وائٹ ہاؤس میں بھارتی جعل سازی بے نقاب

وائٹ ہاؤس میں بھارتی جعل سازی بے نقاب
 وائٹ ہاؤس میں بھارتی جعل سازی بے نقاب

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اڑی حملے کے بعد بھارت کے سورماؤں کے ایسے ہوش اڑے کہ جلے پاؤں کی بلی کی طرح اِدھر سے اُدھر کودتے پھر رہے ہیں۔ بھارتی سرکار نے ایک نام نہاد سرجیکل سٹرائیک کا ڈھونگ رچایا اور ہاتھ کچھ نہ آیا، الٹا جگ ہنسائی ہوئی۔ اِدھر امریکہ میں رہنے والے بھارتیوں نے پاکستان کو دہشت گرد ریاست قرار دلانے کے لئے وائٹ ہاؤس میں پٹیشن بھجوانے کی کوشش شروع کر دی۔ ایسی پٹیشن وائٹ ہاؤس کی ویب سائٹ پر اَپ لوڈ کی جاتی ہے، لیکن اس کے لئے ایک لاکھ دستخط حاصل کرنا ہوتے ہیں۔ یہ ایک لاکھ دستخط ایک ماہ کی مدت میں حاصل کرنا ضروری ہے۔ ایسی کسی بھی ایک لاکھ دستخطوں والی پٹیشن کا جواب وائٹ ہاؤس کو 60 دنوں کے اندر اندر دینا ہوتا ہے۔ اس پٹیشن کا آغاز ہم عوام الناس۔۔۔ we the people ۔۔۔سے ہوتا ہے، اس لئے عرف عام میں اس پٹیشن کو یہی نام دیا جاتا ہے۔ بھارتیوں نے پٹیشن کا آغاز 21 ستمبر سے کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے پٹیشن پر دستخطوں کی بھرمار ہوگئی اور ایک ہی ہفتے کے اندر مطلوبہ تعداد میں دستخط حاصل کرلئے گئے۔ امریکہ میں بھارتیوں کی ایک بڑی تعداد رہتی ہے۔ اکثر بھارتی اچھے عہدوں پر ہیں، جبکہ پاکستانی، سکھ، بنگالی اور نیپالی محنت مزدوری کرتے ہیں۔ کچھ پاکستانی اب اچھے کاروبار کے مالک ہیں اور بعض بڑے بڑے عہدوں پر بھی ہیں، لیکن بھارتیوں کے مقابلے میں ان کی تعداد بہرحال کم ہے۔


بھارتی کمیونٹی پاکستانیوں سے زیادہ سینئر ہے۔ کوئنیز میں جیکسن ہائٹس دیسی بزنس کا مرکز ہے۔ یہاں پہلے پہل بھارتی آئے اور اس علاقے کو ’’لٹل انڈیا‘‘ کا نام دیا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے پاکستانی آئے تو بزنس کی تعداد برابر ہوگئی، یوں ’’لٹل انڈیا‘‘ کا نام ختم ہوگیا۔ جوں جوں یہاں کاروبار بڑھا، بھارتی تاجر نیو جرسی اور لانگ آئی لینڈ چلے گئے۔ خوشحال پاکستانیوں کی بیشتر تعداد ہوسٹن، ٹیکساس جا بسی، کچھ لانگ آئی لینڈ چلے گئے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہاں بنگالی آئے اور چھا گئے۔ اس وقت جیکسن ہائٹس عملی طور پر ’’لٹل بنگلہ دیش‘‘ نظر آتا ہے، اس لئے اگر بھارتی ایک مہینے میں ایک لاکھ دستخط حاصل کرلیتے تو اچنبھے کی کوئی بات نہ ہوتی، لیکن انہوں نے پٹیشن پر 6,42,541 دستخط حاصل کرلئے۔ جب پٹیشن وائٹ ہاؤس کو پہنچائی گئی تو اتنے دستخطوں کا بھانڈہ پھوٹ گیا۔ معلوم ہوا کہ اکثر دستخط جعلی تھے۔ آئی بی ایڈریس اور ای میلز کو جعل سازی کرکے بار بار دستخط کئے گئے۔ اب یہ پٹیشن وائٹ ہاؤس کی ویب سائٹ پر موجود ہے، لیکن اسے بند کر دیا گیا ہے۔ اس پر لکھا ہے ۔۔۔’’اس پٹیشن کو آرکائیو میں رکھ دیا گیا ہے۔ اس پر کوئی عملدرآمد نہیں ہوگا، کیونکہ یہ مطلوبہ تعداد میں دستخط حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ اب اس پر مزید دستخط نہیں ہوسکتے‘‘۔۔۔ اس طرح یہاں بھی بھارتیوں کو منہ کی کھانا پڑی اور بجائے کسی بڑی کامیابی کے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔
اس پٹیشن کی دیکھا دیکھی پاکستانیوں نے بھی ایک پٹیشن کی تیاری شروع کر دی۔ اس پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ ’’جمہوریہ بھارت، پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہے، اسے دہشت گرد ریاست قرار دیا جائے۔ اس پٹیشن کا آغاز 27 ستمبر سے کیا گیا۔ ابھی تک اس پٹیشن پر 67,734 دستخط حاصل کئے جاچکے ہیں اور مطلوبہ تعداد میں دستخط حاصل کرنے کے لئے کوششیں جاری ہیں۔ اس پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ بھارت، بلوچستان اور فاٹا میں دہشت گردی کی سرپرستی کر رہا ہے، اور اس کے نہایت واضح ثبوت موجود ہیں۔ ایک بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو، جو بھارتی جاسوسی ایجنسی ریسرچ اینڈ انالیسز ونگ کے لئے کام کر رہا تھا، اس نے اعتراف کیا ہے کہ وہ بھارتی نیوی میں کمانڈر کے عہدے پر فائز تھا اور پاکستان میں سبوتاژ کی کارروائیوں میں مصروف تھا۔ کلبھوشن یادیو نے یہ ابھی قبول کیا کہ پاکستان میں دہشت گردی کے لئے اس کے پاکستانی طالبان اور القاعدہ کے علاوہ آئی ایس آئی سے بھی رابطے تھے اور یہ شواہد بھارت کو دہشت گرد ریاست قرار دینے کے لئے کافی ہیں۔ اس پٹیشن کو وائٹ ہاؤس کی ویب سائٹ پر دیکھا جاسکتا ہے اور اس پر دستخط بھی کئے جاسکتے ہیں۔


