عالمی برادری مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم رکوائے
پاکستان نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے ہاتھوں 12 سالہ لڑکے جنید احمد کی شہادت کے واقعہ پر افسوس کا اظہار کیا ہے ، اور اس واقعے کو بھارتی دہشت گردی کی افسوسناک اور بدترین مثال قرار دیا ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا کا کہنا ہے کہ کشمیر کے لوگ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اپنے لئے حق خود ارادیت مانگ رہے ہیں، بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں، بڑھتے ہوئے ظلم و ستم اور کشمیریوں کی نسل کشی عالمی برادری کے لئے تشویشناک چیلنج ہونا چاہئے۔ 3 ماہ میں بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں 115 سے زائد کشمیری شہید ہوچکے ہیں۔ 15 ہزار سے زائد زخمی ہیں، اس کے علاوہ سینکڑوں افراد پیلٹ گنز کے چھرے لگنے سے بینائی سے محروم ہوچکے ہیں۔ بھارتی جبر نے کشمیر میں انسانی بحران کو جنم دے رکھا ہے، مسلسل کرفیو کی وجہ سے کھانے پینے کی اشیا اور ادویات کی شدید قلت ہے، ترجمان نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں خونریزی کا سلسلہ بند کرانے کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔ بے گناہ کشمیری عوام کے خلاف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی منصفانہ، آزادانہ اور غیر جانبدارنہ تحقیق ہونی چاہیئے۔
ویسے تو کشمیر میں مظالم کی ہر داستان سنگین اور انسانی خون سے رنگین ہے لیکن دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا علاقہ ہوگا جہاں تین ماہ تک کرفیو نافذ رہا ہو۔ مقبوضہ کشمیر میں اب 93 دن ہوچکے ہیں کہ کرفیو نافذ ہے۔ سیکیورٹی فورسز بچوں کو بھی نہیں بخش رہیں۔ 12 سالہ جنید احمد کی شہادت کوئی پہلی شہادت نہیں ہے اس سے پہلے بھی بہت سے بچوں کو شہید کیا گیا، اس کا کھلا ثبوت موجود ہے۔ اس بچے کے جنازے میں کرفیو کے باوجود ہزاروں کشمیری شریک ہوئے۔ چند روز تک کشمیر کی کنٹرول لائن پر کشیدگی پیدا کرکے بھارتی افواج نے کشمیر میں ڈھائے جانے والے مظالم سے توجہ ہٹانے کی کوشش کی تھی، لیکن انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اس حد تک سنگین ہیں کہ اس جانب سے توجہ ہٹ ہی نہیں سکتی۔ خود بھارت کے اندر ان مظالم کی وسیع پیمانے پر مذمت ہو رہی ہے اور پاکستان کے خلاف سرجیکل سٹرائیک کے بھارتی دعوؤں کو بھارتی سیاستدان قبول کرنے کے لئے تیار نہیں۔ مایاوتی سے لے کر کانگریس کے نوجوان رہنما راہول گاندھی تک اس دعوے کو جھٹلا چکے ہیں۔ حتیٰ کہ اس سلسلے میں سوال کرنے کو بھی غدار قرار دیا جا رہا ہے، جو بذات خود اس بات کا ثبوت ہے کہ کوئی تو ایسی بات ہے جس کی پردہ داری کی جا رہی ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں دراز ہوتا ہوا بھارتی مظالم کا سلسلہ اب دنیا بھر کی نظروں میں ہے اور عالمی رہنما اس پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ کشمیر میں آزادی کی جدوجہد کی تازہ لہر کی خصوصی اہمیت یہ ہے کہ اس میں نو دس اور بارہ سال کے شہید بچوں کا خون بھی شامل ہے بلاشبہ برہان وانی جیسے نوجوانوں نے اس جدوجہد کو ایک نئی سمت عطا کر دی ہے۔ بھارت اس جدوجہد کو دہشت گردی سے تعبیر کرتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں جو گڑبڑ ہو رہی ہے وہ غیر ریاستی اور غیر ملکی عناصر کر رہے ہیں جبکہ تمام شہدا کے بارے میں جو کوائف سامنے آرہے ہیں وہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ لوگ کشمیر کے باشندے ہیں، ان کے والدین کا تعارف بھی سامنے آرہا ہے۔ برہان وانی کے والد مظفر وانی تو ماہر تعلیم اور ریاست میں سرکاری ملازمت سے وابستہ چلے آرہے تھے، اسی طرح تمام بچوں کے بارے میں پتہ چل رہا ہے کہ وہ کون ہیں، ان کے والدین کون ہیں، کہاں رہتے ہیں، کیا کاروبار کرتے ہیں۔ ایسے میں ان لوگوں کو غیر ملکی ثابت کرنا تو بہت مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ کشمیریوں کی اس انتفادہ کو دہشت گردی بھی ثابت نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اقوام متحدہ نے قوموں کو حق خود ارادیت کی ضمانت دی ہوئی ہے اور اس حق کے تحت بہت سی قوموں نے آزادی حاصل کی ہے اور اس وقت یہ ملک اقوام متحدہ کے رکن ہیں اور آزادی کی فیوض و برکات سے مستفید ہو رہے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر کے عوام کو اگر اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا آزادانہ حق دیا جائے تو نہ صرف ریاست بلکہ اس خطے میں امن و امان لوٹ کر آسکتا ہے، بلکہ دنیا کا یہ قدیم ترین مسئلہ بھی حل ہو جائیگا اور کشمیری یہ فیصلہ کرسکیں گے کہ ان کا مستقبل کیا ہوگا۔
بھارتی افواج نے مقبوضہ کشمیر میں جس انسانی المیے کو جنم دے رکھا ہے، دنیا کو اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے، کیونکہ بھارتی حکومت کے مظالم کی وجہ سے کشمیریوں کی زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی ہے۔ پاکستان کشمیری عوام کی سیاسی اور اخلاقی حمایت کر رہا ہے اور عالمی رائے عامہ کو اس جانب متوجہ کرکے اپنا انسانی فریضہ ادا کر رہا ہے، لیکن جواب میں بھارت پاکستان پر حملے کی دھمکیاں دے کر خطے کے امن کو تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے۔ اس طرح تو کشمیریوں کی جدوجہد کو دبانا مشکل ہے۔ بھارت کے اندر انصاف پسند حلقے بھی اب یہ بات محسوس کر رہے ہیں اور نریندر مودی پر زور بھی دے رہے ہیں کہ مثبت مذاکرات سے قابل عمل پالیسی اختیار کی جائے لیکن نریندر مودی کی حکومت اپنی سیاسی اور انتخابی مجبوریوں کی وجہ سے جنگی جنون کو ہوا دے رہی ہے تاہم اب زیادہ دیر تک دنیا کی توجہ بھارت میں کئے جانے والے ظلم و ستم سے نہیں ہٹائی جاسکتی۔ بھارت کو مذاکرات کی میز پر آکر کشمیریوں کو حق خودارادیت دینے کا مطالبہ تسلیم کرنا پڑے گا۔