اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 54
دن بھر ہم پہاڑیوں کوسر کرتے رہے ۔ یہ ایک سنسان اور غیر آباد علاقہ تھا اور راستے میں ہمیں کوئی بستی نہ ملی ۔ شام سے تھوڑی دیر تک ہم ایک ایسی وادی میں آگئے جہاں دریا سرسبز میدان میں بل کھاتا ہوا بہہ رہا تھا۔ گھنے ہرے بھرے درختوں پر پھول کھلے تھے اور جگہ جگہ چشمے پھوٹ رہے تھے اور جنگلی گلاب کی بیلیں چٹانوں پر چڑھی ہوئی تھیں۔ قنطور نے کہا۔
’’ یہ جگہ مناسب رہے گی۔ ہم اسی مقام پر قیام کریں گے ۔‘‘
روپا کو ہوش آرہا تھا۔ قنطور ابھی تک راج دیوتا کی شکل میں تھا۔ ہم نے ایک پر فضا جگہ کا انتخاب کیا اور روپا کو ایک چشمہ کے کنارے ، جنگلی گلابوں کی جھاڑیوں کے پاس لٹا دیا۔ قنطور نے مجھے قریب ہی ایک غار میں چھپا دیا اور مجھے ہدایت کی کہ جب وہ آواز دے تو میں باہر نکل آؤں ، وہ کود روپا کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ سورج پہاڑیوں میں غروب ہو رہا تھا اور دادی پر شام کے ٹھنڈے سائے پھیل رہے تھے۔ روپا کو ہوش آگیا۔ اس نے آنکھیں کھول کر اپنے سامنے لکھ راج دیوتا اور اردگرد پر فضا مقام کو دیکھا تو اٹھ بیٹھی اور قنطور کے آگے سجدہ کردیا۔ قنطور نے اپنے چاروں بازو بلند کئے اور کہا۔
اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 53 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’ روپا ! تم سورگ میں پہنچ چکی ہو۔ تمہیں یہ سن کر خوشی ہوگی کہ دنیا سے یہاں آنے کے بعد تمہارے محبوب بطلیموس نے خود کشی کرلی تھی۔ وہ تمہاری جدائی برداشت نہ کر سکا۔ اس کی محبت اسے یہاں سورگ میں تمہارے پاس کھینچ لائی ہے میں نے اس کی روح کو دوبارہ انسانی شکل عطا کر دی ہے۔ اب تم اپنے محبوب کے ساتھ اس سورگ میں ہمیشہ کی زندگی بسر کرو گی۔ ‘‘
روپا حیرانی سے منہ اٹھائے قنطور کی باتیں سن رہی تھیں۔ میں غار کی دیوار کے ساتھ لگا اس کے چہرے کے ایک ایک تاثر کو دیکھ رہا تھا۔ قنطور نے مجھے آواز دی اور میں غار سے نکل کر روپا کے سامنے آگیا۔۔ روپا خالی خالی نظروں سے مجھے دیکھتی رہی۔ قنطور نے بلندآواز میں کہا۔
’’روپا ! یہ تمہارا محبوب ہے۔ اس نے تم پر جان دے دی ہے اس کی محبت تمہیں سورگ میں ابد تک زندہ رکھے گی۔ کیا تم اس کی محبت سے انکار کرتی ہو؟‘‘
روپا ایک ضعیف الاعتقاد عورت تھی اور پھر لکھ راج دیوتا کو اپنے بالمقابل دیکھ رہی تھی۔ وہ میری محبت اور دیوتا لکھ راج کے فیصلے کو کیونکر جھٹلا سکی تھی اور پھر اس کے دل میں میری محبت بھی تھی۔ وہ میری طرف دیکھ کر مسکرائی لیکن اچانک سنجیدہ ہو کر دیوتا لکھ راج کے سامنے باندھ کر کھڑی ہوگئی اور بولی ۔
’’ عظیم دیوتا! دنیا میں میرا جسم اور میری روح میرے خاوند کی امانت تھی۔ کیا آکاش میں میرے پتی کی روح مجھے نہیں ملے گی؟‘‘
میں کچھ کہنے ہی والا تھا کہ قنطور نے فوراً جواب دیا۔
’’ روپا ! اس تمہارے محبوب کے جسم میں تمہارے خاوند کی روح بھی حلول کر گئی ہے۔ یہ تمہارا محبوب بھی ہے اور خاوند بھی۔ اب تم اس کی امانت ہو۔ تم دونوں سورگ میں خوش و خرم رہو۔ ‘‘
اور لکھ راج دیوتا یعنی میرا دوست قنطور اپنے گھوڑے کو دوڑاتا ہوا پہاڑوں کے پیچھے غائب ہوگیا۔ میں نے روپا کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھام لیا اور کہا۔
’’ روپا ! میں دنیا میں تمہاری جدائی برداشت نہیں کر سکا جب مجھے پتہ چلا کہ تم لکھ راج دیوتا کے ساتھ آکاش کو سدھار گئی ہو تو میری دنیا اند ھیر ہوگئی۔ میں شمشان میں آگیا۔ دیکھا کہ چتا پر تمہارے خاوند کی لاش جل رہی تھی۔ میں نے دل میں تمہیں آواز دی اور چتا پر کود گیا۔ پھر میرا جسم جل کر راکھ بن گیا اور تمہارے خاوند کی روح بھی میری روح میں حلول کر گئی اور جب لکھ راج دیوتا نے مجھے آواز دی تو میں آکاش کے دور دراز ستاروں سے اتر کر یہاں سورگ میں تمہارے پاس پہنچ گیا۔ ‘‘
روپا کے آنکھوں میں آنسو تھے۔ اس کے سرخ ہونٹ کپکپا رہے تھے۔ اس کو یقین آچکا تھا کہ میں خود کشی کر کے اس کے پاس سورگ میں پہنچ چکا ہوں اور میری روح مین اس کے خاوند کی روح بھی شامل ہے۔ اس نے اپنے ہاتھوں کی انگلیاں میرے چہرے پر پھیرتے ہوئے کہا۔
’’ میرے محبوب ! میرے خاوند ! دیوتا پر مہربان تھے میرے محبت نے آخر تم دونوں کو جیت لیا۔ میں کس قدر خوش قسمت ہوں ، میں سورگ میں ہوں۔ اپنے محبوب کے ساتھ ، اپنے خاوند کے ساتھ ۔ ‘‘
میں بہت خوش تھا لیکن یہ مسرت عارضی اور نقلی تھی۔ ہم نے زمین کے ایک سر سبزو شاداب ٹکڑے کو جنت ارضی کے لئے چن تو لیا تھا مگر اسے زیادہ دیر تک جنت ثابت نہیں کرسکتے تھے۔ میرا سانپ دوست قنطور لکھ راج دیوتا کا روپ بدل کر اپنی اصلی شکل میں اسی وادی میں کسی جگہ چھپا ہوا تھا۔ ہم اس انتظار میں تھے کہ روپا پر اس جنت ارضی کا نقشہ پختہ ہوجائے تو اسے ساتھ لے کر آگے شمالی ہند کے کسی ریاست کی طرف روانہ ہوں لیکن روپا پر بہت جلد جنت کا نقش باطل ثابت ہونے لگا۔ اس کے مذہبی ذہن میں بچپن ہی سے جس سورگ کا تصور بٹھایا گیا تھا وہاں دنیاوی آلائش نہیں تھیں اور چاروں طرف دیوتا الپسرائیں رقص کرتی تھیں۔ لیکن اس وادی میں یہ سب کچھ ہم پیدا نہیں کرسکتے تھے۔ روپا کے دل میں شک کی لہریں اٹھنے لگیں اور وہ کسی وقت گھاس ، مٹی اور پھولوں اور چشمے کے پتھروں کو غور سے دیکھنے لگتی اور کہتی۔ سورگ میں تو مٹھی پتھر نہیں ہوتے۔ میری ماتا کہا کرتی تھیں کہ سورگ میں پتھروں کی جگہ ہیرے جواہرات ہوتے ہیں اور بھوک نہیں لگتی۔ ان سوالوں کا میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ رہی سہی کسر ایک رات میرے اور قنطور کے درمیان ہونے والے مکالمے نے پوری کردی۔
قنطور رات کو میرے پاس آیا ہوا تھا۔ ہم ایک جگہ گھنی جھاڑیوں کے پاس بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ روپا کے ذہن میں اس جنت کو ہم کب تک اصلی کر کے پیش کر سکیں گے کہ روپا نے ہماری باتین سن لیں۔ وہ جھاڑیوں میں سے نکل کر ہماری سامنے آگئی۔ ستاروں کی نیلی روشنی میں اس کی آنکھوں سے آنسو بہتے صاف نظر آرہے تھے۔ اس نے آسمان کی طرف ہاتھ بلند کئے او رکہا۔
’’ بھگوان ! یہ مجھے میرے کس جنم کے گناہ کی سزا ملی ہے ۔ میرے ساتھ دھوکہ ہو اہے۔ دیوتاؤں نے میرے ساتھ فریب کیا ہے۔ میں زندہ ہوں۔ گناہوں سے بھری دنیا مین زندہ ہوں۔ہے بھگوان میرے خاوند کی روح کو کہو کہ میں آرہی ہوں۔ میں آرہی ہوں۔ میں اس کے ساتھ ستی نہیں ہوسکتی مگر میں آرہی ہوں کہ مجھے معاف کردینا۔ ‘‘
