صرف وکلا نہیں۔۔۔ جج، ڈاکٹر اورانجینئر کا احتساب کون کرے گا؟

صرف وکلا نہیں۔۔۔ جج، ڈاکٹر اورانجینئر کا احتساب کون کرے گا؟
صرف وکلا نہیں۔۔۔ جج، ڈاکٹر اورانجینئر کا احتساب کون کرے گا؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


لاہور ہائی کورٹ کی سپروائزری کمیٹی نے لاہور بار کے نائب صدر رانا سعید کا لائسنس معطل کر دیا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کی سپروائزری کمیٹی کے اس اقدام پر وکلا تنظیموں میں غصہ کی لہر دوڑ گئی اور انہوں نے آج ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔ پنجاب بار کونسل نے اپنے وکیل ساتھی کا لائسنس فوری طور پر بحال کر دیا ہے۔ وکلا کی نمائندہ تنظیموں بالخصوص پنجاب بار کونسل اور پاکستان بار کونسل کا موقف ہے کہ کسی بھی وکیل کے خلاف انضباطی کاروائی کرنے کا قانونی حق صرف ان کا ہے۔ کوئی اور ادارہ خواہ وہ کس قدر با اختیار ہی کیوں نہ ہو۔ یہ کام نہیں کر سکتا۔


یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ڈاکٹرز کے خلاف بھی کسی قسم کی قانونی کاروائی کا اختیار صرف پاکستان میڈیکل کونسل اور انجینئرز کے خلاف کسی بھی قسم کی کاروائی کا اختیار صرف اور صرف پاکستان انجینئرنگ کونسل ہی کو ہے۔ اسی طرح اعلیٰ عدلیہ کے خلاف بھی کسی قسم کی کارروائی کا اختیار صرف اور صرف سپریم جیوڈیشل کونسل کو ہی ہے۔ یعنی ججز کے خلاف ایکشن کا اختیار صرف ججز کی کمیٹی کو ہے۔ ڈاکٹر ز کے خلاف کسی بھی قسم کے ایکشن کا اختیار ڈاکٹرز کی ہی نمائندہ تنظیم اور انجینئرز کے خلاف ایکشن کا اختیار بھی صرف اور صرف ان ہی کی نمائندہ تنظیم کو ہے۔


اب یہ ایک الگ حقیقت ہے کہ نہ تو ڈاکٹرز کی تنظیم ڈاکٹرزکے خلاف کسی بھی قسم کا کوئی ایکشن لینے کے لئے تیار ہے اور نہ ہی انجینئرز کی تنظیم اپنے کسی انجینئرز کے خلاف ایکشن لینے کو تیار ہیں۔ اور تو اور جج صاحبان بھی اپنے کسی ساتھی جج کے خلاف ایکشن لینے کے لئے تیار نہیں۔ایسے میں وکلا تنظیموں سے یہ گلہ کے وہ ساتھی وکلا کے خلاف ایکشن نہیں لیتی کس حد تک جائز ہے ۔ یہ ایک بحث طلب معاملہ ہے۔


سادہ بات تو یہ ہے کہ ڈاکٹرز کی تنظیموں سے یہ توقع کہ وہ ڈاکٹرز کے خلاف ایکشن لے گی۔ وکلا کی تنظیم وکلا کے خلاف ایکشن لیں گی اور انجینئرز سے یہ توقع کے وہ انجینئرز کے خلاف ایکشن لیں گی۔ ایسے ہی جیسے بلی سے یہ توقع رکھنا کہ وہ دودھ کی حفاظت کرے گی۔ اس ضمن میں ایک دلچسپ واقعہ بھی قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔ کہتے ہیں مہاتما گاندھی آنکھیں بندھ کر کے بیٹھے تھے کہ قریب سانپ آگیا اور سانپ نے مہاتما گاندھی کے ارد گرد چکر لگا یا اور پھر مہاتما گاندھی کو کاٹے بغیر چلا گیا۔ مہاتما گاندھی کے مریدین نے اس کو مہاتما گاندھی کا کرشمہ قرا دینا شروع کر دیا کہ سانپ بھی مہاتما گاندھی کو نہیں کاٹتا۔ یہ معاملہ جب قائد اعظم محمد علی جناح کے پاس پہنچا تو انہوں نے کہا کہ یہ باہمی پیشہ ورانہ احترام کا معاملہ ہے۔ ایک سانپ دوسرے سانپ کو نہیں کاٹتا۔ بس یہی واقعہ اس ساری صورتحال کو سمجھنے کے لئے کافی ہے۔


