وائس چانسلر کی عدم تعیناتی پر جی سی ویمن یونیورسٹی دفیصل آباد کے معاملات ٹھپ
فیصل آباد(نامہ نگار خصوصی)جی سی ویمن یونیورسٹی فیصل آباد کی سابق وائس چانسلر کی ریٹائرڈمنٹ کے بعد یونیورسٹی کی حیثیت لاوارثوں جیسی ہو گئی. نئی وائس چانسلر کی منتظر اس یونیورسٹی میں زیادہ تر معاملات ڈنگ ٹپاؤ پالیسی کے تحت چلائے جا رہے ہیں یہاں تک یونیورسٹی ملازمین کو ماہ ستمبر کی سیلری سلیپس تو جاری کر دی گئی ہیں مگر 10روز زائد ہو جانے کے باوجود ابھی تک کسی کو تنخواہ نہیں مل سکی. اس کے علاوہ بہت سی اہم فائلیں بھی رکی پڑی ہیں۔تفصیلات کے مطابق ویمن یونیورسٹی کی وائس چانسلر ڈاکٹر نورین عزیز قریشی کی چار سالہ مدت ملازمت 9ستمبر کو پوری ہو چکی ہے اس طرح ایک ماہ گزر جانے کے باوجود کسی بھی اہل خاتون وائس چانسلر کی تقرری نہیں کی گئی تقریباً سبھی یونیورسٹی معاملات خاتون رجسٹرار ہی چلا رہی ہیں اور ان کے پاس بھی ایڈمنسٹریشن کا کوئی خاص تجربہ نہیں ، یونیورسٹی میں وائس چانسلر کی میرٹ پر تعیناتی حکومت کیلئے ایک امتحان بن چکی ہے. موجودہ حکومت کی سیاسی مداخلت سے گریز کی پالیسی کے باوجود سیاسی وابستگی کی حامل امیدوار اپنی اپنی تعیناتی کیلئے جوڑ توڑ میں مصروف ہیں. سابق وائس چانسلر نے ملازمین کی تقرریوں کے معاملات اپنی ریٹائرمنٹ سے تقریباً 6 /7 ماہ قبل ہی روک لئے تھے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ انہوں نے ان تقرریوں کے معاملات آنے والی پی ٹی آئی کی حکومت کے کار پردازوں سے تعلقات استوار کرنے کیلئے روک رکھے تھے بلکہ انہوں نے اپنے آخری اوقات میں اس سے فائدہ اٹھانے کی مقدور کوشش بھی کی کہ انہوں نے ن لیگی ایم این ایز کی طرح پی ٹی آئی کے تین چار بااثر فیصل آبادی ارکان پارلیمنٹ کے سفارشی چند ایک عارضی ملازم بھرتی کر کے ان کے اندر اپنے لئے نرم گوشہ بھی پیدا کر لیا‘ ماضی کی حکومتوں کے دور میں بھی ان تعلیمی اداروں کے سربراہان ارکان پارلیمنٹ اور ارکان اسمبلی کو عارضی سفارشی ملازمین کی بھرتیوں کے ذریعے ان کے دلوں میں نرم گوشہ پیدا کرتی رہی ہیں جس کا ان ارکان نے بہت مفاد بھی حاصل کیا اور اب موجودہ حکومت کے بااثر ارکان بھی ان سے پیچھے نہیں رہے. ایک ایم این نے اپنے 13سفارشی‘ دوسرے نے 5اور تیسرے نے اب تک 3سفارشی ملازمین بھرتی کروا کر اپنا مشن شروع کر دیا ہے۔
جی سی فیصل آباد