہے، اور بین الاقوامی مارکیٹ میں پاکستان اپنے products کو لاکر compete کرسکتا ہے۔ اس سے ”تجارتی عدم توازن“ ختم ہوگا۔ ٹریڈ میں بہتری سے روپیہ کی قدر میں بہتری آئے گی۔ یاد رکھیے! ان عوامل میں بہتری لانے کی کنجی ایک مستعد (efficient) ٹرانسپورٹ سسٹم میں مضمر ہے۔(جاری ہے) ٭