یہ بات کہنا بے حد مشکل ہے کہ اہل پاکستان کی پٹیشن مطلوبہ تعداد میں دستخط حاصل کرسکے گی یا نہیں اور اس سے بھی زیادہ مشکل بات یہ ہے کہ اگر مطلوبہ تعداد میں دستخط حاصل ہو جائیں تو 60 دن کے اندر اندر وائٹ ہاؤس کیلئے ایسی پٹیشن کا جواب دینا ضروری ہو جاتا ہے۔ کئی امریکی ریاستیں امریکی یونین سے الگ ہونے کیلئے ایسی پٹیشن دائر کرچکی ہیں۔ انہوں نے مطلوبہ تعداد میں دستخط حاصل بھی کرلئے اور وائٹ ہاؤس کو انہیں 60 دن کے اندر اندر جواب بھی دینا پڑا۔ ایسی پٹیشنز کی اس وقت بھرمار ہو گئی تھی، جب باراک اوباما صدر منتخب ہوئے۔ گوری اکثریت کی ریاستوں نے اسے اپنے لئے باعث توہین قرار دیا اور یونین سے علیحدگی کی پٹیشنز، جبکہ ان پٹیشنز کیلئے دستخطوں کی تعداد بھی صرف 25 ہزار تھی۔ ان میں سے بہت سی تو فوری طور پر مسترد ہوگئیں۔ 2013ء میں وائٹ ہاؤس کے ایک افسر نے ایسی پٹیشنز کا یہ جواب دیا کہ ’’ایسا ہونا ممکن نہیں، کیونکہ یہ خلاف آئین ہے‘‘۔۔۔ بھارتیوں نے برطانوی پارلیمنٹ میں بھی پٹیشن جمع کرانے کی کوشش کی۔


ادھر امریکہ میں بھارتی سکھوں نے کامیابی سے ایک لاکھ دستخطوں سے خالصتان کے حق میں پٹیشن داخل کرادی ہے۔ پاکستانی اور پاکستانی کشمیریوں نے بھی برطانوی پارلیمنٹ میں پٹیشن دائر کرنے کا آغاز کر دیا ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ میں کامیابی کے لئے دستخطوں کی تعداد دس ہزار ہے، جو آئندہ برس 21 جنوری تک پورے ہونے چاہئیں۔ جب اس پٹیشن کو مطلوبہ تعداد میں دستخط حاصل ہوگئے تو پھر برطانوی پارلیمنٹ اس پر توجہ دے گی، تاہم اگر دستخطوں کی تعداد ایک لاکھ تک پہنچ گئی تو پھر اس پٹیشن پر برطانوی پارلیمنٹ میں بحث بھی ہوگی۔ اس پٹیشن پربھی صرف برطانوی شہری ہی دستخط کرسکتے ہیں۔ برطانیہ میں مقیم پاکستانی نژاد برطانوی اور کشمیری دن رات اس پٹیشن پر زیادہ سے زیادہ دستخط حاصل کرنے کے لئے سرگرم ہیں۔ ٹیکنیکل خبروں کی ویب سائٹ پر پرو پاکستانی بھی اس سلسلے میں کوشش کر رہے ہیں۔ جو لوگ دستخط کرتے ہیں، وہ اپنے حلقہ احباب میں دوسروں کو یہ پٹیشن بھجوا دیتے ہیں۔


برطانوی پارلیمنٹ میں ہی اگر دستخطوں کی مطلوبہ تعداد پوری ہو جاتی ہے تو پٹیشن پر کوئی خاص کارروائی ہونے کا کوئی نہیں ہے۔ غالباً ان حکومتوں نے یہ سلسلہ محض لوگوں کو مصروف رکھنے کے لئے جاری کر رکھا ہے یا شاید اس سے محض اتنا اندازہ لگانا مقصد ہو کہ کسی مطالبے کے حق میں کتنے لوگ ہیں۔ اس سے زیادہ اس سے کچھ نہیں ہوسکتا۔ ایک لاکھ لوگ ووٹر بھی ہوں تو کسی انتخاب میں کوئی خاص فرق نہیں ڈال سکتے، بالخصوص ایسے میں، جبکہ یہ ایک لاکھ لوگ کسی ایک انتخابی حصے سے نہ ہوں تو ان کے مخالفانہ یا حق میں ووٹ سے کیا فرق پڑسکتا ہے، تاہم عالمی ووٹروں تک اپنی بات پہنچانا بھی بڑی بات ہے، وگرنہ اقوام متحدہ اگر بے بس ہو اور توجہ دینے پر تیار نہ ہو تو وہ ممالک بھلا کیونکر توجہ دیں گے جو بیانگ دہل یہ کہتے ہیں کہ اگر اقوام متحدہ ہمیں حملے کی اجازت نہیں دیتی تو بھی ہم نے جس ملک کو حملے کے لئے منتخب کرلیا ہے، اس پر حملہ کر دیں گے۔

مزید :

کالم -