عام لوگوں میں یہ خیال راسخ ہو چکا ہے کہ شاعر کے لیے شراب ایک ضروری چیز ہے ۔ لیکن میں آپ کو حقیقت بتانا چاہتا ہوں کہ شراب اور شاعری کا دور کا بھی تعلق نہیں ہے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ اب شراب کا چلن کم ہو گیا ہے اور پاکستان میں یہ اس طرح اب نہیں پی جاتی جس طرح پارٹیشن سے پہلے پی جاتی تھی۔ پہلے شاعروں میں اکثر شراب پی جاتی تھی اور اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ شراب پی کر شعر لکھتے تھے یا شاعری کے لیے یہ ضروری تھی بلکہ دراصل جن محفلوں میں شعر و شاعری ہوا کرتی تھی عام طور پر وہ محفلیں رؤسا کی ہوتی تھیں اور ان میں فیشن کے طور پر بھی شراب پی جاتی تھی۔ چنانچہ شاعر جہاں بھی جاتے تھے ان کی شراب سے تواضع ہوتی تھی۔ اس کے بعد شاعری کی محفلیں ہوتی تھی۔
داستانوں میں ہم نے پڑھا اور سنا تھا کہ مرزا غالب خوب پیتے تھے اور :
قرض کی پیتے تھے مے اور دل میں کہتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 84 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اس کے پیچھے کچھ داستانیں بھی سنائی دیتی تھیں۔ ایک اور داستان بھی سنی تھی کہ وہ ایک بار مسجد میں نماز پڑھنے گئے اور سلام پھیرا تو پیچھے کافی دوران کے شاگرد کھڑے تھے۔ شاگرد نے دور ہی سے شراب کی بوتل دکھائی۔ مرزا اس وقت فرض نماز پڑھ چکے تھے لیکن ابھی سنت نماز بقایا تھی مگر وہ سب کچھ وہیں چھوڑ کر باہر چلے آئے اور کسی نے اس دوران ان سے پوچھا کہ نماز آدھی کیوں چھوڑ دی تو کہنے لگے کہ جب فرض پڑھتے ہی اللہ تعالیٰ نے دعا پوری کر دی ہے تو سنت پڑھنے کی کیا ضرورت ہے ۔ ان کے بارے میں اس طرح کی داستانیں مشہور تھیں۔
عصر حاضر کے شاعروں میں جگر مراد آبادی کی شراب نوشی کی داستانیں عروج پر تھیں انہیں لوگوں نے ورافتگی کے عالم میں دیکھا اور یہ بھی دیکھا کہ پینے کے باوجود وہ ایک اعلیٰ درجے کے شاعر ہیں اور مشاعروں پر چھا جاتے ہیں ۔
پھر مجاز لکھنؤی کی شراب نوشی کے قصے اور لطیفے بھی سن رکھے تھے۔ جوش صاحب سے ان کا یک لطیفہ مشہور تھا۔ جوش صاحب کی عادت تھی کہ وہ بالکل روزہ داروں کی طرح مے نوشی کا اہتمام کرتے تھے اور شام کو دیکھتے تھے کہ سورج کس وقت غروب ہوا۔ چنانچہ یہ بھی افطاری کرنے والے کی طرح سورج غروب ہوتے ہی جام اٹھاتے تھے اور پینی شروع کر دیتے تھے۔ اس سلسلے میں ان کا شعر بھی ہے کہ
جب مہر مبیں غروب ہو جاتا ہے
پیمانہ بکف طلوع ہوتا ہوں میں
وہ اس کے ساتھ یہ اہتمام کرتے تھے کہ گھڑی سامنے رکھ کر پون گھنٹے میں ایک پیگ ختم کیا کرتے تھے۔
