سنسنی خیز خبریں اور تردیدیں ، کون کس کے مقاصد پورے کررہا ہے ؟

سنسنی خیز خبریں اور تردیدیں ، کون کس کے مقاصد پورے کررہا ہے ؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


تجزیہ: قدرت اللہ چودھری
79 ء کی ایک یخ بستہ رات کو سوویت یونین کی افواج رات کے اندھیرے میں افغانستان میں داخل ہوئیں تو پاکستان سے لے کر یورپ تک اور یورپ سے لے کر امریکہ تک خطرے کی گھنٹیاں بج اٹھیں۔ اس وقت تک سوویت یونین کی تاریخ یہ تھی کہ اسکی افواج جس ملک میں داخل ہوگئیں وہاں سے کبھی واپس نہیں گئیں، پورا مشرقی یورپ اس کے زیر نگین تھا اور پورے یورپ کے درو دیوار پر یہ حقیقت موٹے موٹے الفاظ میں کندہ تھی، اس پس منظر میں صدر جنرل ضیاء الحق نے جب سوویت یونین کی مزاحمت کا فیصلہ کیا، تو پاکستان کے اندر اور باہر لوگ ان کے اس فیصلے پر حیران و ششدر رہ گئے، ان کے حامیوں نے اس کو جرأت رندانہ سے تعبیر کیا تو مخالفین نے اسے عاقبت نااندیشانہ قرار دیا، امریکہ بھی اس فیصلے پر حیران و پریشان تھا اور اس وقت کے امریکی صدر کارٹر نے پاکستان کو جس امداد کی پیشکش کی تھی صدر جنرل ضیاء الحق نے اسے ’’مونگ پھلی‘‘ قرار دیا اور صدر کارٹر سے کہا کہ اس امداد کی ضرورت نہیں۔ ضیاء الحق کے مخالفین ہمیشہ اس بات کو خلطِ مبحث کرتے رہے کہ ضیاء الحق نے امریکی جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا حالانکہ واقعات کی ترتیب اس طرح تھی کہ جنرل ضیاء الحق نے جنگ لڑنے کا فیصلہ بہت پہلے کیا اور امریکہ اس جنگ میں بہت بعد میں اس وقت داخل ہوا جب اسے یقین ہوگیا کہ جنرل ضیاء الحق سوویت یونین کی افواج قاہرہ کے آگے بڑھنے کی راہ میں بند باندھنے میں کامیاب ہوگئے اور آئندہ بھی ڈٹ کر کھڑے رہیں گے۔
تاریخ کے ان اوراق میں جھانکنے کی ضرورت اس لئے محسوس ہوئی کہ اس وقت جو مجاہدین سوویت یونین کے مدمقابل کھڑے ہوئے اور جن کے ساتھ پاکستان بھی کھڑا تھا اس وقت دہشت گرد قرار پاگئے جب سوویت یونین کا آخری سپاہی دریائے آمو پار کرگیا۔ سوویت یونین ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا، مشرقی یورپ آزاد ہوگیا اور امریکہ نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ جس ملک کی فوجیں جس ملک میں داخل ہو جاتی تھیں اور کبھی کسی حالت میں واپس نہ جاتی تھیں وہ نہ صرف واپس گئیں بلکہ اس قابل بھی نہ رہیں کہ ایٹمی قوت ہونے کے باوجود اپنے ملک کو جو سپر پاور تھا متحد رکھ سکیں۔ افغانستان کے مجاہدین کے دہشت گرد قرار پانے کی یہ کہانی بڑی طویل اور خونچکاں ہے۔ جب سے روس افغانستان سے واپس گیا ہے افغانستان میں امن قائم نہیں ہوسکا۔ پہلے مجاہدین آپس میں لڑتے رہے، پھر طالبان کا ظہور ہوا، ان کی حکومت بنی، نائن الیون کے بعد امریکہ نے یہ حکومت ختم کردی، حامد کرزئی کو حکمران بنایا، ان کی جگہ اشرف غنی نے لی اور آج افغانستان الزام لگاتا ہے کہ اس کے دکھوں کا ذمہ دار پاکستان ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے جنیوا معاہدے کی مخالفت کی تھی لیکن وزیراعظم جونیجو نے اپوزیشن کے ساتھ مل کر جنیوا معاہدہ کرلیا۔ یہ معاہدہ اگر اس انداز میں ہوتا جس طرح جنرل ضیاء الحق چاہتے تھے تو شاید افغانستان کی تاریخ بھی مختلف ہوتی اور پاکستان کی بھی، وہاں کوئی کرزئی حکمران ہوتا اور نہ اشرف غنی، خطے میں عدم استحکام ہوتا نہ دہشت گردی اور شاید جنرل ضیاء الحق اور ان کے ساتھی جرنیلوں کے طیارے کو حادثہ بھی پیش نہ آتا۔ آج افغانستان اور پاکستان میں جو دہشت گردی ہے اس کی جہتیں اتنی زیادہ ہیں اور اس کے اثرات اتنے ہمہ گیر ہیں کہ ایک مختصر سے تجزیہ کی حدود میں نہیں سما سکتے۔ ہمارے خطے میں جونان سٹیٹ ایکٹرز اس وقت طاقت ور پریشر گروپوں کی شکل میں موجود ہیں ان کی سرپرستی کن لوگوں نے کی اور ان کی خدمات سے کس حد تک فائدہ اٹھایا، اس کی تفصیلات بھی اس تجزیے میں بیان نہیں کی جا سکتیں کہ اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں، لیکن اتنا تو سامنے کی بات ہے کہ آج جن نان سٹیٹ ایکٹرز سے ہم بہت خوفزدہ اور پریشان ہیں، ان کے صنم ہمیں نے تراشے تھے اب جب یہ اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے صنم ہمارے ہی سامنے دیوقامت ہیئت کے ساتھ کھڑے ہوگئے ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ ان کی وجہ سے دنیا ہمارے خلاف ہوگئی ہے۔ بالکل درست کہا جنرل پرویز مشرف نے کہ یہ معاملہ آسان اور سیدھا نہیں ہے، اسے حکمت عملی سے طے کرنا ہوگا۔ اعلیٰ سطح کے سکیورٹی اجلاسوں کی گفتگو کی خبر اگر کسی اخبار میں شائع ہوگئی تھی تو اس کی وضاحت سے مطمئن ہو جانا چاہئے تھا کیونکہ کسی اخبار کا رپورٹر چاہے کتنا بھی باخبر ہو، اس کی خبر کا ذریعہ بہرحال کوئی نہ کوئی بندہ بشر ہی ہوتا ہے، جو خبر لیک کرتے ہوئے اپنے مفادات کو بھی پیش نظر رکھتا ہے، اس لئے اگر کوئی اخبار کا رپورٹر یہ کہتا ہے کہ وہ اپنی خبر کی صحت پر اصرار کرتا ہے تو بھی اسے اپنی محدودات کا اندازہ ہوتا ہے۔ خبر جتنی بھی سنسنی خیز ہو اس تک بہرحال کسی واسطے سے ہی پہنچی ہوتی ہے۔ آج کا دور ویڈیو اور آڈیو کا دور ہے، کیا کسی رپورٹر نے وہ گفتگو ریکارڈ کی تھی جو وزیراعلیٰ پنجاب اور دوسرے رہنماؤں کے منہ میں ڈال کر رپورٹ کی گئی؟ خبر کی اشاعت کے بعد اس کی وضاحت سے مطمئن ہو جانا چاہئے تھا اور جن لوگوں کا نام لے کر ان کے منہ میں بعض فقرے ڈالے گئے تھے جب انہوں نے ہی تردید کردی تو پھر یہ کہانی ختم ہو جانی چاہئے تھی لیکن جن لوگوں کا اصرار ہے کہ حکومت اور فوج کے درمیان مختلف امور پر اختلافات ہیں اور آج کی زبان میں وہ ایک صفحے پر نہیں ہیں ان کا مقصد چونکہ اس طرح کی خبروں سے حل ہوتا ہے اس لئے وہ اسے آگے بڑھاتے چلے جا رہے ہیں۔ سول حکومت کا اپنا دائرہ کار ہے اور فوج کا اپنا، دونوں اپنے اپنے دائرے میں کام کر رہی ہیں اور اس کے اندر کام کرتے ہوئے اچھی لگتی ہیں لیکن جن لوگوں کو یہ پسند نہیں وہ اس طرح کی خبروں کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ یہ خبر اگر بھارتی میڈیا میں مرچ مصالحوں کے ساتھ زیر بحث ہے تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن پاکستان میں اسے جن زاویوں سے نمایاں کیا جا رہا ہے اس کا فائدہ مودی کی حکومت کو ہو رہا ہے۔ پاکستان کا الیکٹرانک میڈیا اگر اس پہلو کو بھی پیش نظر رکھے تو بہتوں کا بھلا ہوگا۔

مزید :

تجزیہ -