جہانگیر ترین کے الیکشن کمیشن اور ایف بی آر کے گوشواروں میں فرق کیوں ہے؟،چیف جسٹس ثاقب نثار
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)سپریم کورٹ میں جہانگیرترین کیخلاف نااہلی کیس کی سماعت، چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی مقدمے کی سماعت کی ،دوران سماعت چیف جسٹس ثاقب نثار نے جہانگیر ترین کے وکیل سے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن اورایف بی آر کے گوشواروں میں فرق کیوں ہے؟۔
جہانگیر ترین کے وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ عدالت ٹیکس آڈٹ کے معاملات میں مداخلت نہ کرے، متعلقہ فورم سے مقدمات کی اپیل سپریم کورٹ میں آنی ہے،عدالت کی تشریح سے متعلقہ فورم پرٹیکس کے معاملات متاثرہوں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ٹیکس کے معاملات ہائیکورٹ سے بھی منگوا سکتے ہیں۔
اس پر سکندر بشیر نے کہا کہ عدالت ٹیکس معاملات منگوانے کانوٹس دے توجواب دیں گے۔
دوران سماعت جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت نااہلی کے معاملے کاجائزہ لے رہی ہے،کیا گوشواروں میں کوئی غلط بیانی نہیں کی گئی،الیکشن کمیشن میں بظاہر زرعی آمدنی چھپائی گئی،جہانگیرترین نے ذاتی زرعی زمین پرٹیکس دیا،ہم نے یہ نہیں دیکھناکہ جہانگیرترین نے کتناٹیکس دیا۔
وکیل جہانگیرترین نے کہا کہ ٹیکس گوشواروں کو 2 سال کے اندرکھولاجاسکتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ معاملہ متعلقہ فورم پرزیرالتوا ہو تو اس وقت کیاکیاجائے؟،کیامتعلقہ فورم سے فیصلے کا انتظارکیاجائے؟۔
دوران سماعت جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن فارم میں مکمل آمدن پوچھی گئی ہے جونہیں بتائی گئی،الیکشن فارم میں مکمل زرعی آمدن چھپائی گئی۔
سکندر بشیر نے کا کہنا تھا کہ فارم میں پوچھا گیا کہ وہ آمدن بتائیں جس پرٹیکس دیااورجس آمدن پرٹیکس دیاوہ لکھ دی۔
اس پر جسٹس عمرعطابندیال نے کہا کہ ایسی صورت میں آپ آمدن والاخانہ خالی چھوڑدیتے۔