اور اس سے پہلے کہ میں اور قنطور لپک کر اسے بچاتے اس نے اپنے ساڑھی کے اندر چھپایا ہوا خنجر نکالا اور چشم زدن میں اسے اپنے دل میں گھونپ لیا۔ خون کا ایک فوارہ اس کے سینے سے بلند ہوا اور وہ چیخ مار کر زمین پر گر پڑی۔ میں نے جلدی سے اس کے سینے سے خنجر باہر کھینچ لیا۔ قنطور بھی گھبرا گیا۔ ہمیں ہر گز توقع نہیں تھی کہ روپا وہیں چھپی ہماری باتیں سن رہی ہوگی اور وہ اتنی جلدی خنجر سے اپنے آپ کو ہلا ک کر لے گی۔ ہم نے اسے بچانے کی ہزاروں تدبیریں کیں مگر روپا نے دم توڑ دیا۔ میں نے اس کی خون آلود نعش کو اپنے سینے سے لگا لیا اور سسکیاں بھرتے ہوئے رونے لگا۔ قنطور اس الم انگیز المیے کو خاموشی سے دیکھ رہا تھا۔ اس نے مجھے حوصلہ دیتے ہوئے کہا۔
’’ عاطون ! تم ایک غیر معموملی اور ماورا انسان ہومگر میں دیکھ رہا ہوں کہ تم میں انسانی ذہن اور جذبات کی ساری کمزوریاں موجود ہیں، اب حوصلہ کرو۔ یہ عورت اپنے خاوند کی امانت تھی دنیا میں بھی اور آسمانوں میں بھی۔ ‘‘
میں نے قنطور کو کوئی جواب نہ دیا۔ ہم نے اس جگہ لکڑیاں جمع کر کے ایک چتا بنائی اور روپا کو اس پر لٹا کر اس کے ہندو مذہب کے مطابق نذر آتش کر دیا۔ صبح میں نے اپنی آتش زدہ محبت کی راکھ کے پھول ایک ندی میں بہا دیئے۔ میرا سانپ دوست قنطور میرے ساتھ تھا مگر میں دیکھ رہا تھا کہ اس پر اس المیے کا کوئی خاص اثر نہیں ہوا تھا اور ہوتا بھی کیوں۔ وہ ایک سانپ تھا۔ بنیادی طور پرانسان نہیں تھا۔ پھر بھی اسے میرے دکھ درد سے ہمدردی تھی اور میرے ہم راز ، ہم سفر اور ہم دور ہونے کے ناطے اس نے ہر طرح سے میری دل جوئی بھی کی تھی اور مجھے اس قسم کی انسانی کمزوریوں سے بلند تر ہونے کی تلقین بھی کی تھی۔ وہ کہتا تھا کہ میں ایک غیر معمولی انسان ہوں اور میرے جذبے اور ان کے ساتھ میرا رویہ بھی غیر معمولی ہونا چاہیے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میں ایک عام انسان نہیں تھا۔ میرے اندر طاقت کا ایک ایسا کوہ ہمالیہ پوشیدہ تھا کہ جس کو موت کا ہاھ بھی اپنی جگہ سے نہیں ہلا سکتا تھا لیکن اس کے باوجود میں محبت میں عام انسانوں کی طرح کمزور تھا پھر بھی مجھے اپنے سانپ دوست قنطور کے خیالات سے اتفاق تھا اور میں اس نہج پر سوچنے لگا تھا کہ مجھے کمزور انسانوں کی بشری کمزوریوں سے اپنے دامن کو چھڑا لینے کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ میرا تاریخ اور زندگی کا سفر ناقابل ختم تھا اور کوئی بھی غم میرے ساتھ ابدی روگ کی حیثیت اختیار کر سکتا تھا اور یہ بات ناقابل برداشت تھی۔ اب ہمارے لئے اس سرسبز و شاداب جنت نظیر وادی میں کیا رکھا تھا۔ خاص طور پر مجھے تو وہاں کے ایک ایک شجر سے اپنی گم شدہ محبت کی خوشبو آتی تھی۔ روپا سے میں نے محبت کی تھی۔ ایک عام انسان کی بھر پور جذبے اور تمام بشری کمزوریوں کے ساتھ محبت کی تھی۔ ابھی میں جذباتی اعتبار سے اتنا طاقت ور نہیں تھا۔ چنانچہ ہم گھوڑوں پر وار ہوئے اور ہم نے اس وادی محبت کو خیرباد کہہ دیا۔
(جاری ہے ۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)