ہمارے ملک میں پیشہ وارانہ امور کے دوران کسی بھی قسم کی نا اہلی یا بد عنوانی کے حوالہ سے کوئی باقاعدہ قانون نہیں ہے۔ اس نے عام آدمی کے لئے بے پناہ مشکلات پیدا کی ہوئی ہیں۔ لوگ ڈاکٹروں کے نارواسلوک سے بہت تنگ ہیں۔ روز روز کی ڈاکٹروں کی ہڑتال نے بھی عام آدمی کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ اسی طرح وکلا کی ہڑتالیں بھی سائلین کے لئے درد سر ہی ہیں۔ لیکن سائل کے پاس ان کے خلاف کوئی اپیل کا حق نہیں۔


ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ضمن میں نئی قانون سازی کی جائے۔ اگر عدلیہ صرف وکلا کے خلاف اس لئے ایکشن لے گی کہ اسے مسئلہ ہے تو یہ جائز نہیں۔ جس طرح وکلا کے رویہ سے عدلیہ کو مسئلہ ہے۔ عدلیہ کے لئے اپنے فرائض انجام دینے میں وکلا کا رویہ رکاوٹ ہے۔ اسی طرح ڈاکٹرز کا رویہ ان کی ہڑتالیں بھی عام آدمی کی زندگی میں رکاوٹ ہیں۔ لوگ ڈاکٹرز کی ہڑتال کے آگے بے بس ہیں جیسے عدلیہ وکلا کے آگے بے بس ہے۔ لیکن عدلیہ تو وکلا کا لائسنس معطل کر کے اپنا زور دکھا رہی ہے، عام آدمی کے پاس تو یہ اختیار نہیں۔ کیا کوئی ہے جو روزانہ ڈاکٹرز کی ہڑتال پر کسی ایک ڈاکٹر کا بھی لائسنس معطل کر سکے؟ یہ عدلیہ ڈاکٹرز کی ہڑتال اور ان کے ناروا رویہ کے خلاف تو رد عمل دیتی ہے اور اب وکلا کے ناروا رویہ پر رد عمل دے رہی ہے۔ کیوں یہ عدلیہ خراب کارکردگی دکھانے والے ججز کو معطل کرتی اور انہیں گھر بھیجتی۔ کیوں اعلیٰ عدلیہ کے تمام ججز کو مقدس گائے کی حیثیت حاصل ہے۔ کیوں نہیں انصاف کا خون کرنے والے ججز کو گھر بھیجا جاتا۔ کیوں تاریخ پر تاریخ دینے والے کسی بھی جج کے خلاف کسی بھی فورم پر کوئی بھی آواز نہیں اٹھا سکتا۔ جب آپ اپنا احتساب کرنے کو تیار نہ ہوں اور دوسروں کا احتساب کرنے کی کوشش کریں گے تو کون مانے گا۔


اگر عدلیہ وکلا کا احتساب کرنا چاہتی ہے تو اسے ججز کے احتساب کا بھی راستہ کھولنا ہو گا۔ ڈاکٹروں کے احتساب کا بھی راستہ کھولنا ہوگا۔ ورنہ یک طرفہ کا روائی کون مانے گا۔ایک طرف انصاف بھی انصاف نہیں بلکہ نا انصافی ہی نظر آتا ہے۔ کاش یہ بات ہماری عدلیہ کے ذمہ داران کو سمجھ آجائے کہ وہ اپنی مرضی کے احتساب کی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد نہیں بنا سکتے۔ اس کو کوئی نہیں مانے گا۔ بلکہ اس سے عدلیہ کا وقار مزید خراب ہو گا۔

مزید :

کالم -