گورنمنٹ کالج لاہور میں سوندھی ٹرانسلیشن سوسائٹی کے زیرِ اہتمام سیمینار
گورنمنٹ کالج کی یہ دیرینہ روایت رہی ہے کہ یہاں وقتاً فوقتاً ادبی و علمی سوسائٹیز کے زیرِ اہتمام مختلف موضوعات پر پروگرام، اجلاس اور سیمینارز منعقد کرائے جاتے ہیں۔ادبی ارتقاء کے اس کاوش نے گورنمنٹ کالج کو وہ اعزاز بخشا ہے کہ اس کی ملائم آغوش میں نامور علمی اور لٹریری افراد پیدا ہوئے۔یہاں سے فارغ التحصیل طلباء ہماری روایت، ثقافت، معاشرت اور تہذیب کے امین بن جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ گورنمنٹ کالج تمام جامعات اور کالجز کے مابین ایک عظیم ادارے کی حیثیت رکھتا ہے۔
عالمی یوم ترجمہ نگاری کے موقع پر سوندھی ٹرانسلیشن سوسائٹی کی جانب سے کالج میں ایک سیمینار بعنوان" ترجمے کے عصری تقاضے" کرایا گیا جس میں ترجمہ نگاری سے منسلک شہرہ آفاق شعراء وادبا نے شرکت کی۔جن میں پروفیسر ڈاکٹر سعادت سعید(معروف شاعر، محقق، نقاد)،مسعود اشعر صاحب (کالم نگار، مترجم)، نیلم حسین صحبہ (سماجی کارکن، ادیب)،ڈاکٹر فیصل کمال حیدری (محقق، ترجمہ نگار) ڈاکٹرغلام علی( چئیر مین شعبہْ ترجمہ نگاری، گجرات یونیورسٹی ) اور ڈاکٹر یاسمین( مترجم، مصنفہ) شامل ہیں۔اس موقع پر نظامت کے فرائض ڈاکٹر صدیق اعوان صاحب نے سر انجام دیے۔ ابتدا میں صدر سوندھی ٹرانسلیشن سوسائٹی ظاہرمحمود نے سوسائٹی کا تعارف پیش کرتے ہوئے کہاکہ یہ وہ نامور سوسائٹی ہے جو ترجمہ نگاری کے میدان میں 1937ء سے سرگرمِ عمل ہے۔ بنیادی طور پر ترجمہ دو ثقافتوں کا سنگم ہوتا ہے۔ ایک ترجمہ نگار دو تہذیبوں کے درمیان پل کی سی حیثیت رکھتا ہے۔اس کے بعد پروفیسر ڈاکٹر سعادت سعید کو مدعو کیا گیا۔سوسائٹی کے سربراہ کی حیثیت سے انہوں نے تمام مہمانان کو خوش آمدید کہا۔ مزید یہ کہ انہوں نے اس بات پر مسرت کا اظہار کیا کہ طلباء کی بڑی تعداد کا رجحان ترجمہ نگاری کے شعبے کی جانب مبذول ہورہاہے۔
ڈاکٹر فیصل کمال نے غالب کی شاعری کو بنیاد بنا کر ترجمہ نگاری کی اہمیت، تیکنیک اور اس کے نقائص وخصائل پر بحث کی۔ان کا کہنا تھا کہ ترجمہ نگاری میں بہترین متن وہ ہے جس میں حقیقی مفہوم کا بھی احترام ہو اور اسلوبی بہاؤ بھی قائم رکھا جائے۔محترمہ نیلم حسین کا کہنا تھا کہ ترجمے میں لطف انگیزی کا عنصر لازمی ہونا چاہیے تاکہ قاری کسی طور اکتانے نہ پائے۔نیز یہ کہ ثقافتی پرداخت کو ملحوظ رکھنا نہ صرف خاصا مشکل ہے بلکہ ایک حد تک ناممکن بھی ہے۔گجرات سے آئے ڈاکٹر غلام علی نے ترجمہ نگاری کو دو معاشروں میں ملاپ کی بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ ترجمے کو محض ادب تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ اس کے دائرے کو سائنسی، جغرافیائی ،تاریخی اور نصابی حدود تک وسعت دی جائے۔انہوں نے اس خواہش کااظہار کیا کہ ہر علمی ادارے میں اس شعبے سے منسلک سوسائٹیز لازمی فعال ہونی چاہیں۔ ڈاکٹر یاسمین نے ترجمہ نگاری کے پیچ وخم اور اس کے طریقہ کار پر گفتگو کی۔ان کی رائے کے مطابق ہدفی زبان پر دسترس ہونا لازمی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ترجمہ کرتے وقت ایک زبان کے سابقے، لاحقے، محاورات، مضامین، اسلوبی رجحان اور دیگر پیچیدگیوں کا خاص خیال رکھا جانا چاہیے۔مسعود اشعر صاحب نے اس لمحہْ فکریہ کی جانب توجہ دلائی کہ ہماری زبان میں علم پیدا نہیں ہو رہا۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ایک باقاعدہ" دارالترجمہ" قائم کیا جائے جسے حکومتی سرپرستی حاصل ہونی چاہیے۔
اختتام پر رئیسِ جامعہ پروفیسر ڈاکٹر حسن میر شاہ صاحب(ستارہ امتیاز) نے اس پروگرام کو بہترین کاوش قرار دیتے ہوئے مہمانان شکریہ ادا کیا اور مہمانان میں سوئینر پیش کیے جبکہ سوندھی کے زمہ داران کو شیلڈز سے نوازا گیا۔اس بابت راقم الحروف کو "پریس سیکریٹری " کاایوارڈ دیا گیا۔ چائے نوش فرمائی گئی۔ یوں ترجمہ نگاری کے حوالے سے نامور ادبی حضرات کی جانب سے کی جانے والی سیرِ حاصل گفتگو کی گونج میں یہ سیمینار اپنے اختتام کوپہنچا۔