اسرار الحق مجاز بہت فقرہ باز تھے انہوں نے جوش صاحب سے کہا کہ جوش صاحب ! آپ تو گھڑی سامنے رکھ کر پیتے ہیں لیکن ہم گھڑا سامنے رکھ کر پیتے ہیں۔ لطیفے کی حد تک تو یہ ٹھیک ہے لیکن گھڑا سامنے رکھ کر پینے والوں کے ساتھ جو کچھ شراب نے کیا وہ عبرت ناک ہے ۔ بہر حال مجاز، جوش ، فراق، گور کھپوری غرضیکہ جتنے نامور شعراء تھے سبھی پیتے تھے اور نئی نسل میں جنہیں شاعری سے شغف ہوتا تھا اور جن میں شاعری کے جراثیم ہوتے تھے وہ سمجھتے تھے کہ جتنے بھی بڑے شاعر ہیں یہ سب شراب پی کر بڑے بنے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ شاعر اور شعور دو بہت قریب کی چیزیں ہیں۔ اور ایک ہی قبیلے کی چیزیں ہیں اور جب تک شعور بیدار نہ رہے شعر نہیں ہوتا۔ اور شراب کے بارے میں تو یہ ہے کہ اگر تھوڑی زیادہ پی لی جائے تو پینے والا شخص سوچ کے قابل نہیں رہتا ۔ اور اگر کوٹے کے مطابق بھی پی لے تو بھی یہ تو ہو سکتا ہے کہ پینے والے کی زندہ دلی یا لطیفہ گوئی بڑھ جائے یا وہ جملہ بازی زیادہ کرنے لگے یا غم بھول کر ہنسی خوشی کی باتیں کرے۔ لیکن شعر کہنا پینے کے بعد آسان نہیں ہوتا۔
میں یہ بات اس لیے بھی کہہ رہا ہوں کہ میں خود پیتا رہا ہوں اور یقین جانئے کہ میں نے شراب نوشی کے عالم میں کبھی ایک شعر نہیں کہا۔ اگر کبھی کہنے کو بیٹھا ہوں تو اس وقت تو یوں لگا جیسے میں نے کاغذ پر آسمان کے تارے توڑ کر رکھ دیئے ہیں لیکن جب صبح اٹھ کر دیکھا تو وہ اشعار اتنے پھیکے ہوتے تھے کہ میں حیران ہوتا کہ رات کو تو اتنے اچھے نظر آرہے تھے مگر اب یہ زیادہ اچھے نظر نہیں آرہے ۔ مجھے بالآ خر اس بات کی سمجھ آگئی کہ پیئے ہوئے آدمی کو ایک معمولی سا چہرہ نظر آئے تو شراب اسے خوبصورت بنا کر پیش کرتی ہے اور ایک چیز کے حسن کو یوں ہی بڑھا دیتی ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس وقت جو آپ کو ستارہ نظر آرہا ہو درحقیقت وہ ایک کنکر ہو اور پھر اپنے شعر پڑھ کے اس وقت لگتا ہے کہ میں غالب سے آگے نکل گیا ہوں ۔ اگر شراب پی کر شعر کہے جائیں تو نتیجہ یہی رہتا ہے۔
میں نے اختر شیرانی سے پوچھا تھا کہ آپ شعر کس وقت کہتے ہیں۔ کہنے لگے کہ یوں تو ہر وقت کہہ سکتا ہوں لیکن صبح جب میں جاگتا ہوں تو زیادہ تر اس وقت کام کے شعر ہو جاتے ہیں۔ سعادت حسن منٹو بہت پینے والے تھے۔ وہ شاعر تو نہیں لیکن ایک بہت اچھے افسانہ نگار تھے۔ ان کا تو عالم یہی تھا کہ صبح اٹھ کر شیو کر کے تیار ہو کر اچھا لباس پہنتے ۔ ناشتہ کر کے لکھنے کے لیے بیٹھ جاتے۔ جتنا بھی ادبی کام ہوتا تھا وہ صبح آٹھ اور دس بجے کے درمیان کر لیتے اور اس کے بعد پینا شروع کر دیتے تھے اور نجانے کب تک پیتے چلے جاتے تھے۔ اس دوران وہ صرف ایک ہی کام کر سکتے تھے کہ اگر کسی فلم کمپنی نے کہانی پر بحث رکھی ہوتی یا مکالمے لکھنے ہوتے تو وہ کام کر لیتے تھے۔ لیکن ان کا سارا تخلیقی کام صبح اس وقت ہوتا تھا جب رات کا نشہ دور ہو چکا ہوتا تھا اور ابھی پینی شروع نہیں کی ہوتی تھی۔ انہی چند گھنٹوں کے دوران وہ تخلیقی کام کرتے تھے۔ (جاری ہے )
قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 86 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں